سید قطب شہید ترمیم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:“لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم”(صحیح البخاری: 3189) ترجمہ: مجھے میرے درجے سے اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے عیسی علیہ واصلوتہ والسلام کے ساتھ کیا۔

اس حدیث‌کے باوجود فی زمانہ کچھ فریب خوردگان افراد اور جماعتیں شخصیت پرستی میں غلو کی حد تک جاپہنچے ہیں، کہ موصوف سید قطب کو(کہ جن کے رد پر یہ کتابچہ ہے) امام دوراں و شہید ملت قرار دے بیٹھے ہیں اور یہ تک نہ سوچا کہ ان کی کتب جیسے تفسیر فی ظلال القرآن اور العدالتہ الاجتماعیتہ وغیرہ جیسی تصنیفات میں‌ کیسی بھیانک غلطیاں ہیں‌مثلا ان میں‌انبیاء‌کرام علیہم السلام و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر زبان طعن دراز کی گئی ہے، اسلامی ممالک، معاشروں اور تنظیموں‌ پر کفر کے فتوے جڑے گئے ہیں، عقیدہ اعتزال(عقل پرستی) اور عقیدہ حلول و وحدت الوجود (تصوف کا کفریہ عقیدہ کہ ہر چیز میں اللہ ہے یا وجود صرف اللہ ہی کا ہے) کی آبیاری کی گئی ہے، جسلے جلوس مظاہروں‌ و ریلیوں‌ کے ذریعہ قوت مظاہرہ کرنے جیسی قباحتیں‌ موجود ہیں۔ الغرض اس کتاب کا مقصد سید قطب کی تصنیفات میں‌ پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے تا کہ اس کے جال میں پھنسنے سے بچا جا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ تصنیفات دنیا میں‌ پھیل چکی ہیں‌، نشرہورہی ہیں‌، تقسیم کی جا رہی ہیں‌، تعلیمی اداروں میں‌باقاعدہ نصابی کتب کا حصہ بن چکی ہیں، مگر عام آدمی اس کے بھیانک نتائج سے بے خبر ہے۔

علامہ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “المورد الزلال” اور علامہ ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ نے اپنی متعدد کتب میں‌سید قطب کی کتابوں‌ پر سیر حاصل اور مفیس بحث‌ کی ہے اور ساتھ ہی ان میں‌موجود غلطیوں‌ کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ان کے علاوہ محترم شیخ‌ ابن عثیمین ، ناصر الدین البانی اور عبد رزاق عفیفی رحمتہ اللہ علہم وغیرہ جیسے کبار علماء کرام نے بھی فتاوی صادر فرمائے ہیں‌ اور اس خوبصورت فریب سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین


سید قطب کے اعتقادی انحرافات ترمیم

الحمد اللہ والصلاتہ والسلام علی رسول الہ وعلی آلہ وصحبہ من ابتع ھداہ، وبعد:

یہ رسالہ میرے ان تمام بھائیوں کی طرف ہے جو راہ سنت کو اپنانا چاہتے ہیں‌ اور بدعت و حزبیت(تفرقہ بازی ) کی دلدل سے راہ نجات کے متلاشی ہیں۔ یہ بعض اقوال (سید قطب کے اور اس پر علماء‌ کا رد) جو میں نے جمع کئے ہیں تا کہ آپ اس مسئلے میں‌شرح صدرہوں‌، اور اپنے دین کے معاملے میں‌ مکمل بصیرت پر ہوں، تا کہ اس گناہ اآلود فکری جنگ کا نشانہ نہ بنیں‌ جس جنگ سے اخوان المسلمین کے سید قطب جیسے لیڈروں کی کتب بھری پڑی ہیں۔

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ (سابق مفتئی اعظم سعودی عرب) اپنی وفات سے دو سال قبل یہ فتوی صادر فرما چکے ہیں‌کہ اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت بہتر( 72) ہلاک ہونے والے فرقوں میں‌داخل ہے

جیسا کہ مشہور و معروف افتراق امت والی حدیث میں‌مزکور ہے، آپ کا یہ کالم کیسٹ شرح المنتقی سے ماخوذ ہے۔

