صحافتی بامقصدیت
صحافتی بامقصدیت (انگریزی: Journalistic objectivity) ایک قابل ذکر تاثر ہے جو صحافتی پیشہ وریت میں شامل ہے۔ صحافتی بامقصدیت سے مراد غیر جانب داری، شخصی مفاد کی عدم پروری، حقیقت پر مرکوزیت اور ایک عمومی لا تعلقی شامل ہو سکتی ہے۔ مگر اکثر اس میں یہ ساری کیفیات شامل ہو سکتی ہیں۔ اس تصور کے ارتقا کی تاریخ اٹھارہویں صدی ہے، جس کے بعد سے کئی ناقدانہ اور متبادل تصورات اُبھر چکے ہیں، جن سے زور و شور سے رواں اور فعال مباحثے صحافت کی بامقصدیت کے ارد گرد چل رہے ہیں۔
ایک صحافی کا کام کسی سانحے کی خبریں عوام تک لانا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ صرف خبر پیش کریں اور پھر دیکھنے والے پر چھوڑ دیں کہ وہ اس پر غم و غصے کا اظہار کرتا ہے یا نظر انداز کردیتا ہے۔ لیکن جب سے خبروں کے چینل نجی ہاتھوں یا ان کی ملکیت کا حصہ بنے ہیں، یہ دیکھنے والوں کے جذبات پر اثر انداز ہورہا ہے، جب کہ بامقصدیت کو عوامی پسند اور اشتہارات اور اسپانسرشپ پر قربان کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سنسنی اور خبر کے درمیان فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔[1] با مقصد خبروں کی رسائی میں سنسی سے کہیں زیادہ حقائق پر روشنی ڈالنا اور لوگوں کو واقف کرانا شامل ہوتا ہے۔
اہم واقعات جن میں صحافتی بامقصدیت موضوع بحث بنی
ترمیم2019ء کی حیدرآباد کی اجتماعی آبرو ریزی
ترمیم2019ء میں حیدرآباد، تلنگانہ، بھارت میں ایک 27 سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری واقع ہوئی تھی، جو ملک کے سبھی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی سرخیوں کا حصہ بنی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ 27 نومبر کو اسپتال میں اپنی خدمت مکمل کر کے دِشا (تبدیل شدہ نام) گھر لوٹ رہی تھی۔ اس کی گاڑی کے پہیوں سے ہوا خارج کر دی گئی تھی۔ چار نامعلوم لوگ اس کی مدد کے لیے آگے آئے۔ ان لوگوں نے مدد کے بہانے رات کے اندھیرے میں دشا کی آبرو ریزی کی اور بعد مٹی کا تیل ڈال کر اس کو ہلاک کر دیا۔ 30 نومبر کو دشا کی آدھی جلی ہوئی لاش پولیس کو شاد نگر سے 30 کیو میٹر پر ملی۔[2] پولیس نے ملزموں کو تلاش کے بعد ڈھونڈ نکالا جن کی پہچان محمد پاشا، جولی شیوا، چینا کیساوولو اور نوین کمار کے طور پر کی گئی جو ٹرک چلانے کے پیشے سے جڑے تھے۔ [3] جمعہ 6 دسمبر، 2019ء کو رات ساڑھے تین اور چھ بجے کے بیچ حیدرآباد پولیس ان چار خاطیوں کو جنسی زیادتی کے مقام پر لے گئی۔ پولیس کے بیان کے مطابق وہ جرم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان میں اور خاطیوں میں مڈبھیڑ ہو گئی جس وہ سبھی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے پر کوشوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک ماورائے عدالت ہلاکتوں کا واقعہ ہے اور اس وجہ سے یہ فکر کا لمحہ ہے۔[4] اس واقعے کی وجہ سے عوامی رائے اور ذرائع ابلاغ بٹا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں اور صحافیوں نے ان خاطیوں کی ہلاکت کو بجا تو قرار دیا، حالانکہ وہ اسے ورائے عدالت ہلاکت مان رہے تھے۔ مگر کئی ذمے دار صحافیوں نے ایسے بھی بروقت پولیس کار روائی اور عدالتی طریقوں سے عصمت دروں کو کیفر کردار تک پہنچانے پر زور دیا، جو در حقیقت صحافتی بامقصدیت کی روح ہے کہ حساسیت اور سنسنی کی بجائے حقیقت، اصول پسندی اور متعلقہ ارباب مجاز سے مسئولیت پر زور دیا جائے۔ [5]