عبد الرحیم قدوائی (پیدائش: 21 اکتوبر، 1956ء) بھارت کے معروف مصنف اور علمی، سماجی اور ملی شخصیت ہیں۔

خاندانی احوال

ترمیم

پروفیسر عبد الرحیم قدوائی، شمالی ہند کے مشہور شہر بارہ بنکی کے مردم خیز قصبے دریاباد کے معروف "قدوائی خاندان" کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ عظیم خاندان اپنی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات کے باعث بھارت کے طول و عرض میں آباد نامور مسلم گھرانوں میں مدتِ دراز سے نمایاں حیثیت کا حامل رہا ہے۔ قدوائیوں کے مورث اعلیٰ قاضی القضاة "شیخ معز الدین ملقب بہ قدوۃ الدین و العلم" یا عرف عام میں "قاضی قدوہ" تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت ہارون سے ہوتا ہوا لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے، قاضی قدوہ اندازہً دسویں صدی عیسوی میں ہندوستان آئے۔ ان کے دس پشتوں کے بعد ولی کامل اور مشہور صوفی بزرگ "مخدوم شیخ محمد آب کش" (م 880ھ مطابق 1476ء) گذرے ہیں۔ ان کی اولاد میں "مفتی مظہر کریم دریابادی" تھے، وہ شاہجہاں پور کی عدالت میں سرشتہ دار بھی تھے اور صاحب افتاء مفتی بھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی حمایت و نصرت کے لیے حریت پسندوں کی نشستیں انہی کی قیام گاہ پر ہوتی تھیں۔ یکم مئی 1857ء کو امام المجاہدین مولوی سرفراز علی گورکھپوری نے مفتی صاحب کے مکان پر ان کی موجودگی میں انگریزوں کے خلاف نہایت ولولہ خیز اور انقلاب آفریں تقریر کی۔ اس کے بعد مفتی مظہر کریم نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، اسی فتوائے جہاد کی پاداش میں برطانوی حکومت نے ان کو "کالا پانی" یعنی جزائر انڈمان و نکوبار میں چار برس قید کی سزا دی۔ مفتی صاحب مولانا فضل حق خیر آبادی مفتی عنایت احمد کاکوروی اور حکومت کے مخالف دیگر علمائے کرام بھی وہیں محبوس تھے۔ ان نفوس قدسیہ کے یکجا ہونے سے وہ دور افتادہ جزائر، دار العلوم بن گئے تھے۔ وہیں مفتی مظہر کریم نے جغرافیہ کی مشہور کتاب "مراصد الاطلاع" کا اردو ترجمہ کیا۔ حکومت نے اس علمی کام کے صلے میں ان کی سزا کی مدت یعنی سات برس کر کے ان کو رہا کر دیا۔ بعد ازاں وہ وطن مالوف دریا آباد گئے اور دینی و ملی کاموں میں مشغول ہو گئے۔ 10 شعبان 1289ھ مطابق 13 اکتوبر1872ء کو وفات ہوئی۔

مفتی مظہر کریم کے دو صاحبزادے تھے، مولوی عبد الرحیم (م 1897ء) اور مولوی عبد القادر ڈپٹی کلکٹر (م 1912ء مدفون؛ مکہ مکرمہ)۔ ڈپٹی عبد القادر کے دو صاحبزادے عبد المجید ڈپٹی کلکٹر (م 20 دسمبر 1960ء)، مولانا عبدالماجد دریابادی (م 6 جنوری 1977ء) اور صاحبزادی "سکینہ بی بی" تھیں۔

ڈپٹی عبد المجید دریابادی کے چار صاحبزادے اور ایک صاحب زادی تھیں: (1) حکیم عبد القوی دریابادی (م 16 اکتوبر 1992ء)، (2) حبیب احمد قدوائی (م 17 اکتوبر 2000ء)، (3) عابدہ خاتون (19جنوری 2003ء)، (4) ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی (م 10 جنوری 2017ء)، عبد العلیم قدوائی (م 18 اگست 2017ء)۔

مولانا عبدالماجد دریابادی کی چار صاحبزادیاں تھیں: (1) رافت النساء (م 19 دسمبر 1996) اہلیہ حکیم عبد القوی دریابادی، (2) حمیرا خاتون (م 16 اپریل 2005ء) اہلیہ حبیب احمد قدوائی، (3) زہیرا خاتون (12جنوری 2005ء) اہلیہ ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی، (4) زاہدہ خاتون (13 ستمبر 1993ء) اہلیہ عبد العلیم قدوائی۔[1]

