سید قطب
سید قطب (1906-1966) ایک معروف مصری اسلامی مفکر، ادیب، اور اخوان المسلمین کے نمایاں رہنما تھے، جنہوں نے وہابی جہادی آئیڈیالوجی کے زیر اثر پرائیویٹ جہاد کی حمایت کی اور اسے ایک نئی شکل دی جو قطبیت (Qutbism) کہلایا۔ سید قطب نے اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی، جو پہلے سے ہی وہابی جہادی آئیڈیالوجی سے متاثر تھی۔ ان کی تعلیمات میں اسلامی ریاستوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی حمایت شامل تھی، جسے قطبیت کہا جاتا ہے۔ قطبیت، اسلامی جہاد کی ایک ذاتی اور غیر ریاستی تشریح ہے، جو اصل اسلامی فقہ کے اصولوں سے مختلف ہے۔[6]
سید قطب | |
---|---|
(عربی میں: سَيِّد قُطْب) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: سَيِّد قُطْب إِبْرَاهِيم حُسَيْن الشَّاذِلِيّ) |
پیدائش | 9 اکتوبر 1906ء [1] مشا، مصر |
وفات | 29 اگست 1966ء (60 سال)[2][3][4] قاہرہ |
وجہ وفات | پھانسی |
طرز وفات | سزائے موت |
شہریت | مصر |
جماعت | wafd party |
رکن | اخوان المسلمون |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ قاہرہ یونیورسٹی آف شمالی کولوراڈو |
پیشہ | سیاست دان ، مصنف ، فلسفی ، صحافی ، شاعر ، غیر فکشن مصنف ، انقلابی |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [5] |
کارہائے نمایاں | فی ظلال القرآن |
مؤثر | ابن تیمیہ ، حسن البنا ، ابو الاعلی مودودی ، عبدالقاہر جرجانی |
تحریک | سیاست اسلامیہ |
الزام و سزا | |
جرم | سیاسی قتل ( فی: 1966) ( سزا: سزائے موت ) |
درستی - ترمیم |
خاندانی پس منظر
ترمیمسید قطب 9 اکتوبر 1906ء کو مصر کے صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشا میں پیدا ہوئے[7]۔ ان کا خاندان ایک مذہبی اور علمی گھرانہ تھا، جو اصلاً جزیرہ نما عرب سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہوا تھا[8]۔
سید قطب کے والد ایک کسان اور ایک محب وطن تھے جو مصر کی سیاست میں بھی سرگرم تھے۔ ان کی والدہ ایک مذہبی خاتون تھیں، جو سید قطب کو اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں[9]۔
سید قطب کے دو بھائی اور ایک بہن تھی، جن میں ان کے بھائی محمد قطب نے بھی تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور اسلامی علوم پر متعدد کتب تصنیف کیں[10]۔ سید قطب کے خاندانی پس منظر نے ان کی فکری نشوونما اور سماجی شعور کی تشکیل میں گہرا اثر ڈالا، جس کا اظہار ان کی تحریروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
ابتدائی تعلیم اور تربیت
ترمیمسید قطب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں موشا میں حاصل کی۔ وہ بچپن سے ہی مذہبی تعلیمات کی طرف مائل تھے، اور قرآن کریم کو حفظ کرنے کا آغاز بھی کم عمری میں ہی کیا[11]۔ ان کی والدہ، جو کہ ایک مذہبی خاتون تھیں، نے سید قطب کی ابتدائی اسلامی تعلیمات میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں مذہب کے بنیادی اصولوں سے آگاہ کیا[12]۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، سید قطب نے قاہرہ میں جدید تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی[13]۔ دورانِ تعلیم، وہ ادب، شاعری، اور جدید علوم کی طرف راغب ہوئے، اور ان کے ادبی ذوق کی نشوونما میں عباس محمود العقاد جیسی ادبی شخصیات کا بھی بڑا کردار رہا[14]۔
سید قطب نے بعد میں تربیت معلمین (Teachers' College) میں داخلہ لیا اور تعلیم و تدریس کے اصولوں پر عبور حاصل کیا۔ وہ قاہرہ میں ایک اسکول کے انسپکٹر کے طور پر کام کرتے رہے، جہاں انہیں مصری تعلیمی نظام کی خامیوں کا اندازہ ہوا[15]۔ اس تجربے نے ان کے خیالات اور نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور وہ سماجی اصلاحات کی طرف متوجہ ہوئے۔
سید قطب اور وہابی جہادی آئیڈیالوجی
