شیخ الاسلام، الامام الحافظ، العالم[1] ابو الحارث لیث بن سعد بن عبد الرحمٰن الفہمی القلقشندی (پیدائش: مئی 713ء — وفات: 16 دسمبر 791ء) محدث، مفسر، عالم اور فقیہ تھے۔ دوسری صدی ہجری میں امام لیث بن سعد مصر سمیت علمائے اسلام کے استاد تسلیم کیے جاتے تھے۔ علم حدیث اور فقہ میں اپنے عہد کے یکتائے روزگار میں سے تھے۔ اپنے عہد کے تقریباً سبھی علمائے حدیث نے اِن کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کیا۔ امام لیث بن سعد ممتاز تبع تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں کہ جن کی مجلسِ درس سے جلیل القدر علما اور محدثین نے اِکتسابِ فیض کیا۔علم و فضل، تفقہ فی الدین، فیاضی و سیر چشمی اور تواضع و مدارات اِن کی سوانح کی روشن کڑیاں ہیں۔

لیث بن سعد
(عربی میں: الليث بن سعد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش مئی713ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 دسمبر 791ء (77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فسطاط   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد شعیب بن لیث بن سعد   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابراہیم بن ابی عبلہ ،  جعفر بن عبد اللہ بن حکم انصاری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن ادریس شافعی ،  البویطی ،  سعید بن منصور   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خاندان

ترمیم

امام لیث کا آبائی وطن تو اصفہان تھا مگر اُن کا خانوادہ کسی جنگ میں قبیلہ قیس کی ایک شاخ فہم کا غلام ہو گیا تھا۔ غالباً اِسی وجہ سے آبائی وطن اصفہان چھوڑ کر اُن کو مصر جانا پڑا۔ اُن کے خاندان کے بزرگوں نے اُن کی پیدائش سے قبل ہی اصفہان چھوڑ دیا تھا۔ لیکن امام لیث کے دِل میں اصفہان کے لیے محبت ہمیشہ باقی رہی، وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ: ’’اصفہان کے رہنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔‘‘ [2]

پیدائش اور ابتدائی حالات

ترمیم

نام لیث، کنیت ابوالحرث تھی۔ والد کا نام سعد اور دادا کا نام عبد الرحمٰن تھا۔ اِن کے والد اور دادا کے ناموں سے پتا چلتا ہے کہ یہ غلام خاندان قدیم الاسلام تھا اور مصر کے قریب ایک بستی قلقشندہ میں امام لیث کا خانوادہ آباد تھا۔ قلقشندہ میں ہی امام لیث پیدا ہوئے۔ یہ بستی مصر کے اُس سرسبز و شاداب مقام پر واقع تھی جس کو اَب ریف مصر کہا جاتا ہے۔ امام ذہبی نے اِن القابات سے یاد کیا ہے: الامام الحافظ، شیخ الاسلام، عالم الدیار المصریۃ۔[1]

سنہ پیدائش

ترمیم

امام لیث بن سعد کے سنہ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اُن کی پیدائش 94ھ میں ہوئی۔ خود فرماتے تھے کہ میرے خاندان کے بعض لوگوں کا بیان ہے کہ میں 92ھ میں پیدا ہوا، لیکن صحیح یہ ہے کہ میری پیدائش 94ھ میں ہوئی کیونکہ جس وقت خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو میں سات برس کا تھا۔ اِس اعتبار سے امام لیث 94ھ میں پیدا ہوئے کیونکہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا انتقال رجب 101ھ میں ہوا تھا۔ امام لیث بن سعد 94ھ مطابق 713ء میں مصر کی بستی قلقشندہ میں پیدا ہوئے۔[3] امام ذہبی نے امام لیث کا قول نقل کیا ہے کہ: ”میں شعبان 94ھ میں پیدا ہوا۔“[4]

تعلیم و تربیت

ترمیم

امام لیث کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق تفصیلات نہیں ملتیں مگر اُن کو نحو و ادب اور شعر و سخن سے خاصا دلچسپی تھی۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وقت کے عام دستور کے مطابق اُن کی ابتدائی تعلیم اِنہی علوم سے شروع ہوئی مگر بعد میں اُن پر فقہ و حدیث کا اِتنا غلبہ ہوا کہ اُن کی زندگی کے اصل عنوان یہی علوم بن گئے اور دوسرے علوم فقہ و حدیث کے سامنے ماند پڑ گئے۔ سن شعور کو پہنچتے ہی انھوں نے فقہ و حدیث کی طرف توجہ دی۔ اولاً مصر کے مشائخ فقہ و حدیث سے استفادہ کیا اور پھر اسلامی ممالک کے دوسرے مقامات کا سفر اِکتیار کیا اور تمام معروف و مشہور اُساتذہ سے مستفیض ہوئے۔ امام لیث کے اُساتذہ میں سے پچاس کبار تابعین ہیں۔

امام نافع بن عبدالرحمٰن (متوفی 785ء) جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور امام لیث بن سعد کے زمانہ میں مجمع خلائق تھے۔ امام لیث امام نافع بن عبدالرحمٰن کی خدمت میں پہنچے اور جب امام نافع بن عبدالرحمٰن نے اِن سے اِن کا نام و نسب اور وطن پوچھا اور یہ بتا چکے تو عمر دریافت کی تو کہا: بیس سال۔ فرمایا: مگر داڑھی سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمھاری عمر چالیس سال سے کم نہ ہوگی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام لیث تقریباً 114ھ کے قریب قریب امام نافع بن عبدالرحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ: ’’میں نے لیث بن سعد کا ایک مرتب کردہ حدیث کا ایک مجموعہ دیکھا تھا، جس میں انھوں نے 100 کے قریب حدیثیں صرف حضرت امام نافع بن عبدالرحمٰن کی روایت سے جمع کی تھیں۔ امام نافع بن عبدالرحمٰن کے علاوہ اِن کے چند تابعی شیوخ کے نام یہ ہیں: ابن شہاب زہری (متوفی 124ھ)، سعید المقبری، ابن ابی ملیکہ، یحییٰ الانصاری وغیرہ۔ اِن کے علاوہ بے شمار تبع تابعین سے بھی علمی فیض حاصل کیا۔ امام نووی نے اِن کے چند ممتاز شیوخ کا ذِکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اِن کے علاوہ اِتنے ائمہ سے انھوں نے استفادہ کیا ہے کہ اُن کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘‘[5]

بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق امام لیث نے امام زہری سے بھی سماع حدیث کیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ امام زہری سے بالمُشافہ ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا اور نہ اِس کا ذکر خود امام لیث نے کیا ہے۔ البتہ امام لیث نے چونکہ امام زہری کے فقہی و علمی ذخیرے سے استفادہ کیا تھا اور یہ استفادہ بالواسطہ تھا، بالمُشافہ نہیں تھا۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ: ’’امام لیث امام زہری کی روایات کبھی ایک، کبھی دو اور تین اور اِس سے زائد واسطوں سے روایت کرتے ہیں۔ خود امام لیث کا یہ قول متعدد تذکروں میں منقول ہے: ’’میں نے زہری کی روایات کی ایک کثیر مقدار لکھ لی تھی (یعنی دوسرے افراد کے واسطے سے)، پھر میں نے اِرادہ کیا کہ رصافہ جا کر اُن سے بالمُشافہ روایت کروں مگر اِس خوف سے باز آیا کہ ممکن ہے کہ میرا یہ عمل اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو (مقصد یہ ہے کہ پھر وہ بالواسطہ ہی روایت کرتے رہے)۔‘‘ اِس قول سے ثابت ہوا کہ امام لیث کو امام زہری سے سماع حدیث حاصل نہ تھا۔