سید قطب وہ شخصیت ہے کہ جس سے تمام بڑے علماء کرام نے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جیسے شیخ‌ ابن باز، ابن عثیمین، صالح‌ الفوزان وغیرہ۔ اس سللسے میں کیسٹ اقوال العلماء فی مولفات سید قطب (یعنی سید قطب کے مولفات کے متعلق علماء‌ کرام کے اقوال) سننا مفید رہے گا، ناشر: تسجیلات منھاج السنتہ، محلہ السویدی، ریاض۔

سید قطب کی بعض نمایاں‌بدعات اور عقائد میں انحراف کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔

کلام اللہ کی تفسیر موسیقی، نغموں اور ترانوں‌سے کرنا سید قطب سورہ نجم کی تفسیر میں اپنی تفسیر “فی ظلال القرآن” ( ط25 سن 1417ھ، جلد 6، ص 3404) میں‌لکھتے ہیں: “یہ سورت عمومی طور پر گویا کہ ایک انتہائی اعلی اور اپنے اندر موسیقیت لئے ہوئے ایک نظم ہے، جس میں‌ ترنم بھی ہے، اور یہ ترنم اس کی لفظی بناوٹ میں‌ سماگیا ہے، نیز ہر آیت کے آخر میں متوازن قافیہ ، بندووقفات میں‌بھی یہ نغمائیت اور ترنم واضح ہے”۔

سورہ نازعات کی تفسیر ( جلد 6، ص 3957 ) مین‌لکھتے ہیں: “موسیقیت کے پیرا ہے میں کھنچا ہے” پھر اس کے بعد لکھتے ہیں‌ : ” پھر یہ موسیقیائی ایقاع دھیماپڑتا ہے۔۔۔”

سورہ عادیات کی تفسیر (جلد 6، ص 3967) میں‌لکھتے ہیں : “اور موسیقیائی پرا ہے میں خشونت، سختی اور ڈانٹ کی جھلک نمایاں ہے”۔

فی ظلال القرآن تفسیر میں ایک اور جگہ رقم طراز ہیں کہ: ” داود علیہ الصلوتہ والسلام بادشاہ نبی تھے۔ آپ بعض وقت ملکی امور نپٹانے اور لوگوں کے مشائل حل کرنے کے لئے بھی مخصوص فرماتے ہیں، جبکہ دوسرے اوقات خلوت، عبادت اور اپنے ترانے پڑھنے میں لگاتے تھے تا کہ محراب مٰں اللہ تعالی کی تسبیح بیان کر سکیں “۔


کفریہ عقیدے عقیدہ خلق قرآن کا قائل ہونا ترمیم

قرآن کریم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے” فی ظلال القرآن (جلد 1، ص 38) میں‌لکھتے ہیں:

“اس اعجاز میں وہی شان ہے جو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں‌ہے، اور وہ اللہ کی بنائی ہوئی جیزوں میں موجود شان جیسی ہے، جس طرح یہ لوگوں‌کی خلقت میں‌موجود ہے”۔

اسی تفسیر میں ایک اور جگہ (جلد 5، ص 2719) حروف مقطعات پر کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں: “لیکن وہ اس سے اس کے جیسی کتاب نہیں‌بنا سکتے ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے، انسان کی نہیں”۔

سورہ ص کی تفسیر میں‌کہتے ہین: “اللہ تعالی اس حرف”ص” کی قسم اٹھا رہا ہے، بلکل اس طرح جس طرح اس نے اس نصحیت وذ کر والے قرآن کی قسم اتھائی ہے۔ اور یہ حرف اللہ تعالی کی کی بناوٹ میں‌سے ہے، وہی اس کا موجد(ایجاد کرنے والا) ہے، اسی نے اس کو انسان کے حلق میں آواز بنا کر پیدا گرمایا”۔ شیخ‌ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب “المورد الزلال التبیہ علی اخطاء تفسیر الظلال” ص 180 میں‌ اس کلام پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں‌: ” اور ان کا یہ کہنا کہ یہ حرف اللہ تعالی کا بنای اہوا ہے اور وہی اس کا موجد ہے، یہ معتزلہ اور جہمیہ(جیسے گمرہ فرقوں‌) کا قول ہے جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں۔ جہاں‌ تک اہل سنت والجماعت کا مزہب ہے تو وہ کہتے ہں کہ: قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اس نے اسے نازل فرمایا ہے، (اللہ کا کلام اللہ تعالی کی صفت ہے) مخلوق نہیں‌ہے”۔

