عبدالحکیم نانا صاحب

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین، فقیہ اور بزرگ


میاں عبد الحکیم نانا صاحب (پیدائش: 1679ء — وفات: 1740ء) مغلیہ سلطنت میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عالم، فقیہ، محدث اور نامور بزرگ تھے۔ آپ کا زمانہ سترہویں صدی عیسوی کا ہے اور آپ کو سترہویں صدی کا بلوچستان میں سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا ہے۔

عبدالحکیم نانا صاحب
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1679ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحصیل خانو زئی ،  ضلع پشین ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1740ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تھل چوٹالی ،  ضلع لورالائی ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت (1679–1740)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  فقیہ ،  مفسر ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش اور ابتدائی حالات

ترمیم

نانا صاحب کا اصل نام عبد الحکیم تھا جبکہ والد کا نام سکندر شاہ تھا۔ میاں عبد الحکیم 1090ھ مطابق 1679ء میں بلوچستان کے ضلع لورالائی کی موجودہ تحصیل خانو زئی میں پیدا ہوئے۔ ابھی شِیر خوار ہی تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے اِنتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی تو انھیں سوتیلی ماں کی وجہ سے کئی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

تعلیم

ترمیم

میاں صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک مکتب سے حاصل کی جہاں انھوں نے گلستان، بوستان اور شروط الصلوٰۃ پڑھیں۔ بعد ازاں پشین کے گرد و نواح کے مختلف دیہات میں فارسی کتبِ صرف و نحو اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ اِس کے بعد قندھار چلے گئے تاکہ وہاں منطق، بدیع، معانی، بیان، اُصول اور حدیث و تفسیر کی تعلیم مکمل کرسکیں۔

تصوف

ترمیم

ظاہری علوم کی تحصیل کے بعد وہ باطنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور پہلے پہل سید لعل کے مرید ہوئے اور اِن کے ذوق و شوق اور صلاحیتوں کا انداز لگاتے ہوئے انھیں پشاور اپنے مرشد شیخ عبد الغفور نقشبندی کے پاس بھیج دیا۔

قندھار میں تبلیغ اور اواخر ایام

ترمیم

شیخ عبد الغفور نقشبندی کے پاس پشاور کچھ عرصہ ہی رہے تھے کہ انھوں نے اپنے شیخ میاں اللہ یار کے پاس لاہور بھیج دیا۔ لاہور میں میاں اللہ یار کے پاس روحانی تعلیم کی تکمیل کے بعد خرقۂ خلافت عطاء ہوا اور حکم ملا کہ قندھار جاکر خلق خدا کو مستفیض کریں۔ شیخ عبد الحکیم کو سلسلہ قادریہ اور سلسلہ نقشبندیہ، دونوں طریقوں میں بیعت کی اجازت تھی۔ 1707ء میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد خطۂ پنجاب میں سکھوں کی وجہ سے حالات مخدوش ہو چکے تھے لیکن قندھار میں اَمن تھا، جہاں پہنچنے کے بعد شیخ عبد الحکیم نے وعظ و تذکیر کے ساتھ ساتھ تزکیۂ باطن کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ روز بروز مقبولیت میں اِضافہ ہوتا گیا جس کے باعث تقریباً 25 سال تک شیخ قندھار میں مقیم رہے۔ مقبولیت سے خائف ہوکر شاہ حسین ہوتک نے قندھار چھوڑ دینے کا حکم جاری کیا جس سے 1736ء میں شیخ اپنے آبائی شہر خانو زَئی واپس آگئے مگر یہاں قیام نہ کرسکے اور بالآخر تھل چوٹالی میں ترین قوم نے انھیں رہائش کے لیے جگہ دی اور جہاں شیخ چار سال مقیم رہے۔ چار سال تک تبلیغ و اِرشاد کا فریضہ سر انجام دینے کے بعد 1740ء میں وفات پاگئے۔[1][2] اُن کا احترامی لقب ’’دادا‘‘ اور ’’نانا‘‘ تھا جو ’’بابا‘‘ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ شیخ عبد الحکیم کے متعدد خلفاء تھے۔ سردار حاجی صورت خان ترین اُن کے سجادہ نشین تھے جنھوں نے شیخ کا مزار تعمیر کروایا۔

تصانیف

ترمیم

تصوف سے متعلق شیخ عبد الحکیم کی چار کتابیں موجود ہیں: مجموعہ رسائل، مقامات تصوف، رسائل حکیمیہ اور حصن الایمان۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 22، صفحہ 74/75۔
  2. انعام الحق کوثر: تذکرۂ صوفیائے بلوچستان، صفحہ 166 تا 171۔ مطبوعہ لاہور، 1976ء
  3. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: صفحہ 13/14، مطبوعہ لاہور، 1971ء