شیرین خانکان
شیرین خانکان (انگریزی: Sherin Khankan) (پیدائش: این کریسٹین خانکان؛ 13 اکتوبر، 1974ء) ڈنمارک کی پہلی خاتون امام ہے جس نے کوپن ہیگن میں پہلی خواتین کی زیر انتظام مسجد کی تاسیس کا ذمہ اٹھایا اور اسے مریم مسجد کا نام دیا۔ وہ کئی خواتین کے معاملوں میں فعالیت پسند بھی ہے جس میں نسوانی شمولیت اور انتہا پسندی شامل ہے۔ وہ کافی دستاویز سازی کر چکی ہے جس میں اسلام اور سیاست پر بحث کی گئی ہے۔
شیرین خانکان Sherin Khankan | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (ڈینش میں: Ann Christine Khankan) |
پیدائش | ڈنمارک |
13 اکتوبر 1974
شہریت | مملکت ڈنمارک |
مذہب | اسلام |
تعداد اولاد | 5 [1] |
مناصب | |
امام [2] | |
آغاز منصب مارچ 2016 |
|
عملی زندگی | |
پیشہ | خاتون امام |
پیشہ ورانہ زبان | ڈینش زبان |
شعبۂ عمل | مذہب کی سماجیات |
اعزازات | |
100 خواتین (بی بی سی) (2016) |
|
درستی - ترمیم |
زندگی
ترمیمابتدائی زندگی
ترمیمخانکان کی پیدائش ڈنمارک میں 1974ء میں ایک سوریائی باپ اور فنیش ماں کے یہاں ہوئی۔ اس کا باپ ایک سیاسی پناہ گزیں اور نسوانیت پسند تھا۔ خانکان کی تعلیم دمشق میں ہوئی اور وہ 2000ء ڈنمارک واپس لوٹی۔ وہ خود کو دو مختلف الوجود دنیاؤں میں پیدا محسوس کرتی ہے اور اجتماع ضدین کو اپنا مقصد مانتی ہے۔[4]
وہ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن سے مذہب اور فلسفے کی عمرانیات میں ماسٹرز کی سند یافتہ ہے۔
کریئر
ترمیمخانکان نے کوپن ہیگن میں مسجد مریم کی بنیاد میں سرکردہ کردار ادا کیا۔ یہ ڈنمارک کی دیگر مساجد سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کی دیکھ ریکھ خواتین کرتی ہیں۔ عمومًا خواتین مذہبی تقاریب بالکنیوں سے دیکھتی تھیں۔ اسی طرح کی مساجد ریاستہائے متحدہ امریکا، کینیڈا اور جرمنی میں موجود ہیں، مگر ڈنمارک میں یہ انوکھی ہے۔ خانکان نے ایک تنظیم Critical Muslims کی بھی بنیاد رکھی تھی مذہب اور سیاست میں ربط سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ 2007ء میں اس نے اسلام ایک کتاب Islam and Reconciliation - A Public Matter کے عنوان سے لکھی۔
خانکان کہتی ہیں کہ مسیحیت، یہودیت اور مسلمان ادارہ جات پدرانہ مرکوزیت رکھتے ہیں۔ وہ خواتین کے زیر انتظام مسجدوں کو اس روایت کے لیے چیلنج سمجتی ہے۔ اسے معتدل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر عمومًا اس کی کوششوں کو سراہا گیا۔ مسجد کا افتتاح فروری 2016ء کو ہوا مگر اس میں باضابطہ جماعت اگست سے شروع ہوئی۔ خانکان نے اذان دی اور 60 عورتیں ایک فاسٹ فود کی دکان کے اوپر جمع پوئے۔ صالحہ میری فتح نے اس موقع پر وعظ دیا جہاں اسلام اور خواتین کے موضوع پر بات کی گئی۔ مسجد میں کئی شادی تقاریب ہوئے، جن میں غیر مذہبی جوڑوں کو بھی بیاہا گیا ہے، جو کئی مساجد میں نہیں ہوتا۔
خانکان کو ڈینش سوشل لبرل پارٹی کی جانب سے وہاں کی پارلیمان کے لیے امیدوار بنایا گیا تھا۔[4]
خانکان کو بی بی سی کی 2006ء کی 100 خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔[5]
شخصی تفصیلات
ترمیمخانکان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ وہ مطلقہ ہے۔
کتابیات
ترمیم- Women lead Friday prayers at Denmark's first female-run mosque, Harriet Sherwood, 26 اگست 2016, The Guardian, Retrieved 27 نومبر 2016
- Khankan (right), with Saliha Marie Fetteh and Özlem Cekic [Facebook] Date of publication: 23 ستمبر 2016 , 23 ستمبر 2016, The New Arab, Retrieved 27 نومبر 2016
- Danmarks første kvindemoske slår dørene op, 10 فروری 2016, Politiken, Retrieved 27 نومبر 2016
- Women-led mosque opens in Denmark, 12 فروری 2016, The Guardian, Retrieved 27 نومبر 2016
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.lesinrocks.com/2016/10/01/actualite/sherin-khankan-femme-imam-remue-lislam-feministe-11866872/
- ↑ http://politiken.dk/indland/samfund/ECE3061886/danmarks-foerste-kvindemoske-slaar-doerene-op/
- ↑ Emil Eller (24 March 2019)۔ "Kontroversiel genforening: Vermund og kvindelig imam var barndomsvenner"۔ DR Nyheder
- ^ ا ب Sanni Jensen (30 مارچ 2015)۔ "Denmark's First Female Imam"۔ Berlingske (بزبان الدنماركية)۔ Berlingske Media۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016
- ↑ "BBC 100 Women 2016: Who is on the list?"۔ BBC News۔ 21 November 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016