ایک اور جگہ تفسیر “ظلال القرآن” (جلد 4، ص 2328) میں لکھتے ہیں: “بے شک قرآن ایک کائناتی مظہر ہے، جیسا کہ زمین اور آسمان ہیں”۔

سید قطب کا اللہ تعالی کے اولوالعزم نبی موسی کلیم اللہ علیہ الصلوتہ والسلام کی شان میں گستاخی کرنا

اپنی تصنیف “التصویر الفنی فی القرآن’ ص 200 میں لکھتے ہیں : “مثال کے طور پر ہم موسی علیہ اصلوتہ والسلام ( کے کردار ) کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ (نعوذباللہ)

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ اس کلام پر تعلیق فرماتے ہیں کہ: انبیاء کا مزاق اڑانا ایک مستقل ارتداد ہے(یعنی جان بوجھ کر ایسا کرنے والا شخص حجت تمام ہونے کے بعد دین سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے )”۔

(اقتباس از کیسٹ اقوال العلماء فی سید قطب، مکتبہ منہاج السنتہ کی آڈیو رکارڈنگز، ریاض)


جلیل القدر صحابی رسول و خلیفئہ ثالث ذولنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور مشہور صحابی عمر بن عاص رضی اللہ عنہ ہر طعن۔ اپنی کتاب” العدالتہ الجتماعیتہ” ص 206 میں‌ لکھتے ہیں: “اور ہم اس طرف مائل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی خلافت کا ہی ایک تسلسل تھی، جہاں‌ تک عثمان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کا تعلق ہے تو وہ ان دونوں کے درمیان ایک دراڑ تھا”۔ (نعوذباللہ)

اپنی کتاب “کتب و شخصیات ” ص 242 میں‌لکھتے ہیں : ” معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کی علی رضی اللہ عنہ پر غالب آنے کی وجہ یہ نہیں‌تھی کہ وہ ان سے زیادہ لوگوں‌کی نفسیات سے واقف تھے، اور حالات کی مناسبت سے صحیح‌قدم اٹھانے میں زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے، جبکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس جنگ کے وسائل چننے میں ان کو ان کے اعلی اخلاق و کردار نے پابند سلاسل کر رکھا تھا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جھوٹ، دھوکہ بازی، چالبازی، منافقت، رشوت اور لوگوں‌کو خریدنے میں تیزی دکھاتے، ایسے وقت میں علی رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اتنا نیچے نہیں‌گراپاتے چناچہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‌کہ وہ کامیاب ہوں‌اور علی رضی اللہ عنہ ناکام ہو جائیں، اور یہ وہ ناکامی ہے جو تمام کامیابیوں‌سے بڑھ کر ہے”۔

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ اس کلام پر تعلیق کرتے ہوئی فرماتے ہیں:” معاویہ اور عمر بن العاص رضی اللہ عنہما کی برائی پر مبنی اس کا یہ کلام قبیح ہے، نہایت ہی قبیح”۔ اور ان کتب کے بارے میں‌فرماتے ہیں‌کہ: ” انہیں‌ پھاڑ دینا چاہئیے”۔ (کیسٹ : اقوال العلماء فی سید قطب )


صحابی رسول ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینا ترمیم

وہ صحابی رسول ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

” ابو سفیان رضی اللہ عنہ وہ شخص ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو جو تکلیفیں اور ازیتیں پہنچیں‌ اس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام اپنی فیصلہ کن فتح کے جھنڈے گاڑچکا تھا، چناچہ یہ محض ہونٹ اور زبان کا اسلام تھا، قلب (دل) دوجدان کا نہیں، اسلام اس شخص کے دل میں راسخ نہ ہوا”۔ (اخبار: المسلمون، شمارہ 3 سال 1371ھ )