علم حدیث میں مقام

ترمیم

علم حدیث میں امام لیث کی حیثیت مسلَّم ہے۔ حدیث کی ایسی کوئی کتاب نہ مل سکے گی جس میں اُن کی مرویات موجود نہ ہوں۔ اُن سے سماعِ حدیث کو بڑے بڑے ائمہ اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے مگر اِس کے باوجود روایتِ حدیث میں حد درجہ تک محتاط تھے۔ ابوالزبیر اِن کے مشائخ حدیث میں سے تھے، مگر وہ جن روایات کو تدلیس کرتے تھے، اُن روایتوں کی تحدیث کو امام لیث ترک کردیتے تھے۔ اِس وجہ سے محدثین نے لکھا ہے کہ ابوالزبیر کی وہ مرویات جو امام لیث سے مروی ہیں، بہت زیادہ قابل اِعتماد ہیں۔ غیر معمولی ذہانت اور قوتِ حافظہ کے باوجود تحدیثِ روایت میں کسی پر اِعتماد نہیں کرتے تھے۔حتیٰ کہ جو روایات اُن کے یہاں لکھی ہوئی تھیں، انھیں بھی خود اپنی زبان سے روایت کرتے تھے۔ محدثین کا یہ طریقہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی مرویات کی دوسروں کے ذریعے سے تحدیث کرواتے تھے۔ لیکن امام لیث کے فرزند شعیب کا بیان ہے کہ: ایک بار تلامذہ نے اُن سے پوچھا کہ آپ بسا اوقات ایسی روایتیں بھی کردیتے ہیں جو آپ کے مرتب کردہ مجموعوں میں نہیں ہیں؟ فرمایا: کہ جو کچھ میرے سینے میں محفوظ ہے، وہ سب اگر سفینوں میں منتقل کر دیا جاتا تو ایک سواری کا بوجھ ہوجاتا۔[6]

وفات

ترمیم

امام لیث نے 78 سال شمسی کی عمر میں بروز جمعہ 15 شعبان 175ھ مطابق 16 دسمبر 791ء کو فسطاط میں انتقال کیا۔[7] نمازِ جنازہ موسیٰ بن عیسیٰ الہاشمی نے پڑھائی۔نمازِ جمعہ کے بعد مصر کے ممتاز و قدیمی قبرستان قرافۃ الصغریٰ میں سپردِ خاک کیے گئے۔ جنازے میں بے شمار مجمع تھا، مگر پورا مجمع اِس طرح پیکرِ غم بنا ہوا تھا کہ گویا ہر شخص کے گھر کی میت ہو۔ خالد بن عبد السلام صدفی کا قول ہے کہ میں اپنے والد عبد السلام کے ساتھ جنازہ میں شریک تھا، میں نے ایسا عظیم الشان جنازہ نہیں دیکھا، پورا مجمع پیکرِ غم بنا ہوا تھا، ہر ایک دوسرے سے اِظہارِ تعزیت کر رہا تھا، غم کا یہ عالم دیکھ کر میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجمع کا ہر شخص ایسا غمزدہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ جنازہ اُسی کے گھر کا ہے۔ والد نے کہا کہ بیٹا یہ ایسے جامع فضل و کمال عالم تھے کہ شاید تمھاری آنکھیں پھر ایسا عالم نہ دیکھیں۔[7]

ائمہ کرام کی آراء

ترمیم

امام لیث اپنی فطری اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے آغازِ شباب میں ہی تابعین اور تبع تابعین دونوں کے علوم کے جامع بن گئے اور ہر طرف اُن کے علم و فضل کا چرچا پھیل گیا ۔ خود اُن کے شیوخ تک اُن کے علم و فضل و کمال کے معترف تھے۔ شرحبیل بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ممتاز اور معمر ائمہ حدیث کو دیکھا ہے کہ وہ امام لیث کے علم و فضل کا اعتراف کرتے تھے اور اُن کو آگے بڑھاتے تھے (یعنی روایت کرتے تھے)، حالانکہ ابھی بالکل نوجوان تھے۔ یحییٰ بن سعید بھی امام لیث کے شیوخ میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ: انھوں نے کسی بات پر امام لیث کو ٹوکا اور پھر کہا: ’’تم امامِ وقت ہو، جس کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں۔‘‘[8] محدث عبد اللہ بن وہب فرماتے تھے کہ: ’’اگر امام لیث اور امام مالک نہ ہوتے تو میں گمراہ ہوجاتا۔ ابو اسحاق شیرازی نے لکھا ہے کہ: ’’مصر میں تابعین کا علم امام لیث پر ختم ہو گیا۔ امام ابن حبان کا قول ہے کہ: ’’علم و فضل، تفقہ اور قوتِ حافظہ میں وہ اپنے زمانے کے ممتاز لوگوں میں سے تھے۔‘‘ امام نووی نے لکھا ہے کہ: ’’اُن کی اِمامت و جلالتِ شان اور حدیث و فقہ میں اُن کی بلندیٔ مرتبت پر سب کا اِتفاق ہے۔ وہ اپنے زمانے میں مصر کے امام تھے۔‘‘ یعقوب بن داؤد مہدی کا وزیر تھا، اُس کا بیان ہے کہ جب لیث بن سعد عراق آئے تو مہدی نے کہا: اِس شیخ کی صحبت اِختیار کرو، اِس وقت اِن سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔‘‘ علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ: ’’ میں نے اِختلاف ائمہ پر نظر ڈالی تو بجز ایک مسئلہ کے لیث بن سعد کو کسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ و تابعین سے الگ نہیں پایا۔‘‘ وہ مسئلہ جس میں وہ منفرد تھے، وہ یہ تھا کہ وہ مری ہوئی ٹڈی کو کھانا حلال نہیں سمجھتے تھے، حالانکہ اُس کی تحریم کا کوئی قائل نہیں۔

امام شافعی نے اِن کا زمانہ پایا تھا مگر اِن سے اِکتسابِ فیض نہ کرسکے، جس کا انھیں زِندگی بھر افسوس رہا۔ امام لیث بن سعد کے مجتہدات اور مسائل فقہ اگر مدون کیے گئے ہوتے تو اُن کا شمار ائمہ مجتہدین میں ہوتا، اِسی بنا پر امام شافعی فرماتے تھے کہ: ’’اُن کے تلامذہ نے اُن کو ضائع کر دیا۔‘‘ یعنی اُن کے افادات کو انھوں نے مدون نہیں کیا کہ اُن کی اِمامت و جلالت کا صحیح اندازہ بعد کے لوگوں کو ہو سکتا۔ امام شافعی فرماتے تھے: ’’مجھے امام لیث بن سعد اور ابن ابی ذویب کے علاوہ کسی سے نہ ملنے کا افسوس نہیں ہے۔‘‘

