شوذب
محققین کے مطابق شوذب بن عبد اللہ ہمدانی عابس بن ابی شبیب شاکری کے غلام تھے اور کربلا کے جری تھے۔ اپنے مالک کے ہمراہ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔
خصوصیات شوذب
ترمیمشوذب یاران امام علی علیہ السلام میں سے تھے اور جنگِ سہ گانہ علی یعنی جمل، صفین اور نہروان میں شریک تھے۔[1]
صحابیت
ترمیمجناب شوذب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے باوفا ساتھی تھے۔ شوذب علم و تقویٰ کے اعتبار سے بلند پایہ شخصیت تھے۔ کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لیے حضرت امیر المومنین کی احادیث نقل کرتے تھے اور حضرت علی کے ساتھ جنگوں میں شریک رہے۔ جب حضرت مسلم بن عقیل جب کوفہ میں پہنچے تو ان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام تک اہل کوفہ کے مزید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔ نہایت مخلص اور عابد و زاہد انسان تھے۔ بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا۔ کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسین کی خدمات میں کربلا پہنچے اور یزیدی لشکر سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
قبیلہ
ترمیمھمدان کی ایک شاخ قبیلہ شاکر کے غلام زادوں سے اور عابس بن ابی شبیب شاکری سے وابستہ تھے۔شیعانِ کوفہ میں اپنے اوصاف کی بنا پر نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور ایک طرف تو میدانِ جنگ کے شہسوار تھے دوسری طرف احادیث کے حافظ اور حضرت علی علیہ السلام سے استفادہ کیے ھوئے تھے اور کوفہ میں اس باب میں مرجعیت رکھتے تھے لوگ ان سے احادیث حاصل کرنے آیا کرتے تھے.
ہمراہی امام
ترمیمجب عابس جناب مسلم علیہ السلام کا خط لے کر کوفہ سے مکہ معظمہ روانہ ھوئے تھے تو شوذب بھی ان کے ساتھ تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ مکہ معظمہ سے پھر عراق اور کربلا پہنچے تھے.
روز عاشورا
ترمیمروزِ عاشور عابس نے اپنے باوفا غلام سے کہا "کیوں شوذب تمھارا کیا ارادہ ہے؟ شوذب نے کہا ارادہ کیا ہے؟ یہی کہ آپ کے ساتھ رہ کر فرزندِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت میں جنگ کروں اور قتل ھوجاؤں، عابس نے کہا شاباش مجھے تم سے یہی امید تھی، اچھا تو پھر آگے بڑھو اور امام (علیہ السلام) پر جان نثار کرو تاکہ امام (علیہ السلام) تمھاری مصیبت بھی اسی طرح دیکھ لیں جیسے اپنے دوسرے اصحاب کی دیکھی اور میں بھی تمھارے غم کو برداشت کرکے ثواب کا مستحق بنوں، یقینًا اگر اس وقت کوئی ایسا شخص میرے ساتھ ہوتا جس پر مجھے اس سے زیادہ اختیار حاصل ہوتا جتنا مجھے تم پر حاصل ہے تو میری خوشی یہ ھوتی کہ وہ میرے سامنے جائے تاکہ میں اس کے غم کو برداشت کروں کیونکہ آج وہ دن ہے جس میں انسان سے جتنا ھوسکے اتنا اجر و ثواب حاصل کرلے.اس لیے کہ آج کے دن کے بعد ہمارے عمل کا دفتر بند ھوجائیگا اور حساب کے سوا کچھ رہ نہیں جائیگا"
یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں اطمینانی حالت میں شاعری کے طور پر ھر شخص کہہ سکتا ہے لیکن عین مصیبت کے موقع پر واقعی طور انکا اس طرح کہنا کہ عمل سے ان کی تصدیق ھوتی ھو بہت مشکل ہے۔الفاظ سے صاف ظاہر تھا کہ راہِ حق میں مصائب اٹھانے کا ایک شوق ہے اور تکالیف کے برداشت کرنے کا ولولہ جو خوداختیاری طور پر عملی اقدامات کا محرک ہے.
شہادت
ترمیمبہر طور شوذب آگے بڑھے امام حسین علیہ السلام کو سلام کرکے رخصت ھوئے اور جنگ کرکے شہید ھوئے.
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ج1، ص154