وحدت الوجود کا اثبات ترمیم

فی ظلال القرآن (جلد 6، ص 4002) سورہ اخلاص کی تفسیر میں‌رقمطراز ہیں: ” یہ وجود کا ایک ہونا ہے۔ حقیقت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اس کی حقیقت، اور حقیقت میں وجود بھی صرف اسی(اللہ ) کا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی وجود ہے وہ اپنا وجود اس حقیق وجود سے لیتا ہے۔ اپنی حقیقت اس ذاتی حقیقت سے مستمد کرتا ہے۔ اس طرح یہ فعل انجام دینے کی آحادیث (ایک ہونا) ہوئی، چناچہ اس وجود میں اس کے علاوہ کوئی کسی چیز کا کرنے والا نہیں‌ ہے، اور نہ ہی کسی چیز میں کرنے والا ہے، اور یہ عقیدہ ضمیر مین‌ پہناں ہے اور وجود کی تفسیر بھی ہے”۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ مجلتہ الدعوتہ (عربی) شمارہ: 1591، 1418/1/9ھ میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں نے سید قطب ی سورہ اخلاصکی تفسیر پڑھی، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل ستن والجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء (اللہ تعالی کے مخلوق سے بلند اپنے عرش پرعظیم پر ہونے) کی تفسیر (گمراہ فرقں جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مزہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) سے کی ہے”۔


استواء کی تفسیر قبضے اور غلبے سے کرنا

سورہ طہ میں آیت 5 (الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) (وہ رحمن ہے جو عرش پر بلند ہوا) کی تفسیر (جلد 4، ص 2328 ) میں‌لکھتے ہیں‌:

“اور تمام کائنات پر اسی کا قبضہ ہے (عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) استواء عی العرش حد درجہ غلبے اور قبضے سے متعلق کنایہ ہے”۔

شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ اس کی اس بات پر تعلیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں‌:”اس کا مطلب تو استواء جس کا صحیح معنی ہے عرش پر بلند ہونا کا انکار کرنا ہوا ، اور یہ باطل ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہےکہ یہ بیچارہ تفسیر میں ادھر ادھر بھٹک رہا ہے”۔ (کیسٹ: اقوال العلماء فی سید قطب)

“ظلال القرآن”(جلد 6، ص 3932) میں‌لکھتے ہیں‌:

“اللہ جل جلالہ، عظیم، جبار،قہار، متکبر، تمام کائنات کا مالک، اس نے بلندی میں انعام کیا اور متوجہ ہوااس مخلوق کی طرف جس کا نام انسان تھا”۔

عقیدے کے باب میں‌ آحاد صحیح‌ احادیث کورد کرنا “اظلال القرآن” ( جلد 6، ص 4008) میں‌کہتے ہیں: “عقیدہ کے باب میں‌ آحادیث سے استدلال نہین‌کیا جاتا اور قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے”۔

جبکہ عقیدہ و عمل میں‌صحح احادیث رسول قطعی حجت ہیں‌یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، تفصیل کے لئےدیکھیں‌ شیخ البانی رحمتہ اللہ علیہ کا رسالہ”احاداحادیث عقیدہ و عمل میں‌ حجت ہیں”۔


اسلامی معاشروں کو کافر قرار دینا ترمیم

“ظلال القرآن” (جلد 4، 2122) میں لکھتے ہیں: “آج روئے زمین پر کوئی ایسی مسلمان حکومت نہیں‌ہے اور نہ ہی کوئی ایسا معاشرہ ہے جس میں‌معاملات کی بنیاد شریعت الہیہ اور اسلامی فقہ پر رکھی گئی ہو”۔ (اس کا مطلب یہ ہوا کہ مملکت حرمین شریفین جو کہ شریعت اسلامیہ کی تطبیق پر عمل پیراہے وہ بھی ان کی نظر میں‌اسلامی حکومت نہیں‌!!)

