آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔آپ نے 126ھ میں وفات پائی ۔

عبد الرحمن بن قاسم
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 676ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 744ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سوریہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد قاسم بن محمد بن ابی بکر  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

آپ کا نام نامی اسم گرامی قاسم اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ مشہور تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر اور قریبہ بنت عبد الرحمن بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی رگوں میں دادھیال اور نانہال دونوں جانب سے صدیقی خون تھا۔

سلسلہ نسب ترمیم

عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ۔

پیدائش ترمیم

آپ ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی زندگی میں پیدا ہو چکے تھے۔

فضل و کمال ترمیم

عبد الرحمن بن قاسم کے والد قاسم بن محمد فضل و کمال اور زہد و ورع کے لحاظ سے بڑے مرتبہ کے تابعی تھے، اس لیے یہ دونوں کمالات گویا آپ کو وراثت میں ملے تھے۔

  • امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت ، امامت ، فضیلت اور صلاح پر سب کا اتفاق ہے۔
  • حافظ ذہبی آپ کو ثقہ ، امام ، متورع اور بلند مرتبت لکھتے ہیں۔

ابن حبان فقہ علم دیانت ، حفظ اور اتقان میں سادات اہل مدینہ میں شمار کرتے ہیں۔

حدیث ترمیم

مدینہ کے بڑے حفاظ میں تھے.

  • علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کأن ورعا كثير الحديث۔

حافظ ذہبی آپ کو امام اور حجت لکھتے ہیں۔

اساتذہ ترمیم

حدیث میں آپ نے اپنے والد قاسم بن محمد ، سعید بن مسیب ، عبد الله بن عبدالله بن عمر ، سالم بن عبدالله بن عمر ، نافع اور محمد بن جعفر بن زبیر وغیرہ بڑے بڑے تابعین سے استفادہ حاصل کیا تھا

تلامذہ ترمیم

آپ تلامذہ میں سماک بن حرب ، امام زہری ، عبید اللہ بن عمرو بن عجلان ، ہشام بن عروہ ، منصور بن زاذان ، یحیی بن منصور، یحیی بن سعید انصاری ، موسی بن عقبہ ، ایوب سختیانی ، حمد الطویل ، مالک ، شعبہ ، حماد بن سلمہ ، ثوری ، اوزاعی ، ابن جریح اور لیث وغیرہ جیسے اکابر شامل تھے۔

فقہ ترمیم

فقہ میں بھی متاز پایہ رکھتے تھے۔ ابن حبان آپ کو مدینہ کے سادات فقہا میں لکھتے ہیں۔ امام نووی رضی ابن الرضی اور فقیہ ابن الفقیہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

زہد و ورع ترمیم

زہد و ورع میں بھی آپ ممتناز پایہ رکھتے تھے۔ ابن سعد ، حافظ ذہبی ، ابن حجر اور امام نووی تمام ارباب سیر وطبقات آل کے زہد و ورع پر متفق البيان ہیں۔ مصعب خیار مسلمین میں لکھتے ہیں مردہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ان سے افضل کسی کونہیں پایا۔ ابن عینیہ آپ کو اُس عہد کا فضل ترین شخص کہتے تھے۔

وفات ترمیم

آپ کی جائے وفات اور سنہ وفات دونوں میں ارباب سیر کا اختلاف ہے۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ شام میں 126ھ میں وفات پائی۔ خلیفہ کی روایت کے مطابق سنہ 126ھ ہے لیکن جائے وفات مدینہ ہے۔ بعض او لکھتے ہیں سنہ وفات 131ھ ہے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تابعین مولف شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ257 تا 259