ترمیمسید قطب کی تعلیمات کا آغاز اخوان المسلمین میں شمولیت سے ہوا، جو اس وقت وہابیت کی تعلیمات سے متاثر تھی۔ سید قطب نے وہابی جہادی آئیڈیالوجی کو ایک نئی شکل دی اور اسے اخوان المسلمین کے تحت فروغ دیا۔ انہوں نے اسلامی فقہ کی سابقہ جہادی تشریح کو چیلنج کرتے ہوئے پرائیویٹ جہاد کی وکالت کی، جس نے غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو جائز قرار دیا۔ سید قطب کے نظریات نے اسلامی دنیا میں بہت سے لوگوں کو متاثر کیا، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں پہلے سے ہی وہابی جہادی آئیڈیالوجی کا اثر تھا۔ ان کی تعلیمات نے پرائیویٹ جہاد کو فکری بنیاد فراہم کی، جس نے بعد میں القاعدہ، داعش، اور دیگر غیر ریاستی تنظیموں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔[16]
سیاسی سرگرمیاں
ترمیمسید قطب نے اپنے کیریئر کی ابتدا میں ایک ادیب، نقاد، اور صحافی کے طور پر شہرت حاصل کی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کی ابتدائی تحریروں میں مصری حکومت اور سماجی ناانصافیوں پر سخت تنقید شامل تھی۔ 1948ء میں سید قطب کو ایک سرکاری اسکالرشپ پر امریکہ بھیجا گیا، جہاں انہوں نے امریکی ثقافت، سرمایہ داری، اور مغربی استعماری پالیسیوں پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مغربی معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے ہی اس زوال کو روکا جا سکتا ہے۔[17]
جمال عبدالناصر
ترمیمسے اختلافات 1952ء کے انقلاب کے بعد، جب جمال عبدالناصر اور فری افسران تحریک نے مصری حکومت کا تختہ الٹا، سید قطب نے شروع میں ان کی حمایت کی، کیوں کہ انہیں اس انقلاب میں اسلامی اصلاحات کی امید نظر آتی تھی۔ تاہم، جلد ہی قطب کو ناصر کی سیکولر پالیسیوں اور اسلامی اقدار سے دوری پر مایوسی ہونے لگی۔ ناصر کی حکومت میں اسلام پسندوں کو دبایا جانے لگا، جس سے سید قطب اور ان کی جماعت، اخوان المسلمین، کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔[18]
1954ء میں اخوان المسلمین کی جانب سے ناصر کی حکومت کے خلاف ایک ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی کی گئی، جس کے بعد قطب سمیت کئی اخوانی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سید قطب پر "حکومت کے خلاف سازش" کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں سید قطب کی تحریریں مزید سخت گیر ہوگئیں اور انہوں نے "زمانہ جاہلیت" اور اسلامی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔[19]
اخوان المسلمین سے وابستگی
ترمیمسید قطب نے 1951ء میں اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی، جو مصر کی ایک بڑی اسلامی تنظیم تھی۔ اس تنظیم کے بانی حسن البنا تھے، جن کی تعلیمات نے سید قطب کو گہرے اثرات دیے۔ قطب اخوان المسلمین کی سرگرمیوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے لگے اور وہ تنظیم کے نظریاتی رہنما بن گئے۔ قطب نے اخوان المسلمین کے بنیادی اصولوں کو مزید سخت گیر بنایا اور "اسلامی ریاست" کے قیام کی وکالت کی، جس میں شریعت کا مکمل نفاذ ہو۔
سید قطب کی مشہور تصنیف "معالم فی الطریق" (جدید اسلامی ریاست کے نشانات) اخوان المسلمین کے نظریے کی بنیاد بنی، جس میں وہ اسلامی معاشرے کو "زمانہ جاہلیت" سے نجات دلانے کی بات کرتے ہیں۔ قطب کا کہنا تھا کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہوتی، حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بن سکتا۔[20]
قطب کے ان نظریات نے بعد میں آنے والی اسلامی تنظیموں، جیسے القاعدہ اور داعش، کی فکری بنیاد فراہم کی، جو غیر ریاستی جہادی سرگرمیوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔
گرفتاری اور قید
ترمیم1952ء میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں ہونے والے فوجی انقلاب کے بعد، سید قطب نے ابتدائی طور پر ناصر کی حمایت کی، لیکن جب ناصر نے اخوان المسلمین کے خلاف سخت اقدامات شروع کیے تو قطب اور اخوان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ 1954ء میں، ناصر کی حکومت نے سید قطب اور اخوان المسلمین کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا اور انہیں قید میں ڈال دیا۔ قطب کو قاہرہ کی بدنام زمانہ جیل میں سخت حالات میں رکھا گیا، جہاں انہوں نے جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کیا۔
