اعشیٰ قیس دور جاہلیت کا بہت بڑا شاعر اسے اعشیٰ الاکبر بھی کہا جاتا ہے اس کو ” صناجۃ العرب “ کے لقب سے پکارتے تھے۔

اعشیٰ قیس
معلومات شخصیت
پیدائش 6ویں صدی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منفحوحہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 629ء (58–59 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منفحوحہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل عربی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P172) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طبی کیفیت اندھا پن   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

ابو بصیر میمون بن قیس البکری معروف بہ اعشیٰ الاکبر 530ء میں یمامہ میں منفوحہ کے مقام پر متولد ہوا۔ اس کا پہلا راوی خود اس کا ماموں مسیب بن علس تھا۔

حالات زندگی

ترمیم

ابو بصیر میمون بن قیس بن جندل ان تجربہ کار اور ماہرین فن اساتذہ میں سے ایک ہے جنھوں نے شاعری کی بیشتر اقسام میں طبع آزمائی کرکے اسے کمائی کا ذریعہ بنایا۔ یمامہ کی منفوحہ نامی بستی میں اس نے پرورش پائی اور اپنے ماموں مسیب بن علس کی شاعری کا راوی بن کر اس نے شاعری میں کمال پیدا کیا، حتیٰ اس جب اس کی عقل پختہ ہو گئی اور زبان میں سلامت و زور پیدا ہوا تو کمائی کی تلاش میں ملک ملک پھرتا رہا۔ بادشاہوں کے دربار میں پہنچا اور ان کی مدح کرکے بخششیں مانگتا پھرتا۔ یہ شاہان نجران بنو عبد المدان کے پاس پہنچا تو انھوں نے اس کو عزت و احترام دیا اور گرانقدر عطیے دیے۔ ان کی صحبت میں وہ شراب نوشی کا عادی بن گیا، نیز ان کے بعض اثرات بھی قبول کیے۔ یہ چیزیں اس کی شاعری میں ملتی ہیں۔ خصوصاً شراب کے اوصاف بہت زیادہ ملتے ہیں۔ اعشی نے بہت لمبی عمر پائی، حتیٰ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بینائی جاتی رہی۔ اس نے جب نبی اکرم ﷺ کی نبوت کا سنا تو آپ کی شان میں مدحیہ قصیدہ کہا اور آپ سے ملاقات کے لیے حجاج کا رخ کیا۔ قریش کو جب اس کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو سخت گھبراہٹ طاری ہوئی۔ ابوسفیان کہنے لگا خدا کی قسم یہ محمد کے پاس چلاگیا یا مسلمان ہو گیا تو اپنی شاعری کی وجہ سے عربوں میں آگ بھڑکا دے گا۔ قریش نے اس کے لیے سو اونٹ اکھٹے کیے اور اعشی لے کر واپس ہوا اور جب یمامہ کے قریب ہوا تو اونٹنی سے گرا اور اونٹنی نے اس کی گردن کچل دی۔

شاعری ذریعہ آمدن

ترمیم

بعض راویان شعرا اور شاعری کے اصحاب نقاد کے خیال میں امرؤا القیس، زہیر اور نابغہ کا چوتھا ساتھی اعشی ہے اور ان کہنا ہے بہترین شاعر امرؤا القیس ہے جب وہ سوار ہو اور زہیر جب شوق و رغبت کرے اور نابغہ جب خوفزدہ ہو اور اعشی جب مست ہو۔ ان کی ترتیب میں اگرچہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کی شاعری میں جو رونق حسن ملاحت اسلوب اور شراب کے وصف میں کمال مہارت اور تطویل کے باوجود عمدہ بیانی ملے گی وہ کسی اور شاعر کے کلام میں نہیں مل سکتی ہے۔ اس شاعری سے کان گونج اٹھتے ہیں، دل میں ہیبت چھاجاتی ہے اور یہ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کا لقب ’صناجۃ العرب‘ (عرب کا جنگ بجانے والا) پر گیا۔ اس نے شاعری کی وجہ بہت سے لوگوں اور بہت سے لوگوں کو بے عزت کیا۔ محلق کا واقعہ (یعنی وہ غریب اور تنگ دست اور گمنام تھا) اس کی سات بیٹیاں تھیں اور اس کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ بیوی کی تجویز پر اس نے اعشی کی دعوت کی اور غربت کے باوجود اونٹنی کو ذبح کیا تو اعشیٰ نے اس کی مدح میں قصیدہ کہا تو وہ لوگوں میں مشہور ہو گیا۔ قریش کا اس کے اسلام لانے سے خطرہ محسوس کرنا اس امر کے بین دلائل ہیں۔[3]

اعشیٰ ایک عشرت طلب آدمی تھا۔ یہ قمار بازی اور دوسری لغویات میں مصروف رہتا تھا۔ ان کی وجہ سے وہ اسراف اور اتلاف میں گرفتار ہو گیا۔ اس لیے اس کو مال جمع کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ وہ یمامہ سے یمن، بادیہ، حجاز، حیرہ، عمان، فلسطین، عراق اور ایران گیا۔ کوئی ایسا بادشاہ نہ تھا۔ جس سے اس نے مالی مدد طلب نہ کی ہو۔ اعشیٰ اپنے زمانے میں خاصہ اثر والا شخص تھا زمانہ جاہلیت میں جس کی وہ مدح کرتا تھا وہ اس کو مال بخش دیتا تھا۔ جس کے لیے اس نے مدح کی اس کی منزلت بڑھ گئی،

جو چاہتا تھا کہ اعشیٰ اس کو اپنے اشعار میں یاد کرے اسے کچھ مال دے دیتا تھا۔ وہ اس کو اپنے اشعار میں یاد کرتا تھا۔ اعشی کا ایک بہت بڑا دیوان ہے۔ اس نے تمام ابواب میں طبع آزمائی کی ہے لیکن اس کے بیشتر اشعار مدح میں ہیں۔ غزل، وصف اور خمر میں بھی اس نے کافی اشعار لکھے ہیں۔ اس کے مشہور قصائد میں ایک قصیدہ معلقہ ہے۔

ودع ھریرہ ان الرکب مرتحل وھل تطیق وادعا ایھا الرجل

قصیدہ معلقہ تقریباً 65 بیت پر مشتمل ہے۔ اعشی کے دیوان میں شراب کے اوصاف اکثر دیکھے گئے ہیں۔

وفات

ترمیم

اعشیٰ 629ء میں وفات کر گیا۔ ابو الفرج اصفہانی اعشیٰ کے زمانے کا تھا۔ وہ روایت کر تا ہے کہ اس کی قبر کو میں نے دیکھا کچھ نوجوان اس کی قبر پر موجود تھے۔ وہ اس پر مٹی برسار ہے تھے۔ تاکہ اس کے استخوان کو زمین میں دفن کر دیں [4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13489446h — اخذ شدہ بتاریخ: 21 اپریل 2021 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13489446h — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور
  4. معجم الشعراء المؤلف : امام ابی عبيد اللہ محمد بن عمران المرزبانی