بیگم صوفیہ کمال 20 جون 1911ء کو پیدا ہوئیں۔ان کا انتقال 20 نومبر 1999ء کو ہوا۔ وہ ایک بنگلہ دیشی شاعرہ اور سیاسی کارکن تھیں۔ [2] انھوں نے 1950ء کی بنگالی قوم پرست تحریک مین بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ پہلی خاتون تھیں جن کی وفات کے بعد بنگلہ دیش میں سرکاری طور پر آخری رسومات ادا کی گئیں ۔

صوفیہ کمال
(بنگالی میں: সুফিয়া কামাল ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 جون 1911ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بریشال   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 نومبر 1999ء (88 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈھاکہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش
برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد سلطانہ کمال   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنفہ ،  صحافی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 اکوشی پادک
 اعزاز یوم آزادی
بنگلہ اکادمی ادبی ایوارڈ   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

صوفیہ کمال کی پیدائش باریال کے شہرستان آباد میں ہوئی۔ ان کے بچپن میں خواتین کا تعلیم حاصل کرنا ممنوع تھا اوران کا گھرانہ بھی خواتین کی گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے گھر کے استادوں سے بنگالی ، ہندی ، اردو اور عربی سیکھی۔ 1918ء میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ کولکاتا گئیں جہاں وہ بیگم روکیہ سے ملنے آئیں۔ ان کی پہلی شادی 11 سال کی عمر میں اس کے کزن سید نہال حسین سے ہوئی۔ان کے شوہر کا انتقال 1932ء میں ہوا۔ پانچ سال بعد صوفیہ نے کمال الدین احمد سے دوسری شادی کی۔[3] [4] کمال سے ان کی دو بیٹیاں سلطانہ کمال اور سیدہ کمال اور دو بیٹے شاہد کمال اور ساجد کمال نے جنم لیا۔ 1931ء میں وہ ہندوستانی خواتین فیڈریشن کی رکن بننے والی پہلی بنگالی مسلمان خاتون بن گئیں۔

ایک مختصر کہانی شانک بوڈھو جسے صوفیہ کمال نے لکھا وہ 1923ء میں ایک مقامی مقالے میں شائع ہوئی 1937ء میں انھوں نے اپنی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ کیئیر کانٹا (کییا کے درخت کے کانٹے) شائع کیا۔ ان کا ادبی کیریئر ان کی پہلی شاعری اشاعت کے بعد شروع ہوا۔ ان کی پہلی نظم سنجیر مایا (شام کا جادو)، 1938ء میں سامنے آئی ۔

سرگرمیاں

ترمیم

تقسیم ہند کے بعد اسی سال اکتوبر میں وہ ڈھاکہ آئیں۔ اس وقت ہندو اور مسلمانوں کے مابین ایک زبردست تصادم کا دور دوراہ تھا جس کے دوران میں کمال نے ان کی دوستی کے لیے کام کیا اور امن کمیٹی میں شامل ہوگئیں۔1948ء میں ، جب پوربو پاکستان موہلہ کمیٹی بنی تو وہ اس کے چیئرمین بن گئیں۔[5] صوفیہ کی سرگرمییاں لینگویج موومنٹ کے ساتھ 1952ء میں جاری رہی۔ 1961ء میں، جب پاکستانی حکومت نے رابندر سنگیت (رابندر ناتھ کے گانوں) پر پابندی عائد کی ، تو وہ بنگالیوں کے مابین اس تحریک میں شامل ہوگئیں جس کی ابتدا 1961ء میں ہوئی تھی۔ بعد کی زندگی میں، انھوں نے خواتین کے حقوق کو اپنی اولین ترجیح بنایا اور بنگلہ دیش کی خواتین کی سب سے بڑی تنظیم، خواتین پریشد کی سربراہی کئی سالوں تک کی۔ وہ عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو بنیادی طور پر ایک طبقاتی مسئلہ نہیں سمجھتی تھیں۔ وہ برک (1972ء–1980ء) کی پہلی چیئرپرسن بھی تھیں۔

ایوارڈ

ترمیم
  • بنگلہ اکیڈمی ادب برائے ایوارڈ 1962ء
  • لینن صد سالہ جوبلی میڈل 1970ء
  • سوویت یونین سے ایکوشی پڈک 1976ء
  • چیکوسلوواکیا میڈل 1986ء
  • جتیو کبیٹا پریشد ایوارڈ 1995ء
  • بیگم روکیہ میڈل 1996
  • دیشبندھو سی آر داس گولڈ میڈل 1996ء
  • یوم آزادی ایوارڈ 1997ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://galacticamedia.com/index.php/gmd/article/view/293/264
  2. Ahmad Kabir (2012)۔ "Kamal, Begum Sufia"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  3. Douglas Martin (28 November 1999)۔ "Sufia Kamal, Poet and Advocate, Dies at 88"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2012 
  4. "Kamaludddin Ahmed Khan: Keen, unconventional, relevant"۔ The Daily Star (بزبان انگریزی)۔ 10 May 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2018 
  5. Prothom Alo, 20 November 2006