دوسری گرفتاری اور معالم فی الطریق
ترمیم1964ء میں، جیل سے رہا ہونے کے بعد، سید قطب نے اپنی مشہور کتاب معالم فی الطریق لکھی، جس میں انہوں نے اسلامی معاشرے کو "جدید جاہلیت" سے آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی یہ کتاب ناصر حکومت کے لیے شدید تنقید کا باعث بنی، جس کی بنا پر انہیں 1965ء میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ان پر الزام لگایا کہ وہ اخوان المسلمین کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
قطبیت اور پرائیویٹ جہاد
ترمیمقطبیت کی تعلیمات میں، اسلامی ریاستوں کو "غیر اسلامی" قرار دیا گیا اور ان کے خلاف مسلح بغاوت کو جائز سمجھا گیا۔ سید قطب نے قرآن کریم کی تفسیر "فی ظلال القرآن" میں غیر ریاستی جہاد کی وکالت کی، جو پرائیویٹ جہاد کی ایک شکل ہے۔ ان کے مطابق، صرف اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اسلام کا اصل مقصد ہے، اور تمام غیر اسلامی حکومتیں باطل ہیں۔ قطبیت نے پرائیویٹ جہاد کو فکری جواز فراہم کیا، جس نے وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی طرح عالمی سطح پر انتہاپسندی کو فروغ دیا۔[21]
قطبیت بمقابلہ اصل اسلامی جہاد
ترمیماصل اسلامی جہاد کے اصول کے مطابق، قتال کا آغاز صرف ایک مستند اسلامی ریاست کی طرف سے کیا جا سکتا ہے، جب کہ پرائیویٹ جہاد کی تعلیمات میں غیر ریاستی گروہوں کو بھی قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ قطبیت اور وہابیت دونوں نے اسلامی تعلیمات کو ایک عسکری اور سخت گیر تشریح دی، جس کے نتیجے میں موجودہ بہت ساری پراوئیویٹ جہادی تنظیمیں پیدا ہوئیں۔[22]
سید قطب کی اہم تصانیف
ترمیمنمبر | کتابیں (کالم 1) | نمبر | کتابیں (کالم 2) |
---|---|---|---|
1 | فی ظلال القران (تفسیر/ قران کے زیرسایہ) | 23 | ھذا الدین |
2 | العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام کاعدل اجتماعی) | 24 | كیف وقعت مراكش تحت الحماہۃ الفرنسیۃ؟ |
3 | مشاھدۃ القیامہ فی القران (قران میں قیامت کے مناظر) | 25 | الصبح يتنفس |
4 | التصویرالفنی فی القران (قران کے فنی پہلو) | 26 | قیمۃ الفضیلۃ بين الفرد والجماعۃ |
5 | معرکۃ الاسلام والراسمالیہ (اسلام اورسرمایہ داری کی کشمکش) | 27 | حدثینی |
6 | السلام العالمی والاسلام (عالمی امن اوراسلام) | 28 | الدلالۃ النفسیۃ للالفاظ والتراكيب العربیۃ |
7 | دراسات اسلامیہ (اسلامی مقالات) | 29 | المستقبل لھذا الدين |
8 | النقدالادبی.اصول مناھجہ (ادبی تنقیدکے اصول ومناہج) | 30 | تسبیح |
9 | نقدکتاب.مستقبل الثقافۃ (مستقبل الثقافہ پرتنقیدی نظر) | 31 | ضریبۃ الذل |
10 | کتب وشخصیات (کتابیں اور شخصیتیں) | 32 | این الطریق؟ |
11 | مجتمع اسلامی (اسلامی معاشرہ کے خدوخال) | 33 | قیمۃ الفضیلۃ بين الفرد والجماعۃ |
12 | امریکۃ التی رایت (امریکا، جسے میں نے دیکھا) | 34 | ھل نحن متحضرون؟ |
13 | اشواک (کانٹے) | 35 | ہم الحياۃ |
14 | طفل من القریۃ (گاؤں کابچہ) | 36 | وظیفۃ الفن والصحافۃ |
15 | المدینۃ المسحورۃ (سحرزدہ شہر) | 37 | العدالۃ الاجتماعیۃ فی السلام |
16 | الاطیاف الاربعہ (چاروں بہن بھائیوں کے افکاروتخیلات کامجموعہ) | 38 | شيلوك فلسطين او قضیۃ فلسطین |
17 | القصص الدینیہ (انبیاکے قصے) | 39 | اين انت يا مصطفى كامل؟ |
18 | قافلہ الرقیق (مجموعہ اشعار) | 40 | ھتاف الروح |
19 | حلم الفجر (مجموعہ اشعار) | 41 | فلنعتمد على انفسنا |
20 | الشاطی المجہول (مجموعہ اشعار) | 42 | ھذا الدين |
21 | مھمۃ الشاعر فی الحیاۃ (زندگی کے اندرشاعرکااصل وظیفہ) | 43 | قافلہ الرقیق |
22 | معالم فی الطریق (جادہ ومنزل) | 44 | وظیفۃ الفن والصحافۃ |
وفات
ترمیمسید قطب کی موت جمال عبدالناصر کی حکومت کے دوران ایک عدالتی مقدمے کے نتیجے میں ہوئی۔ 1965ء میں مصری حکومت نے سید قطب اور اخوان المسلمین کے کئی دیگر رہنماؤں پر حکومت کے خلاف سازش کرنے اور مسلح بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا۔[23] ان پر سرکاری طور پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ حکومت کو مسلح طریقے سے گرانے اور ایک "اسلامی ریاست" کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقدمے کو عالمی سطح پر ایک سیاسی مقدمے کے طور پر دیکھا گیا، جس میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو غیر منصفانہ طریقے سے عدالت میں پیش کیا گیا۔[24]