فضل وکمال

ترمیم

لیث بن سعد اپنی فطری صلاحیت اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے آغازِ شباب میں تابعین اور تبع تابعین دونوں کے علوم کے جامع بن گئے اور ہرطرف ان کے علم و فضل کا چرچا شروع ہو گیا، خود ان کے شیوخ تک ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے تھے، شرجیل بن یزید کا بیان ہے کہ میں نے ممتاز اور معمرائمہ حدیث کودیکھا ہے کہ وہ لیث کے علم و فضل کا اعتراف کرتے تھے اور اُن کوآگے بڑھاتے تھے؛ حالانکہ ابھی بالکل نوجوان تھے، یحییٰ بن سعید ان کے شیوخ میں ہیں؛ انھوں نے کسی بات سے ان کوٹوکا اور پھرفرمایا کہ تم امام وقت ہو جس کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں۔ [9] امام شافعی نے ان کا زمانہ پایا تھا؛ مگران سے استفادہ نہ کرسکے تھے، جس کا ان کوزندگی بھرافسوس رہا، فرماتے تھے مجھے لیث بن سعد اور ابن ابی ذھب کے علاوہ کسی سے نہ ملنے کا افسوس نہیں ہے۔ [10] مشہور محدث عبد اللہ بن وہب فرماتے تھے کہ اگرلیث اور امام مالک رحمہ اللہ نہ ہوتے تومیں گمراہ ہوجاتا، ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مصر میں تابعین کا علم لیث پرختم ہو گیا، امام ابن حبان کا قول ہے کہ علم و فضل، تفقہ اور قوتِ حافظہ میں اپنے زمانہ کے ممتاز لوگوں میں تھے۔ [11] امام نووی نے لکھا ہے کہ ان کی امامت وجلالتِ شان اور حدیث وفقہ میں ان کی بلندی مرتبت پرسب کا اتفاق ہے، وہ اپنے زمانہ میں مصر کے امام تھے۔ [12] یعقوب بن داؤد مہدی کا وزیر تھا اس کا بیان ہے کہ جب لیث بن سعد عراق آئے تومہدی نے کہا کہ اس شیخِ وقت کی صحبت اختیار کرو، اس وقت ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں نے اختلاف ائمہ پرنظرڈالی توبجز ایک مسئلہ کے لیث بن سعد کوکسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ وتابعین سے الگ نہیں پایا، وہ مسئلہ جس میں وہ منفرد تھے وہ یہ ہے کہ وہ مری ہوئی ٹڈی کھانا حلال نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کی تحریم کا کوئی قائل نہیں ہے۔ [13]

حدیث

ترمیم

علم حدیث میں ان کی حیثیت مسلم ہے، حدیث کی کوئی متداول کتاب نہیں ملے گی جس میں لیث بن سعد کی مرویات نہ موجود ہوں، ان سے سماع حدیث کوبڑے بڑے ائمہ اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے؛ اس کے باوجود وہ روایتِ حدیث میں حددرجہ محتاط تھے ابوالزبیر ان کے مشائخ حدیث میں تھے؛ مگروہ جن روایتوں میں تدلیس (تدلیس فن حدیث کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ راوی بیچ کے آدمی کا تذکرہ چھوڑ دے اور اُوپر کے راوی کا نام لے اس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ اس نے اوپر کے راوی سے براہِ راست روایت کی ہے) کرتے تھے، اُن روایتوں کی تحدیث کولیث ترک کردیتے تھے، اس وجہ سے محدثین نے لکھا ہے کہ ابوالزبیر کی وہ مرویات جولیث سے مروی ہیں بہت زیادہ قابل اعتماد ہیں، غیر معمولی ذہانت اور قوتِ حافظہ کے باوجود وہ تحدیث روایت میں کسی پراعتماد نہیں کرتے تھے؛ حتی کہ جوروایتیں ان کے یہاں لکھی ہوتی تھیں انھیں بھی خود اپنی زبان سے روایت کرتے تھے۔ [14] بہت سے محدثین کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی مرویات کی دوسروں کے ذریعہ تحدیث کراتے تھے، ان کے صاحبزادے شعیب کا بیان ہے کہ ایک بارتلامذہ نے ان سے پوچھا کہ آپ بسااوقات ایسی روایتیں بھی کردیتے ہیں جوآپ کے مرتب کردہ مجموعوں میں نہیں ہیں، فرمایا کہ جوکچھ میرے سینے میں محفوظ ہے وہ سب اگرسفینوں میں منتقل کر دیا جاتا توایک سواری کا بوجھ ہوجاتا۔ [15] حدیث کی روایت اور اس کی حفاظت میں جوورک ان کوحاصل تھا، اس کا اعتراف تمام ممتاز اہلِ علم اور ائمہ جرح و تعدیل نے کیا ہے، امام احمد ابن حنبل فرماتے تھے کہ لیث کثیرالعلم اور صحیح الحدیث تھے، ابوداؤد کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ مصر میں صحیح احادیث کی روایت اور ان کے حفظ واتقان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا، اس مرتبہ میں عمروبن حارث ان سے کچھ قریب تھے، کسی نے ان سے کہا کہ فلاں نے ان کی تضعیف کی ہے، فرمایا کہ میں نہیں جانتا، جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن معین ان کوثقہ کہتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ لیث اور ابن ابی ذہب میں کس کوحدیث کا محافظ پاتے ہیں، فرمایا: دونوں کو؛پھرکہا کہ یزید بن حبیب کی مرویات میں ان کا درجہ محمد بن اسحاق سے بلند ہے۔ ایک شخص نے ابن معین سے پوچھا کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے جواحادیث انھوں نے روایت کی ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، فرمایا نہایت ہی صالح اور قابل وثوق ہیں، ابن المدینی کا قول ہے کہ لیث ثقہ اور قابل اعتماد تھے؛ اسی طرح عجلی، نسائی، ابوزرعہ، یعقوب بن ابی شیبہ جیسے ائمہ حدیث نے ان کی توثیق کی ہے، المہ جرح و تعدیل جب کسی محدث یاامام کی توثیق یاتجریح کرتے ہیں تواس وقت عموماً ان کے پیشِ نظر نہ ان کی امامت وجلالت ہوتی ہے اور نہ کوئی اور جذبہ بلکہ ان کے سامنے روایت ودرایت کے وہ حالات ہوتے ہیں جن کوانہوں نے کتاب وسنت سے اخذ کرکے تحدیث وروایت کی اساس قرار دیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات بڑے بڑے ائمہ کی مرویات پران کوجرح کرنا اور ان کورد کردینا پڑتا ہے اور بہت سے کم درجہ محدث کی روایتوں کوقبول کرلینا اور ان کی توثیق کرنی پڑتی ہے، اس لیے علمِ حدیث میں کسی امام ومحدث کے درجہ کی تعین کرنے میں ان کے اقوال وآراء سے بڑی مدد ملتی ہے اور اُن کی روشنی میں ان کے علم و فضل کے خط وخال بھی بخوبی نمایاں ہوجاتے ہیں؛ اسی وجہ سے جن ائمہ نے حدیث کی تدوین وترتیب اور اس کی حفاظت میں حصہ لیا ہے ان کے سوانح حیات میں ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کوبڑی اہمیت حاصل ہے؛ اسی ضرورت کے پیشِ نظر یہ نقل کیے گئے ہیں۔