بلکل یہی بات ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی اپنی بہت سی تقاریر و تحریروں‌ میں‌ دہراتے رہتے ہیں۔

“ظلال القرآن” (جلد 3، ص 1634) میں‌ایک اور جگہ لکھتے ہیں: “بلاشبہ آج مسلمان جہاد نہیں‌کر رہے ہیں، کیونکہ مسلمان آجکل موجود ہی نہیں‌ہیں! اسلام اور مسلمان کے وجود کا مسئلہ ہی آج حل کا محتاج ہے”۔

ایک اور جگہ پر”ظلال القرآن” (جلد 2، ص 1057) میں‌لکھتے ہیں: “زمانہ بلکل اپنی اس شکل پر گھوم چکا ہے جس پر وہ اس وقت تھا جب یہ دین “لاالہ الاللہ” لے کر آیا، آج انسانیت بندوں کی عبادت اور ظالمانہ ادیان کی طرف مڑچکی ہے، اور”لاالہ الاللہ” سے پٹ چکی ہے، اگر چہ بعض‌لوگ اب بھی میناروں پر”لاالہ الاللہ” دہرارہے ہیں۔۔۔”

دوسری جگہ “ظلال القرآن” (جلد 4، ص 2009) میں‌لکھتے ہیں: “یہ جاہلانہ معاشرہ جس میں‌ہم سانس لے رہے ہیں‌یہ اسلامی معاشرہ نہیں‌ہے”۔


“لاالہ الااللہ” کی غلط تفسیر ترمیم

“ظلال القرآن” (جلد 5، ص 2707 ) سور قصص میں‌ اللہ تعالی کے فرمان ( وھواللہ لاالہ الاھو) کی تفسیر میں‌کہتے ہیں:

“یعنی نہ تو پیدا کرنے میں‌کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اختیار کرنے میں”۔

چناچہ صحیح‌ معنی کو چھوڑتے ہوئے جس سے آیت کی تفسیر کی جانی چاہئیے یعنی توحید الوہیت ( ایک اللہ کی خالص عبادت) کے بجائے توحید ربوبیت (کہ اللہ تعالی رب، خالق و مالک ہے جسے مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے) سے اس کی تفسیر کی ہے۔

“العدالتہ الاجتماعیتہ” ص 182 میں‌لکھتے ہیں : “اس دین میں‌جو یقینی بات ہے وہ یہ ہے کہ نہ تو ضمائر میں‌اور نہ ہی عملی زندگی میں‌عقیدہ اس وقت تک راسخ نہیں‌ہوسکتا جب تک کہ”لاالہ الااللہ” کی گواہی نہ دیں، یعنی حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے، جو اس کے احکام واوامر کی تعمیل میں پہناں ہے”۔ یہاں کلمئہ توحید کی تفسیر صرف حاکمیت سے کی ہے۔


سید قطب کا توحید ربوبیت کو اصل اختلافی مسئلہ قرار دینا۔

“ظلال القرآن ” (جلد 4، 1846) سور ھود کی تفسیر میں‌کہتے ہیں: “توحید الوہیت کا مسئلہ اختلافی نہیں‌تھا ! بلکہ مسئلہ ربوبیت وہ مسئلہ تھا جس کے ساتھ انبیاءورسل کو پر زمان ومکان میں‌جنگ کا سامنا رہا! اور یہی وہ مسئلہ تھا جس کا اخری رسول نے سامنا کیا”۔

حلانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ) (سورہ انبیاء، آیت نمبر 25) (ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو میری ہی عبادت کرنا ) اور (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔۔۔۔۔) ( سورہ النحل، آیت نمبر 36) (اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جس نے سب سے ہلے یہی دعوت دی) کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت( غیر اللہ) کی عبادت سے بچو) اور یہی حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا :”قولوالاالہ الااللہ تفلحوا۔۔۔۔۔۔” (اللہ کے سوا کوئی معبود حقیق نہیں‌کہو اور کامیاب ہوجائو)