سید قطب کو 1966ء میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران عالمی رہنماؤں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، اور اسلامی تنظیموں نے ان کی رہائی کی کوششیں کیں، مگر جمال عبدالناصر کی حکومت نے ان پر رحم نہیں کھایا۔ سید قطب کو 29 اگست 1966ء کو قاہرہ کی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔[25]
سید قطب کی موت نے اسلامی دنیا میں ایک بڑا اثر چھوڑا اور انہیں پرائیویٹ جہادی سوچ کے حاملین کی تاریخ میں ایک "شہید" کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے افکار نے بعد میں آنے والی اسلامی تحریکوں، جیسے القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں، پر گہرے اثرات ڈالے، جنہوں نے ان کی تحریروں کو اپنے نظریاتی بنیادی اصولوں کے طور پر اختیار کیا۔[26]
متعلقہ مضامین
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://global.britannica.com/biography/Sayyid-Qutb
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118881957 — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb12191673k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Sayyid-Qutb — بنام: Sayyid Qutb — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12191673k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ John Calvert (2010)۔ Sayyid Qutb and the Origins of Radical Islamism۔ Columbia University Press
- ↑ Sivan, Emmanuel (1985)۔ Sayyid Qutb: Ideologue of Islamic Revolution۔ Oxford University Press
- ↑ "Sayyid Qutb: Milestones"۔ Encyclopaedia Britannica۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2024
- ↑ "Sayyid Qutb: His Life and Legacy"۔ Council on Foreign Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2024[مردہ ربط]
- ↑ Qutb, Muhammad (1991)۔ Islamic Awakening Between Rejection and Extremism۔ American Trust Publications
- ↑ Bergesen, Albert (2010)۔ The Life and Ideology of Sayyid Qutb۔ Rutgers University Press
- ↑ Calvert, John (2010)۔ Sayyid Qutb and the Origins of Radical Islamism۔ Columbia University Press
- ↑ "Sayyid Qutb's Educational Journey"۔ Oxford Islamic Studies Online۔ 25 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2024
- ↑ Ali, Tariq (2013)۔ Islamic Revivalism in Egypt۔ Hurst Publishers
- ↑ Zubaida, Sami (2005)۔ Islamic Activism and Education۔ I.B. Tauris
- ↑ Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B. Tauris
- ↑ Calvert, John (2010)۔ Sayyid Qutb: The Origins of Radical Islamism۔ Columbia University Press
- ↑ Esposito, John L. (2007)۔ Islam and Politics in the Modern World۔ Oxford University Press
- ↑ "Sayyid Qutb's Struggle Against Nasser"۔ Oxford Islamic Studies Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2024[مردہ ربط]
- ↑ Qutb, Sayyid (1964)۔ Milestones۔ Islamic Book Services
- ↑ "Wahhabism and Its Influence on Global Terrorism"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ October 24, 2024
- ↑ Sayyid Qutb (1964)۔ Milestones۔ Islamic Book Service
- ↑ Calvert, John (2010)۔ Sayyid Qutb: The Origins of Radical Islamism۔ Columbia University Press
- ↑ "Egypt and Sayyid Qutb: The Making of a Radical"۔ The Atlantic۔ اخذ شدہ بتاریخ October 24, 2024
- ↑ "Sayyid Qutb Executed in Egypt"۔ The New York Times۔ August 30, 1966
- ↑ Kepel, Gilles (2002)۔ Islamic Fundamentalism: The New Global Threat۔ University of California Press