علم فقہ اب ایک مخصوص فن بن گیا ہے، مگر دوسری صدی کے نصف تک یہ کوئی مرتب ومدون فن نہیں تھا اور نہ تومختلف حلقے اور مدارسِ فقہ قائم ہوئے تھے؛ بلکہ جن ارباب علم میں ملکہ اجتہاد تھا وہ ضرورت کے مطابق کتاب وسنت سے اجتہاد کرتے تھے، قریب قریب ہراسلامی ملک میں دوچار ایسے ائمہ مجتہدین موجود تھے، جوحالات وضرورت کے مطابق پیش آمدہ مسائل کا جواب دیا کرتے تھے، جس شخص کوجس امام پراعتماد تھا، وہ ان کے مجتہدات پرعمل کرتا تھا، لیث ابن سعد کے زمانہ میں ایک طرف عراق اور شام میں امام اوزاعی اور امام ابوحنیفہ کے مجتہدات کا چرچا تھا تودوسری طرف حجاز میں امام مالک کے تفقہ واجتہاد کا غلغلہ تھا، ابھی مصر کی سرزمین میں کوئی ممتاز مجتہد نہیں پیدا ہوا تھا؛ لیث بن سعد کے وجود سے یہ کمی پوری ہو گئی۔ ان میں پورا ملکہ اجتہاد موجود تھا اور انھوں نے نہ جانے کتنے مسائل قرآن وسنت سے مستنبط بھی کیے؛ مگرافسوس ہے کہ دوسرے ائمہ کی طرح ان کے استنباطات اور مجتہدات مدون ومرتب نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے نہ توان کوشہرت ہی ہو سکی اور نہ ان کے فقہ واجتہاد کا عام چرچا ہی ہو سکا تفقہ واجتہاد میں ان کا جومرتبہ تا، اس کا اندازہ ائمہ محدثین ومجتہدین کے اقوال سے بخوبی ہو سکتا ہے، امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ لیث بن سعد امام مالک سے زیادہ آثار واحادیث کے لیے (تفقہ کے اعتبار سے) نافع تھے، انھی کا قول ہے کہ: اَللَّیْثُ أَفْقَهَ مِنْ مَالِكٍ إلَّاأَنَّ أَصْحَابَهُ ضَيَّعُهُ۔ ترجمہ:لیث امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے؛ لیکن ان کے تلامذہ نے ان کوضائع کر دیا۔ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی لم یدولوفقہہ کما دونوافقہ مالک۔ [16] ترجمہ:جس طرح امام مالک کی فقہ کی تدوین کی گئی؛ اس طرح لیث کے شاگردوں نے ان کے فقہ کی نہیں کی۔ یحییٰ بن بکیر کہا کرتے تھے کہ لیث امام مالک سے افقہ تھے (مگرشہرت وعظمت) ان کے حصہ میں آئی، مشہور محدث ابن وہب کا بیان ہے کہ لیث کے مستنبط مسائل ان کی مجلس میں پیش کیے گئے توایک دن ایک مسئلہ پرحاضرین نے بڑی تحسین کی اور کہا کہ اسیا معلوم ہوتا ہے کہ لیث امام مالک سے سن کرجواب دے دیتے ہیں، اس پرابن وہب بولے یہ نہ کہو؛ بلکہ یہ کہو کہ امام مالک لیث سے سن کرجواب دے دیتے ہیں، میں بخدا کہتا ہوں کہ میں نے لیث سے زیادہ فقہ نہیں دیکھا۔ یہ ابن وہب امام مالک کے خاص تلامذہ میں ہیں، اس لیے ان کا بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے؛ اسی تفقہ واجتہاد کی وجہ سے منصور خلیفہ عباسی ان کا بڑا احترام کرتا تھا۔ مصر میں قضاہ کا تقرر بغیر ان کی مرضی کے نہیں ہوتا تھا، منصور نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ مصر کی امارت قبول کر لیں؛ مگرانہوں نے اس سے انکار کیا، بعض تذکروں میں ہے کہ یہ مصر کے قاضی بنادئے گئے تھے؛ مگربعض قرائن کی بناپریہ بیان صحیح نہیں معلوم ہوتا، کمالِ تفقہ کے باوجود جب اُن کوکوئی مسئلہ نہیں معلوم ہوتا تھا وہ دوسرے اہلِ علم سے دریافت کرنے میں تکلف محسوس نہیں کرتے تھے، ایک بار آپ ایک مسجد سے نکلے تویحییٰ بن ایوب ادھر سے گذر رہے تھے، ان کوروکا اور کسی مسئلہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا وہ جواب دے کرواپس چلے گئے، گھرپہنچ کرانہوں نے اس احسان کابدلہ یہ چکایا کہ ایک ہزار دینار ان کوہدیۃً بھیج دیے۔ [17]

دوسرے علوم

ترمیم

حدیث وفقہ کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی انھیں دستگاہ تھی، یحییٰ بن بکیر کا قول ہے کہ میں نے لیث سے زیادہ جامع اادمی نہیں دیکھا وہ مجسم فقیہ تھے، ان کی زبان خالص عربی تھی، قرآن نہایت ہی اچھا پڑھتے تھے، نحو میں بھی درک تھا اور اشعار عرب اور حدیث کے حافظ تھے، بات چیت بھی بہت عمدہ کرتے تھے۔ [18] یہی قول امام نووی نے امام احمد بن حنبل کی طرف بھی منسوب کیا ہے، ان کی یہ جامعیت صرف علم وفن ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ دوسرے اوصاف کے بھی وہ جامع تھے۔

روزمرہ کے عام معمولات

ترمیم

ان کی اسی جامعیت کی وجہ سے ہرطبقہ اور ہرزمرہ کے لوگ ان کی خدمت میں آتے اور اپنی ضرورت پوری کرتے تھے، حکومت کے ذمہ دار اور اہلِ علم سے لے کرعوام تک اس میں شامل تھے؛ روزانہ ان کی چارمجلسیں ہوتی تھیں ایک مجلس حکومت وارکانِ حکومت کی ضروریات کے لیے مخصوص ہوتی تھی، دوسری مجلس میں وہ تشنگانِ حدیث نبوی کی پیاس بجھاتے تھے اور تیسری مجلس ان لوگوں کے لیے ہوتی تھی جوفقہ ومسائلِ فقہ دریافت کرنے آتے تھے اور چوتھی مجلس عام لوگوں کے لیے مخصوص ہوتی تھی، ان مجلسوں میں ان کا سلوک نہایت ہی فیاضانہ ہوتا تھا، نہ توافادہ وتعلیم میں کسی کی دل شکنی کرتے تھے اور نہ اہلِ حاجت روائی میں دلگیر ہوتے تھے؛ بلکہ راوی کا بیان ہے کہ : لایسئلہ احد فیردہ صغرت حاجۃ اوکبرت۔ [19] ترجمہ:یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور وہ اسے ردکردیں؛ خواہ اس کی ضرورت چھوٹی ہویابڑی