اسلام سید قطب کی نظر میں‌عیسائیت اور کمیونزم کا مرکب ہے ترمیم

اپنی تصنیف “المعرکہ” ص 61 میں‌کہتے ہیں: “اسلام کے لئے حکام ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ وہ واحدمثبت وانشائی عقیدہ ہے جو عیسائیت اور کمیونزم دونوں میں سے مکمل مرکب تیار کرتا ہے۔ ان دونوں کے اداف اپنے اندر رکھتا ہے، اور توازن، تنظیم اور اعتدال میں ان سے بڑھ کر ہے”۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ سے اس کلام کے متعلق دریافت کیا گیا تو آ نے فرمایا ہم اسے کہتے ہیں‌کہ:” عیسائیت ایک بدلا ہوادین ہے جسے اس کے علماء ودرویشوں‌نے تبدیل کیا، اور کمیونزم ایک باطل نظام ہے، جس کی آسمانی ادیان میں کوئی اصل نہیں‌ملتی۔ جبکہ دین اسلام اللہ تعای کی طرف سے ہے، اس کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو کہ تبدیل نہیں‌ہوا، وللہ الحمد، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ ﴿ سورہ الحجر، آیت نمبر ٩﴾ ﴿بے شک ہم ہی یہ زکر نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں﴾ اور جو یہ کہتا ہے کہ اسلام اس کا اور اس کا مرکب ہے تو وہ اسلام سے نابلد ہے، یا اسے کفریہ امتوں اور ان کے طریقوں پر فخر ہے”۔ ﴿کتاب “العواصم” ازشیخ ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ ص 22 ﴾


سید قطب کی آزادانہ روش ترمیم

اپنی تصنیف”دراسات اسلامیہ” ص 13 میں‌لکھتے ہیں: “دینی تعصب کے طاغوت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی اور یہ تب ہوا جب کھلے اور واضح انداز میں‌عقیدہ میں آزادی حاصل ہونے کااعلان ہوا، فرمایا گیا: (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔۔۔۔۔۔) (سورہ البقرہ، آیت نمبر 256 ) (دین میں‌کوئی زوروزبردستی نہیں، ہدایت گمراہی سے واضھ ہوچکی ہے)

نیز فرمایا: (وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾ ﴿سورہ یونس، آیت ٩٩) (اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین میں سب کے سب ایمان لے آتے، تو کیا آہ لوگوں‌کو مجبور کریں گے کہ وہ مومن ہوجائیں) مزہبی تعصب کا طاغوت تباہ ہوچکا ہے اور ان کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی آزادی لے، تاکہ اسلامی ملک میں دوسرے اہل مزاہب کے عقیدے کی آزادی کی حفاظت اور عبادت کی آزادی کی حفاظت مسلمان پر فرض‌ہو جائے”۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ سے وال ہوا: ہم حریت فکر کا لفظ اکثر پڑھتے اور سنتے ہیں، اور یہ حقیقت میں آزادی اعتقاد کی دعوت ہے، آپ اس پر کیا تعلیق فرمائیں گے؟ جواب: “ہماری اس پر تعلیق یہ ہے کہ جو اسے جائز قرار دیتا ہے کہ انسان اعتقاد میں‌آزاد ہے، جس دین کا بھی جاہے عقیدہ رکھے، تو ایسا انسان کافر ہے، کیونکہ جو بھی یہ عقیدہ رکھے گا کہ کسی کے لئے دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی دین کا عقیدہ رکھنا جائز ہے تو ایسے انسان نے اللہ تعالی سے کفر کیا، اس سے توبہ کرائی جائے، اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کر دیا جائے”۔ (اقتباس ازمجموع الفتاوی ورسائل فضیلتہ الشیخ محمد العثیمین جلد 3، ص 99)


کتب احادیث کا مزاق اڑانا اور انہیں‌پیلی ( فضول) کتابوں سے تعبیر کرنا ۔ ترمیم

اپنی کتاب”معرکہ اسلام اور سرمایہ داری” ص 64 میں کہتے ہیں: “اور ان تمام شبہات کو دور کرنے کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ اسلام کے تاریخی اور اجتماعی حقائق کی صحیح معرفت حاصل کی جاتی یعنی نسل حقیق، اپنے لائق۔۔۔ جی ہاں اپنے لائق۔۔۔ تہزیب و ثقافت سے اآراستہ ہوتی اور یہ تہزیب و ثقافت اتنی مشکل نہیں‌جتنا لوگ اسے سمجھتے ہیں، جب وہ زرد کتابوں‌ (احادیث کی کتب) کا تصور کرتے ہوئے اسے ناقابل تسخیر مہم سمجھنے لگتے ہیں”۔


