عبداللہ توقای
عبد اللہ توقای (26 اپریل 1886 - 14 اپریل 1913) کا شمار تاتاری زبان کے ممتاز شعراء، ادیب، دانشور، نقاد اور اخبار نویسوں میں ہوتا ہے، آپ کو جدید تاتاری زبان و ادب کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔[1]
Ğabdulla Tuqay عبد اللہ توقاي Габдулла Тукай | |
---|---|
عبد اللہ توقای (1912) | |
پیدائش | 26 اپریل 1886 قشلاوک، کازان، روسی سلطنت |
وفات | 15 اپریل 1913 کازان، روسی سلطنت | (عمر 26 سال)
قلمی نام | شریل |
پیشہ | شاعر، ادیب، اخبار نویس |
قومیت | روسی |
نسل | تاتاری |
اصناف | قوم پرست، حقیقت پسند |
دستخط |
ابتدائی حالات
ترمیمعبد اللہ توقائ 26 اپریل 188٦ء کو گاؤں ملہ، قشلاوک، کازان، روسی سلطنت(موجودہ تاتارستان روس) میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی آپ کے والد محمد غریف محمد غلیمولی توقائیوف کا شمار علاقے کے ممتاز علماء میں ہوتا تھا، 1885ء میں عبد اللہ توقائ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو ان کے والد محمد غریف نے علاقے کے ایک ممتاز عالم دین قوچائل کی بیٹی ممدودہ سے شادی کرلی جب عبد اللہ توقائ صرف پانچ ماہ کا تھا تو آپ کے والد محمد غریف کا انتقال ہو گیا اسی دوران میں توقائ کے دادا بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو عبد اللہ توقائ کی والدہ نے سانسا کے ایک عالم دین سے شادی کرلی، کچھ عرصہ وہ اپنے گاؤں کی ایک بوڑھی خاتوں کے پاس رہے، بعد ازاں اس کے سوتیلے باپ نے انھیں اپنے پاس رکھنے کی ہامی بھری۔ 18 جنوری 1890 کو ان کی ماں کا بھی انتقال ہو گیا اور ایک بار پھر ان کو اپنے غریب دادا زینت اللہ کے پاس آنا پڑا، اس زمانے میں کھانے پینے کے اشیاء کی شدت قلت تھی اور پورے ملک میں قحط سالی کی وجہ سے لوگ کافی مشکل میں گزارہ کرنے پر مجبور تھے اس لیے اس کے غریب دادا خوراک کی کمی کے باعث ان کو کازان میں ایک گارڈ کے پاس بھیج دیا اس کے بعد اس گارڈ نے ان کو لے کر کازان کے مشہور بازار میں جاکر ان کو گود لینے کے لیے باآواز بلند اعلان کیا اسی اثناء میں کازان کے یانہ بستہ نامی علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد ولی اور اس کی بیوی عزیزہ نے عبد اللہ توقائ کی کی نگہداشت کا بیڑا اٹھانے کی ہامی بھری، شومئی قسمت دیکھیے کہ جب 1892 میں ان کے یہ محسن(رضاعی والد) بیمار ہو گئے تو ان کو دوبارہ اپنے غریب دادا کے پاس واپس آنا پڑا اور ان کے دادا نے اسے گاؤں قرلے بھیج دیا جہاں عبد اللہ توقائ نے سعدی کے پاس رہائش اختیار کی، اس دوراں سعدی نے ان کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔
1895ء میں ایک تاتاری تاجر عثمانوف نے اپنے بیٹے کی وفات کے بعد اپنے خاندان کے کسی بچے کو گود لینے کا فیصلہ کیا، علی اصغر عثمانوف اور اس کی بیوی عزیزہ(عبد اللہ توقائ کی چچی) نے سعدی کو ڈرا دھمکاکر عبد اللہ توقائ کو اپنے ساتھ لے گئے اس وقت ان کی عمر 10 سال تھی بعد ازاں ان کو موتیغیہ مدرسہ میں داخل کیا گیا، 188٦ میں ان کو روسیاسکول میں داخلہ ملا، 188٦ء میں اسکول کے زمانے میں الگزینڈر پشکن کی سالگرہ کے موقع پر آپ نے پہلا شعر پڑھا، 30 جولائی 1900ء کو علی اصغر عثمانوف کا پیٹ کی بیماری کے باعث انتقال ہوا تو انھوں نے دوبارہ مدرسہ میں داخلہ لیااور اسی دوران میں انھوں نے اپنے آپ کو مدرسے کے بہترین شاگرد کے طور پر منوایا، 1902ء میں ان کی عمر جب 1٦ سال کی ہوگی تو انھوں نے قرآن پاک پڑھنے میں دلچسپی ختم کی اور مدرسہ کے ساتھ ساتھ مدارس کے طالب علموں اور مدارسی تعلیم پر کھل کر تنقید کی، انھوں نے داڑھی بھی رکھی اور شراب و سیگریٹ بھی پیتے رہے اور شعروشاعری میں دوبارہ دلچسپی لینا شروع کیا۔[2]
ادبی زندگی
ترمیممدرسہ میں تعلیم کے دوران میں انھوں نے لوک ادب و شاعری میں دلچسپی لینا شروع کیا، فارسی، عربی اور ترکی شاعری پر عبور حاصل کیا اور 1900ء میں ایک تاتاری شاعر اور موتیغیہ گریجویٹ میر حیدر چلپانی نے مدرسے کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے چلپانی کو متاثر کیا، 1904 میں موتیغی نے جب اپنا ذاتی پریس کھولا تو انھوں نے بطور کلرک اس کمپنی میں بھرتی ہوئے۔
وفات
ترمیم26 جنوری 1913ء عبد اللہ توقائ ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلا ہوکر ہسپتال میں داخل ہو گئے، دوران میں بیماری انھوں نے مختلف اخبارات و میگزین کے لیے کالم اور شاعری و قطعات بھی باقاعدگی کے ساتھ لکھتے رہے، آپ کی شاعری سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر مبنی ہیں، آخر کار 15 اپریل 1913ء کو عبد اللہ توقائ کا 27 سال کی عمر میں انتقال ہوا اور اسے تاتاری قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔
عظیم تاتاری شاعر کا خطاب
ترمیمآپ کو تاتاری زبان کا عظیم شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور اس کی شہرہء آفاق نظم اے میری مادری زبان کو تاتاری زبان کا غیر سرکاری ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