تلامذہ

ترمیم

اوپرذکرآچکا ہے کہ وہ عنفوانِ شباب ہی میں اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے اس وقت سے لے کروفات تک وہ مصر ہی میں رہے، پوری عمر میں مشکل سے دوتین بار وہ مصر سے باہر گئے تھے، اس پوری مدت میں جوکم ازکم 50،60/برس ہوتی ہے وہ اپنے اوقات کا نصف حصہ تعلیم وافادہ تحدیث روایت اور تفریع مسائل میں صرف کرتے رہے؛ ظاہر ہے کہ اتنی لمبی مدت میں ان سے ہزاروں آدمیوں نے اکتساب فیض کیا ہوگا، ان تمام مستفیدین اور تلامذہ کا استقصا توناممکن ہے، چند ممتاز فیض یافتگانِ درس کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں: شعیب، محمد بن عجلان، ہشام بن سعد (یہ دونوں بزرگ ان کے شیوخ میں تھے) ابن لیعہ ہشیم بن بشیر، قیس بن الربیع، عبد اللہ بن مبارک، عبد اللہ بن وہب، ابوالولید بن مسلم، ابوسلمۃ الخزاعی، عبد اللہ ابن الحکم، سعید بن سلیمان، آدم بن ایاس، عبد اللہ بن یزید المقری، عمروبن خالد، عیسیٰ بن حماد رحمہم اللہ وغیرہ، حافظ ابن حجر نے تقریباً 50/ثقہ تلامذہ کا تذکرہ کیا ہے؛ مگرطوالت کے خیال سے ان کا نام یہاں درج نہیں کیا گیا ہے۔

سیرت وکردار

ترمیم

ان کے صحیفہ زندگی کا یہ باب نہایت ہی روشن ہے وہ اپنے اخلاق واوصاف اور سیرت وکردار میں اسلامی زندگی کا نمونہ تھے، ابن مریم فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ جامع اوصاف آدمی نہیں دیکھا، ہروہ عادت وخوبی جس سے خدا کا قرب حاصل ہو سکتا ہو وہ ان میں موجود تھی۔ [20] ابن وہب کا بیان ہے کہ جوکچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ان سب کووہ اپنی زندیگ میں برتتے تھے۔ [21] ایک بار مصر کا ایک قافلہ امام مالک کی خدمت میں گیا؛ انھوں نے ملنے سے کچھ تاخیر کی، یہ لوگ آپس میں چہ مے گوئیاں کرنے لگے کسی نے کہا کہ یہ اخلاق میں ہمارے امام کی طرح نہیں ہیں، امام مالک نے یہ بات سنی توان کوفوراً اندر بلالیا اور پوچھا تمھارے امام کون ہیں، لوگوں نے کہا کہ لیث بن سعد، فرمایا مجھے ان کے ساتھ تشبیہ نہ دو؛ پھران کے کچھ اخلاقی اوصاف بیان کیے۔ [22] ایک بار بعض تاجروں نے ان سے کچھ پھل خریدے، خریداری کے بعد ان کوپھل گراں محسوس ہوئے اس لیے آپ سے پھل واپس کرلینے کی خواہش کی، آپ نے پھل واپس کرلیے، جب معاملہ ختم ہو گیا توروپیے کی تھیلی مانگی اور اس میں سے پچاس دینار نکال کرتاجروں کوہدیۃً دیے، ان کے صاحبزادے بھی اس موقع پرموجود تھے، ان کویہ برامعلوم ہوا اور انھوں نے حضرت لیث سے اس کا ظہار بھی کیا؛ مگرآپ نے فرمایا کہ خدا تمھیں معاف کرے، یہ پھل انھوں نے فائدے ہی کی اُمید اور غرض سے توخریدا تھا؛ مگرجب ان کوفائدہ محسوس نہیں ہوا توانہوں نے واپس کر دیا اور واپس کرنے کے بعد ان کے فائدے کی اُمید بھی ختم ہو گئی تومیں نے یہ مناسب سمجھا کہ ان کی اس اُمید وتوقع کا کچھ توبدلہ دے دوں۔ [23]