علماء سنت کا مزاق ڑانا اور انہیں‌درویش کہنا

کتاب “معرکہ اسلام اور سرمایہ داری” ص 69 میں‌کہتے ہیں : “اور بعض دوسرے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں‌کہ اسلام کی حاکمیت کا معنی یہ ہے کہ مشائخ اور درویشوں‌کا حکم مانا جائے، پتہ نہیں‌کہاں‌سے وہ یہ تصور لے کر آئے؟”


سید قطب کی اشتراکیت ترمیم

کتاب “معرکہ اسلام اور سرمایہ داری” ص 39 تا 40 میں‌کہتے ہیں‌: “بلکہ حکومت کے اختیار میں ہے کہ وہ تمام ملکیتیں اور اموال اپنے قبضے میں لے لے، اور پھر نئے سرے سے اس کی تقسیم کرے، اگرچہ ان ملکیتوں‌کی بنیادیں اسلامی ہوں، اور ان کی ترقی میں‌جائزوسائل استعمال ہوئے ہوں۔ کیونکہ سارے معاشرے سے آفت کو بچانا یا متوقع تقصانات سے بچنے کے لئے ملکیتوں کو قبضے میں‌لینا افراد کے حقوق سے زیادہ خیال رکھے جانے کا مستحق ہے”۔ (میں‌کہتا ہوں‌یہ عید اشراکیت ہے)


انقلاب برپا کرنے اور تحریکیں چلانے کی تربیت کرنا۔ ترمیم

عدالتہ الاجتماعیتہ، ص 160 میں کہتے ہیں‌: “اور آخر میں تحریک عثمان پر دھاوابول دیا، اور حق باطل، خیر شر آپس می گڈ مڈ ہوگئے، لیکن جو شخص معاملات کو اسلام کی نظروں‌ سے دیکھے اور معاملات کو روح اسلامی سے محسوس کرے وہ ضرور یہی کہے گا کہ یہ تحریک روح کا ایک انقلاب تھی”۔

“ظلال القرآن” (جلد 3، 141) میں‌لکھتے ہیں: اور اس کی جگہ اسلامی بنیادوں پر مبنی حکومت کا قیام اور اس سے بدلنا۔۔۔ اور یہ مشن ہے۔۔۔۔ ایک عام اسلامی انقلاب برپا کرنا جو کسی ایک ملک یا شہر میں محصور نہ ہوا، بلکہ اسلام جو چاہتا ہےئ اور جسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ شامل وکامل انقلاب پوری زمین میں‌برپا ہو، یہ ہے اسلام کا اعلی ترین ہدف اور عظیم ترین مقصد جس کی طرف یہ دیکھ رہا ہے الا یہ کہ مسلمانوں‌کے پاس یا اسلامی جماعت کے اراکین کے لئے اسلامی انقلاب برپانہ کرنے کا اور اپنے اپنے ملک میں نظاموں‌کو بدلنے کی کوشش نہ کرنے کا کوئی عزر نہیں‌ہے”۔

اسی طرح سے”عدالتہ الاجتماعیتہ” ص 210 میں‌کہتے ہیں: “یہ ایک لابدی امر ہے کہ ہم اس اسلامی تاریخ زندگی کے جھروکوں سے لوگوں‌کے تصرفات کا حقیق باعث و سبب جانیں اور پھر ان بواعث واسباب کا حادثات، ترقیات اور انقلابات سے تعلق معلوم کریں، اور ان تمام امور کو اسلامی عقیدے کی طبیعت اور اس موجود انقلابی روح سے جوڑنا بھی بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔”۔


سید قطب کے نزدیک عبادت زندگی بھر کا کام نہیں‌ہے۔ ترمیم

“معرکئہ اسلام اور سرمایہ داری” ص 56 میں رقمطراز ہے: “اور اسلام اور دین کے نام پر رہبانیت کا دشمن ہے، عبادت کوئی زندگی بھر کا کام نہیں، اس کا صرف ایک مخصوص وقت ہے”۔


گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ترمیم

1-سید قطب کے اسلامی معاشرے کو کافر کہنے کی گواہی (مفتی مصر) یوسف قرضاوی (جو خود اخوانی سوچ کا حامل ہے) نے اپنی کتاب “اسلامی تحریک کی اولویات” ص 110 میں‌دی ہے: “اس مرحلے پر سید قطب کی کتابیں ظاہر ہونا شروع ہوئیں جو ان کی تفکیر کے آخری مرحلے کی غمازی کرتی ہیں، جو اسلامی معاشروں‌کی تکفیر سے بھری ہوئی ہیں۔۔۔۔ نیز تمام لوگوں‌کے خلاف اعلان جہاد کا اعلان کرنا۔۔۔۔”۔ 2۔ اخوان المسلمین کا ایک لیڈر فرید عبدلخالق “اخوان المسلمین فی میزان الحق” ص 115 میں‌لکھتا ہے: ” تکفیری فکر کی ابتداء قناطر جیل میں‌قید اخوان کے بعض نوجوانوں‌ سے بچاسویں دہائی کے آخر میں‌اور ساٹھویں دہایئی کے شروع میں‌کوئی۔ یہ لوگ سید قطب کی فکری اور ان کی تالیفات سے متاثر تھے۔ انہوں نے ان کتب سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ معاشرہ اس وقت (قبل ازاسلام) عہد جاہلیت میں ہے اور اس کے حکمران کافر ہو چکے ہں، جنہوں‌نے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلے نہ کر کے اس کے حکم کو ناپسندیدہ جانا اور اگر محکومین اس سے راضی ہیں‌تو یہی حکم محکومین کا ہے”۔

3۔ اسی طرح علی عشمادی نے اپنی ” التاریخ السری للاخوان المسلمین” ص 80 پر زکر کیاہے: “میرے پاس اخوان کا ایک رکن آیا اور مجھے کہنے لگا کہ وہ عنقریب مسلمانوں کو زبح کیا ہوا جانور کھاناچھوڑدےگا۔ میں سید قطب کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں‌پوچھا انہوں نے مجھ سے کہا انہیں‌اسے کھانے دو، اہل کتاب کا ذبیحہ سمجھ لیں، کم از کم مسلمان اس وقت اہل کتاب تو ہیں!”۔

4۔ اسی کتاب ص 112 مں‌علی عشمادی سید قطب سے اپنی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:”اور پھر جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا میں‌نے سید قطب سے کہا: چلو چھوڑو، اٹھتے ہیں‌ اور نماز پڑھتے یں، اور یہ بڑی چونکا دینے والی بات تھی کہ مجھے یہ پتہ چلا کہ وہ جمعہ کی نماز ہیں‌پڑھتے، انہوں‌نے مجھ سے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ سقوط خلافت سے جمعہ بھی ساقط ہوجاتا ہےاور جمعہ صرف اسلامی خلافت میں‌ہی فرض ہوتا ہے”۔

پس اے نوجوان بھائیو! بچو اس التکفیر والتفجیر (کافر قرار دینا اور دھماکے اور خود کش حملے کرنا) کے خطر ناک نظریہ سے، اور اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد کرو: ( هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّـهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ) ﴿سورہ النساء، ١٠٩﴾

(یہ تمہی لوگ ہو کہ ان کی طرف سے دنیوی زندگی میں تو جھگڑا کر لیتے ہو، مگر کل قیامت کے دن ان کی طرف سے کون جھگڑا کرے گا، یا کون ان کا وکیل بنے گا)


حرف آخر ترمیم

اے اہل توحید وسنت! اللہ تعالی سے ڈرو اور سلف صالحین کے عقیدے کو بلند کرکے، بدعت اور اس کے داعیان سے بچو تم کامیاب ہو جاو گے۔

آخر میں‌عرض ہے کہ یہ ان بدعات اور خرافات کی چند مثالیں ہیں‌جو اس شخص کی کتابوں میں موجود ہیں، حلانکہ اس کی آفتیں اتنی زیادہ ہیں‌کہ انہیں‌اس چھوٹے سے رسالے میں نہیں‌سمویا جا سکتا۔ سید قطب کے مزید انحرافات جاننے کے لئے ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ کی کتب پڑھی جا سکتی ہیں، جن میں‌آپ نے اس پر مدلل و مفصل رد لکھا ہے، جیسے:”اصواء اسلامیتہ علی عقیدہ سید قطب فکرہ” اور کتاب” الحدالفاصل بین الحق والباطل”۔ واللہ اعلم