شیرین خانکان (انگریزی: Sherin Khankan) (پیدائش: این کریسٹین خانکان؛ 13 اکتوبر، 1974ء) ڈنمارک کی پہلی خاتون امام ہے جس نے کوپن ہیگن میں پہلی خواتین کی زیر انتظام مسجد کی تاسیس کا ذمہ اٹھایا اور اسے مریم مسجد کا نام دیا۔ وہ کئی خواتین کے معاملوں میں فعالیت پسند بھی ہے جس میں نسوانی شمولیت اور انتہا پسندی شامل ہے۔ وہ کافی دستاویز سازی کر چکی ہے جس میں اسلام اور سیاست پر بحث کی گئی ہے۔

شیرین خانکان
Sherin Khankan

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (ڈینش میں: Ann Christine Khankan ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش (1974-10-13) 13 اکتوبر 1974 (عمر 49 برس)
ڈنمارک
شہریت ڈنمارک   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
تعداد اولاد
مناصب
امام [1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
مارچ 2016 
عملی زندگی
پیشہ خاتون امام
پیشہ ورانہ زبان ڈینش زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل مذہب کی سماجیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

زندگی ترمیم

ابتدائی زندگی ترمیم

خانکان کی پیدائش ڈنمارک میں 1974ء میں ایک سوریائی باپ اور فنیش ماں کے یہاں ہوئی۔ اس کا باپ ایک سیاسی پناہ گزیں اور نسوانیت پسند تھا۔ خانکان کی تعلیم دمشق میں ہوئی اور وہ 2000ء ڈنمارک واپس لوٹی۔ وہ خود کو دو مختلف الوجود دنیاؤں میں پیدا محسوس کرتی ہے اور اجتماع ضدین کو اپنا مقصد مانتی ہے۔[3]

وہ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن سے مذہب اور فلسفے کی عمرانیات میں ماسٹرز کی سند یافتہ ہے۔

کریئر ترمیم

خانکان نے کوپن ہیگن میں مسجد مریم کی بنیاد میں سرکردہ کردار ادا کیا۔ یہ ڈنمارک کی دیگر مساجد سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کی دیکھ ریکھ خواتین کرتی ہیں۔ عمومًا خواتین مذہبی تقاریب بالکنیوں سے دیکھتی تھیں۔ اسی طرح کی مساجد ریاستہائے متحدہ امریکا، کینیڈا اور جرمنی میں موجود ہیں، مگر ڈنمارک میں یہ انوکھی ہے۔ خانکان نے ایک تنظیم Critical Muslims کی بھی بنیاد رکھی تھی مذہب اور سیاست میں ربط سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ 2007ء میں اس نے اسلام ایک کتاب Islam and Reconciliation - A Public Matter کے عنوان سے لکھی۔

خانکان کہتی ہیں کہ مسیحیت، یہودیت اور مسلمان ادارہ جات پدرانہ مرکوزیت رکھتے ہیں۔ وہ خواتین کے زیر انتظام مسجدوں کو اس روایت کے لیے چیلنج سمجتی ہے۔ اسے معتدل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر عمومًا اس کی کوششوں کو سراہا گیا۔ مسجد کا افتتاح فروری 2016ء کو ہوا مگر اس میں باضابطہ جماعت اگست سے شروع ہوئی۔ خانکان نے اذان دی اور 60 عورتیں ایک فاسٹ فود کی دکان کے اوپر جمع پوئے۔ صالحہ میری فتح نے اس موقع پر وعظ دیا جہاں اسلام اور خواتین کے موضوع پر بات کی گئی۔ مسجد میں کئی شادی تقاریب ہوئے، جن میں غیر مذہبی جوڑوں کو بھی بیاہا گیا ہے، جو کئی مساجد میں نہیں ہوتا۔

خانکان کو ڈینش سوشل لبرل پارٹی کی جانب سے وہاں کی پارلیمان کے لیے امیدوار بنایا گیا تھا۔[3]

خانکان کو بی بی سی کی 2006ء کی 100 خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔[4]

شخصی تفصیلات ترمیم

خانکان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ وہ مطلقہ ہے۔

کتابیات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. http://politiken.dk/indland/samfund/ECE3061886/danmarks-foerste-kvindemoske-slaar-doerene-op/
  2. Emil Eller (24 March 2019)۔ "Kontroversiel genforening: Vermund og kvindelig imam var barndomsvenner"۔ DR Nyheder 
  3. ^ ا ب Sanni Jensen (30 مارچ 2015)۔ "Denmark's First Female Imam"۔ Berlingske (بزبان الدنماركية)۔ Berlingske Media۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016 
  4. "BBC 100 Women 2016: Who is on the list?"۔ BBC News۔ 21 November 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016