سخاوت

ترمیم

سخاوت وفیاضی گویا ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، وہ اپنی دولت مستحقین پربے دریغ صرف کرتے تھے، لوگوں کوپیسہ جمع کرنے میں لطف آتا ہے اور ان کواس کے خرچ کرنے میں لذت محسوس ہوتی تھی، اس کے علاوہ تجارت کا کاروبار بھی تھا، ان کے تمام سوانح نگار لکھتے ہیں ان کی سالانہ آمدنی 70،80/ہزار دینار تھی؛ مگراس پوری آمدنی پرکبھی زکاۃ دینے کی نوبت نہیں آتی تھی، یہ پوری آمدنی فقراء ومساکین اور مستحق اہلِ علم پرخرچ ہوجاتی تھی، خود فرماتے تھے کہ میں جب سے بالغ ہوا ہوں، مجھ پرایک درہم بھی زکاۃ واجب نہیں ہوئی۔ [24] کسی سال آمدنی کم ہوتی تھی توقرض کی نوبت آجاتی تھی، جب تک زندہ رہے سودینار سالانہ مستقل طور سے امام مالک رحمہ اللہ کے پاس بھیجتے تھے، ایک بار امام مالک نے انھیں لکھا کہ مجھ پرکچھ قرض ہو گیا ہے فوراً پانچ سودینار ان کے یہاں بھجوادیئے، ایک بار امام مالک نے ان سے تھوڑی سی عصفر (پیلے رنگ کی گھاس) لڑکوں کے کپڑے رنگنے کے لیے مانگی (غالباً یہ مصر کی خاص پیداوار تھی) انھوں نے اتنی مقدار میں بھیجی کہ امام مالک رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ہم نے اپنے گھرکے بچوں کے کپڑے رنگے، پڑوسیوں نے استعمال کیا؛ پھربھی اتنی بچ گئی کہ ایک ہزار دینار میں اُسے فروخت کیا گیا (خطیب نے اس واقعہ کے بیان میں بہت زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے)۔ [25] امام لیث بن سعد سنہ113ھ میں حج کوگئے تھے، حج سے فارغ ہوکر زیارتِ نبوی کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں پہنچے توامام مالک نے عمدہ کھجوروں کا ایک طشت ان کے پاس ہدیہ بھیجا؛ انھوں نے اس طشت میں ایک ہزار دینار رکھ کرواپس کیا۔ [26] ابن لہیعہ مشہور محدث ہیں، اتفاقاً ان کے گھر میں آگ لگ گئی اور سارا اثاثہ جل گیا، حضرت لیث بن سعد کواطلاع ہوئی توایک ہزار دینار بطورِ اعانت ان کے پاس بھیج دیے، بسااوقات وہ اپنی اس دادودہش کواپنے لڑکوں سے بھی پوشیدہ رکھتے تھے؛ تاکہ پانے والے کویہ ذلیل نہ سمجھیں، ایک بار منصور بن عمار کوانہوں نے ایک رقم دی اور کہا کہ دیکھو میرے لڑکے کونہ معلوم ہو؛ ورنہ تم اس کی نگاہ میں حقیر ہوجاؤگے، جب ان کے صاحبزادے شعیب کومعلوم ہوتا تواس کی تلافی میں انھوں نے بھی اپنے والد کی رقم سے ایک دینار کم رقم منصور کودی اور کہا کہ میں نے ایک دینار کم اس لیے کر دیا ہے کہ عطیہ میں والد کے برابر نہ ہوسکوں۔ [27] اسدبن موسیٰ کا بیان ہے کہ جب عراق میں عباسیوں نے بنوامیہ کوقتل کرنا شروع کیا تومیں بھاگ کرمصر چلا گیا، مصر میں بڑی بے سروسامانی اور پریشانی کی حالت میں پہنچا تھا، اتفاق سے اسی حالت میں لیث بن سعد کی مجلس درس میں گیا جب مجلس برخاست ہو گئی توان کا خادم میرے پاس آیا اور کہا کہ میں جب تک واپس نہ آجاؤں یہیں ٹھہرے، تھوڑی دیر بعد وہ آیا اور اس نے مجھے سودینار کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ امام نے فرمایا کہ اس سے اپنا سامان درست کرلیجئے، اسد کا بیان ہے کہ اس وقت میری کمر میں ایک ہزار دینار بندھے ہوئے تھے۔ ، میں نے اس کونکالا اور خادم سے کہا کہ میں شیخ سے ملنا چاہتا ہتوں، تم جاکر اجازت لاؤ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اپنا نام ونسب بتایا؛ پھراس رقم کوواپس کرنا چاہا؛ انھوں نے کہا کہ یہ ہدیہ ہے، صدقہ نہیں ہے، اس لیے قبول کرنے میں تامل نہ ہونا چاہیے؛ مگرمیں نے معذرت کی اور کہا جس چیز سے میں مستغنی ہوں نفس کواس کا عادی بنانا نہیں چاہتا، شیخ نے فرمایا کہ اچھا اگرتم لینا پسند نہیں کرتے تومستحق اصحاب حدیث میں یہ رقم تقسیم کردینا اسد کہتے ہیں کہ میں نے مجبور ہوکر یہی کیا۔ [28] ایک عورت ایک پیالہ لے کرآئی اور اس نے کہا کہ میرا شوہر بیمار ہے (بعض تذکروں میں لڑکے کا ذکر ہے اور بعض تذکروں میں مطلق یہ واقعہ مذکور ہے) معلوم ہوا ہے کہ آپ کے یہاں شہد ہے، اس پیالہ بھر شہد دے دیجئے، فرمایا وکیل (ناظم اُمورِ خانہ داری یاپرائیوٹ سکریٹری کووکیل کہتے تھے) کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمھیں ایک مطر شہد دے دے، عورت جب وکیل کے پاس پہنچی تووکیل امام کے پاس آیا اور غالباً شہد کی اتنی بڑی مقدار دینے پرکچھ کہا سنا؛ مگرآپ نے فرمایا کہ جاؤ اس کودے دو، اس نے اپنے ظرف کے بقدر مانگا تھا، ہم اس کواپنے ظرف کے بقدر دیتے ہیں، ایک مطر کا ایک سوبیس رطل ہوتا ہے۔

مہمان نوازی

ترمیم

سخاوت وفیاضی کا ایک مظہر مہمان نوازی بھی ہے، بخل کے ساتھ یہ صفت شاذ و نادر ہی جمع ہوتی ہے، لیث بن سعد جس درجہ کے فیاض تھے اسی درجہ کے مہمان نواز بھی تھے، عبد اللہ ابن صالح ان کے خاص شاگرد اور کاتب تھے، ان کا بیان ہے کہ میں تقریباً بیس برس ان کی خدمت میں رہا مگرکبھی ان کوتنہا کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا، ابوحاتم کا بیان ہے کہ لیث کے پاس جب کوئی مہمان باہر سے آجاتا تھا تووہ جب تک رہتا تھا، اس کووہ اپنے اہل و عیال کی طرفح اپنی کفالت میں لے لیتے تھے، جب وہ جانا چاہتا تھا پورازادِ سفر دے کرواپس کرتے تھے۔ [29] یہ مہمان نوازی صرف حضر ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ سفر میں بھی مہمانوں کا ہجوم ان کے یہ ساتھ ہوتا تھا، ان کے شاگرد قتیبہ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک بار امام لیث بن سعد کے ساتھ اسکندریہ سے سفر کرنے کا اتفاق ہوا تواس سفر میں تین کشتیاں تھیں، ایک کشتی میں کھانے کا سامان تھا، دوسری میں اہل و عیال اور تیسری کشتی مہمانوں کے لیے مخصوص تھی۔ اشہب کا بیان ہے کہ لیث بن سعد کبھی کسی سائل کوواپس نہیں کرتے تھے اور ان کے یہاں ایک لنگر خانہ جاری رہتا تھا، عموماً جاڑوں میں ان کے یہاں ہریسہ (یہ گیہوں کوکوٹ کراس میں گوشت کی آمیزش کرکے بناتے تھے) شہدوگائے کے گوشت کے ساتھ مہمانوں کوملتا تھا اور گرمی میں اخروٹ کا ستوشکر کے ساتھ، ان کا معمول تھا کہ ہرنماز کے بعد مساکین پرکچھ رقم صدقہ ضرور کرتے تھے۔

ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی

ترمیم

مگریہ ساری فیاضی اور سیرچشمی دوسروں کے لیے تھی، ان کی ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی، محمد بن معاویہ کا بیان ہے کہ ایک بار اپنے گدھے پرسوار ہوکر جا رہے تھے تومیں نے ان کی سواری اور سامان وغیرہ کا اندازہ کیا توسب کی قیمت 18،20/درھم سے زیادہ نہ تھی، یعنی زیادہ سے زیادہ چار روپئے ۔

ایوانِ حکومت سے بے نیازی

ترمیم

خلافت راشدہ کے بعد اموی حکومت جب ملوکیت کا شکار ہوئی اور حق وناحق کا فیصلہ ایک شخص کی رائے کے تحت ہونے لگا اس وقت سے ممتاز صحابہ رضی اللہ عنہم اور محتاط تابعین نے حکومت سے تعلق رکھنا پسند نہیں کیا، تبع تابعین کے زمانہ میں گویہ احتیحاط کم ہو گئی تھی مگرپھربھی ممتاز اور خداترس تبع تابعین کی اکثریت نے حکومت کے ساتھ تاعون وتعلق میں صحابہ وتابعین ہی کی روش اختیار کی، لیث بن سعد کا رویہ اس بارے میں ذرامعتدل تھا؛ انھوں نے نہ تواتنا تعلق پیدا کیا کہ وہ درباری عالم ہوکر رہ گئے اور نہ اتنے بے تعلق رہے کہ اس شجرممنوعہ کے قریب جانا بھی پسند نہ کرتے؛ انھوں نے نہ توحکومت کی کوئی ذمہ داری قبول کی اور نہ اس کے سامنے اپنی کوئی غرض لے گئے کہ اظہارِ حق میں یہ مانع ہو؛ مگراسی کے ساتھ وہ خلفاوامراء سے ملتے اور ان کی بہت سی ملکی وانتظامی مشکلات میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے رہے اوپرذکر آچکا ہے کہ ان کی ایک مجلس خاص طور سے ارکانِ حکومت کی حاجت روائی کے لیے ہوتی تھی۔ ان کی اسی اعتدال پسندی کی وجہ سے عوام اور حکومت دونوں پران کا اثر تھا ان کے حکم پرمصر کے امرا وقضاۃ کا عزل ونصب ہوتا تھا، ایک بار قاضی اسماعیل بن الیسع نے ایک مسئلہ میں ایسا فتویٰ دے دیا جسے اہلِ مصر پسند نہیں کرتے تھے، ان کے خلاف ایک ہنگامہ ہو گیا، جب امام لیث کواطلاع ہوئی تووہ ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے یہ فتویٰ کیسے دے دیا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا عمل اس کے خلاف موجود ہے، غالباً قاضی صاحب نے رُجوع نہیں کیا اس لیے انھوں نے ان کے معزول کرنے کے لیے لکھا (یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ پہلے مصر میں قضاۃ کا تقرر مصر کے اُمراء کے ہاتھ میں تھا؛ مگربعد میں یعنی سنہ155ھ سے براہِ راست خلفائے ان کا تقرر کرتے تھے، اسماعیل دوسرے قاضی تھے، جن کومہدی نے خود مقرر کیا تھا، کندی نے کتاب القذاۃ میں اس کی تفصیل دی ہے) چنانچہ ان کے معزول کیے جانے کا شاہی فرمان آگیا؛ چونکہ اس معزولی میں قاضی اسماعیل کی ہرطرح کی بدنامی تھی، اس لیے خط میں خاص طور سے یہ بات امام نے لکھ دی تھی کہ ہم کونہ توان کی دیانت داری میں کوئی شبہ ہے اور نہ انھوں نے درہم و دینار میں کوئی خیانت کی ہے؛ مگران سے شکایت یہ ہے کہ انھوں نے ایک سنت جاریہ کے خلاف فتویٰ دیا اور فیصلہ کیا ہے۔ [30] کندی نے کتاب القضاۃ میں ان کے معزول کیے جانے کی ایک وجہ اور بھی لکھی ہے، ممکن ہے کہ دونوں وجہیں جمع ہو گئی ہوں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مصر کے امرا ان کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے تھے۔ [31] خلیفہ منصور نے ان سے خواہش کی تھی کہ وہ پورے ملک میں اس کی نیابت قبول کر لیں، بعض روایتوں میں ہے کہ پورے ملک کی نیابت نہیں بلکہ مصر کی امارت پیش کی تھی؛ مگرانہوں نے انکار کیا، اس نے پھراصرار کیا تواپنی کمزوری کا اظہار کیا، اس پرمنصور نے بڑے زور دار الفاظ بلکہ شاہانہ انداز میں کہا کہ میری موجودگی میں آپ کوکسی کمزوری کا احساس نہ کرنا چاہیے؛ مگراس شدید اصرار کے باوجود وہ اپنے فیصلہ پرجمے رہے اوور یہ ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا؛ اگرپہلا بیان صحیح ہے (یہ بیان حافظ ابن حجر اور امام ذہبی کا ہے) تومنصور ان کے سامنے پوری مملکتِ اسلام کی وزیر اعظمی پیش کررہا تھا اور اگردوسرا بیان صحیح ہے تواسلامی سلطنت کے سب سے بڑے اور مالدار صوبہ کی گورنرمی پیش کی جارہی تھی؛ مگرانہوں نے اس سے گریز کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ گواس وقت سارا نظام اسلامی ہی تھا؛ مگراقتدار اعلیٰ جمہوری نہیں، شخصی تھا۔ اس لیے حکومت میں منسلک ہونے کے بعد کسی معاملہ میں اظہارِ حق کی گنجائش نہیں تھی؛ یہی وجہ تھی کہ محتاط بزرگوں نے دربار سے بالکل بے تعلقی رکھی، یاکم ازکم اس کی کسی ذمہ داری کے قبول کرنے سے گریز کیا اور جن بزرگوں نے قبول کیا وہ بڑی آزمائش میں رہے اس آزمائش میں پڑنے کے بعد دوچار ہی بزرگ ایسے تھے جواپنی حق گوئی اور جرأت سے سلامت بچ گئے؛ ورنہ زیادہ ترلوگوں کا دامن اس آزمائش میں داغدار ہوکر رہا۔ کیا عہدۂ قضا قبول کر لیا تھا۔ ابنِ خلکان اور صاحب شذرات الذہب نے لکھا ہے کہ انھوں نے عہدۂ قضا قبول کر لیا تھا؛ مگریہ صحیح نہیں ہے، اس کی متعدد وجہیں ہیں ایک یہ کہ اوپرذکر آچکا ہے کہ انھوں نے امارت کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، ظاہر ہے کہ جب انھوں نے امارت کی ذمہ داری تک قبول نہیں کی توپھر اس سے کم درجہ کا عہدہ یعنی عہدہ قضا قبول کرنے کے کیا معنی، دوسرے یہ کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ جب ان کے حکم سے مصر کے امرا اورقضاۃ کا عزل ونصب تک ہوتا تھا توپھران کواس عہدۂ کے قبول کرنے کے کی کیا ضرورت تھی جوخود ان کے اثر واختیار کے تحت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کندی نے مصر کے دلاۃ وقضاۃ کی مکمل تاریخ لکھ دی ہے، جو ہرکتب خانہ میں مل سکتی ہے، اس میں ولاۃ یاقضاۃ کی جوفہرست دی ہے اس میں کہیں لیث بن سعد کا نام نہیں ملتا، بخلاف اس کے کتاب میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی تردید ہوتی ہے؛ مگراس بے تعلقی کے باوجود وہ دربار میں جاتے اور موقع آجاتا توخلفاء کونصیحت وموعظت بھی کرتے، ایک بار ہارون رشید سے ملنے گئے اس نے ان سے پوچھا کہ مصر کی خوش حالی اور فارغ البالی کا دارومدار کس چیز پر ہے، نہایت صفائی سے فرمایا کہ: ترجمہ:نیل کے جاری رہنے اور مصر کے امیر کے صلاح وتقویٰ پر پھرفرمایا کہ نیل کے منبع کی طرف سے گندگی آتی ہے جس کی وجہ سے پوری نہرپٹ جاتی ہے، اس کی صفائی کی ضرورت ہے، یہ باتیں سننے کے بعد ہارون نے کہا کہ آپ نے بہت صحیح فرمایا۔ [32] اس زمانہ میں خلفاء وامراء کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کا عام رواج تھا، بسااوقات یہ بدعت مسجدوں تک میں کی جاتی تھی، ایک بار معروف شاعر عمار بن منصور مصرآیا اور اس نے مسجد میں خلیفہ وقت کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا، ابھی اس نے اپنا قصیدہ ختم ہی کیا تھا کہ دوآدمی اس کے پاس آئے اور کہا کہ تم کوامام لیث ابن سعد بلا رہے ہیں جب یہ ان کے پاس آیا توآپ نے اس سے کہا کہ تم مسجد میں کیا پڑھ رہے تھے، قصیدہ دہرایا، سننے کے بعد ان پرافسوس اور رقت کی کیفیت طاری ہوئی، کچھ دیر کے بعد جب یہ کیفیت دور ہوئی تونام پوچھا؛ پھراس کوروپیے کی ایک تھیلی دی اور اس سے کہا کہ اپنے کلام کوسلاطین کے دربار سے بچائے رکھو اور (سلاطین ہی پرکیا ہے) کسی مخلوق کی مدح نہ کرو، بس خدا کی حمدوثنا تمھارے لیے کافی ہے، انشاء اللہ میں ہرسال تم کواتنی ہی رقم بھیجتا رہوں گا۔ [33] غالباً اس کے بعد سے اس نے کسی کی مدح نہیں کی اور امام کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہو گیا۔

اہلِ مصر کوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص سے روکا

ترمیم

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جہاں اور بہت سے فتنے پیدا ہوئے، وہاں ایک فنتہ بزرگوں پرطعن وتشنیع اور سب وشتم کا بھی تھا، جولوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنا ضروری سمجھتے تھے اور جولوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگار تھے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرچھینٹے ڈالنا اپنا فرض سمجھتے تھے، مصر کے باشندے عام طور پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے حمایتی تھے، اس لیے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت وتنقیص کیا کرتے تھے، مصر میں جب امام لیث بن سعد کا اثرورسوخ بڑھا توانہوں نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل عام طور پربیان کرنے شروع کر دیے، یہاں تک کہ تنقیص عثمان رضی اللہ عنہ کی بدعت سیئہ مصر سے ختم ہو گئی۔ [34]

اولاد

ترمیم

ان کے دوصاحبزادوں کے نام تذکروں میں ملتے ہیں، ایک شعیب، دوسرے حرث، آپ کی کنیت ابوالحرث انھی صاحبزادہ کے نام پرتھی، ان صاحبزادگان کے حالات تذکروں میں نہیں ملتے؛ مگرجستہ جستہ جوواقعات ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب علم تھے، شعیب کے صاحب علم ہونے کا پتہ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام لیث بن سعد انہی کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ [35]

تصانیف

ترمیم

افسوس ہے کہ ان کی مرویات اور ان کے فتاوے مجتہدات باقاعدہ مدون نہیں کیے گئے؛ ورنہ ان کے علم و فضل کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ہمارے سامنے موجود ہوتا، اب بھی اگراحادیث وفقہ کی کتابوں سے ان کی مرویات اور ان کے اقوال وفتاوے کوالگ کر لیا جائے توحدیث وفقہ کا ایک اچھا خاصہ گل دستہ اس سے تیار کیا جا سکتا ہے؛ مگراب اس طرح کام کون کرے اور اگرکربھی لیا جائے تواس کی قدر کون کرے، تذکروں میں ان کی جن تحریری یادگاروں کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں: امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ کثیر التصانیف تھے۔ [36] لیکن انھوں نے ان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہ عموماً تصانیف کا تذکرہ کم کرتے بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں توان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے؛ مگرالرحمۃ الغیشیہ میں لکھا ہے کہ میں نے ان کی مرویات کا وہ مجموعہ دیکھا ہے جوحضرت نافع کے واسطہ سے مروی ہیں؛ انھوں نے اس کتاب میں لیث بن سعد کی روایات کردہ چالیس ایسی احادیث بھی نقل کی ہیں جوان تک صرف آٹھ واسطوں سے پہنچی ہیں، ایسی روایات جوکم سے کم راویوں کے ذریعہ مروی ہوں ان کومحدثین کی اصطلاح میں عوالی حدیث کہا جاتا ہے؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی تک ان کی مرویات کے بعض مجموعے متداول تھے، کسی شاگرد نے ان سے پوچھا کہ آپ بسااوقات ایسی روایتیں کرتے ہیں جوآپ کی کتابوں میں نہیں ملتیں، بولے: أَوَكُلَّمَا فِي صَدْرِي فِي كُتُبِي؟۔ [37] ترجمہ: کیا جوکچھ سینہ میں ہے وہ سب میری تمام کتابوں میں آگیا ہے؟۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود لیث بن سعد نے اپنی مرویات اور ممکن ہے کہ بعض فتاوے وغیرہ بھی مرتب کرلیے تھے، جوان کے تلامذہ کی عام توجہی کی وجہ سے ضائع ہو گئے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ضیعہ اصحابہ ان کے تلامذہ نے ان کو (یعنی ان کے علم و فضل کو) ضائع کر دیا۔ ابنِ ندیم نے ان کی دوکتابوں کا خاص طور سے ذکر کیا ہے، ایک کتاب التاریخ وغیرہ کتاب مسائل فی الفقہ، صفحہ نمبر:281۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب امام ذہبی : سیر اعلام النبلاء، جلد 8، صفحہ 136/137۔
  2. الرحمۃ الغیثیہ:  صفحہ 3۔
  3. سیر الصحابہ:  جلد 8،  صفحہ  356۔
  4. امام ذہبی : سیر اعلام النبلاء، جلد 8، صفحہ 137۔
  5. امام نووی: تہذیب الاسماء، جلد 1، صفحہ 74۔
  6. ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب، جلد 8، صفحہ 463۔
  7. ^ ا ب امام ذہبی : سیر اعلام النبلاء، جلد 8، صفحہ 161۔
  8. سیر الصحابہ:  جلد 8،  صفحہ  358۔
  9. (الرحمۃ الغیشیۃ:5)
  10. (الرحمۃ الغیشیۃ:2)
  11. (الرحمۃ الغیشیۃ:2)
  12. (تہذیب الاسماء:2/74)
  13. (الرحمۃ الغیشیۃ:9)
  14. (الرحمۃ الغیشیۃ:4)
  15. (تہذیب التہذیب:8/463)
  16. (الرحمۃ الغیشیہ:9)
  17. (الرحمۃ الغیشیہ:5)
  18. (تذکرۃ الحفاظ:1/204)
  19. (الرحمۃ الغیشیہ:9)
  20. (الرحمۃ الغیشیہ:7)
  21. (تاریخ بغداد:13/7)
  22. (صفوۃ الصفوۃ:4/282)
  23. (صفوۃ الصفوۃ:4/282)
  24. (تاریخ بغداد:13/11۔ صفوۃ الصفوہ۔ والرحمۃ الغیشیہ وغیرہ)
  25. (الرحمۃ الغیشیۃ:5)
  26. (تہذیب الاسماء:2/74)
  27. (صفوۃ الصفوہ:4/284)
  28. (الرحمۃ الغیشیہ:5)
  29. (الرحمۃ الغیشیہ:5)
  30. (الرحمۃ الغیشیہ:8)
  31. (الرحمۃ الغیشیہ:8)
  32. (الرحمۃ الغیشیہ:)
  33. (الرحمۃ الغیشیہ:7)
  34. (تاریخ بغداد:13/7)
  35. (تاریخ بغداد:13/10)
  36. (تذکرۃ الحفاظ:1/207)
  37. (تہذیب التہذیب:8/415، شاملہ، المؤلف: ابن حجر العسقلاني،مصدر الكتاب: موقع يعسوب۔ دیگرمطبوعہ:8/463)