ذاتی زندگی

ترمیم

نام عبد الرحیم قدوائی اور عرفیت "رحمانی" ہے ، والد صاحب کا نام "عبد العلیم قدوائی" اور والدہ محترمہ "زاہدہ خاتون" تھیں، جو مولانا عبدالماجد دریابادی کی صاحبزادی تھیں۔ عبد الرحیم قدوائی صاحب کی ولادت 21 اکتوبر 1956ء کو "خاتون منزل" لکھنؤ، اتر پردیش، بھارت میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں پھر مکتب میں اور " تعلیم گاہ نسواں اسکول لکھنؤ" میں حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے "منٹو سرکل اسکول" علی گڑھ میں داخلہ لیا، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ کیمسٹری سے بی اے کیا، اسی طرح انگریزی ادب میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی، 1981ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے "لارڈ بائرن کی ترکی کہانیاں" کے عنوان پر دوسری پی ایچ ڈی بھی کی۔ اس کے علاوہ "آسٹن یونیورسٹی برمنگھم برطانیہ" سے انگریزی زبان میں تدریسی سند بھی حاصل کی۔[2]

تدریسی و علمی خدمات

ترمیم

سب سے پہلے 1978ء سے 1997ء تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں بحیثیت ریڈر رہے، پھر 1997ء سے تا دم ایں بحیثیت پروفیسر منسلک ہیں۔

اسی طرح 1985ء سے آج تک ہر سال موسم گرما کی تعطیلات میں "لیسٹر یونیورسٹی، آکسفورڈ" اور "یونیورسٹی کالج لندن" میں بحیثیت استاذ زائر (Visiting Professor) جاتے ہیں۔

سنہ 2000ء میں چند ماہ تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رجسٹرار رہے اور 2001ء سے تا حال "اکیڈمک اسٹاف کالج" میں ڈائریکٹر ہیں، اسی طرح 2017ء سے تاحال مرکز علوم القرآن علی گڑھ کے ڈائریکٹر ہیں۔[3]

علمی و ملی مشغولیت

ترمیم

پروفیسر قدوائی ملک و بیرون ملک کی مقتدر دانش گاہوں، جامعات اور علمی تحقیقی اداروں میں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، لکھنؤ یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد، حیدرآباد یونیورسٹی، انگلش اینڈ فارن لینگویج یونیورسٹی حیدرآباد، الہ آباد یونیورسٹی الہ آباد، کشمیر یونیورسٹی سری نگر، کولکاتا یونیورسٹی کولکاتا، انٹگرل یونیورسٹی لکھنؤ ، خواجہ معین الدین چشتی لسانیات یونیورسٹی لکھنؤ ، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد (پاکستان)، لیسٹر یونیورسٹی، اوکسفرڈ یونیورسٹی اور اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر (برطانیہ) قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف علمی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں قیمتی محاضرات دیتے ہیں۔

پروفیسر قدوائی کے تقریبا ڈھائی سو علمی ، تحقیقی ، ادبی مضامین اور تبصرے شائع ہو چکے ہیں۔ نیز وہ متعدد دینی، تعلیمی اور ملی اداروں جیسے: ندوة العلماء لکھنؤ کی مجلس انتظامی، جامعۃ الہدایہ جے پور، مولانا ابو الحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل، سلطان جہاں مسلم سوشل اپلفٹ منٹ سوسائٹی علی گڑھ ، البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی علی گڑھ اور اقرا پبلک اسکول علی گڑھ سے مختلف حیثیتوں سے بھی وابستہ ہیں۔[4]

تصنیفی خدمات

ترمیم

انگریزی ترجمہ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآنیات، اسلامیات اور انگریزی و اردو ادبیات اب تک 30 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. نطق کو سو ناز ہیں، مرتب: نعیم الرحمن ندوی، صفحہ: 13-15، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ
  2. نطق کو سو ناز ہیں، مرتب: نعیم الرحمن ندوی، صفحہ: 11-12، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ
  3. نطق کو سو ناز ہیں، مرتب: نعیم الرحمن ندوی، صفحہ: 12، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ
  4. نطق کو سو ناز ہیں، مرتب: نعیم الرحمن ندوی، صفحہ: 12، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ

1 ـ نطق کو سو ناز ہیں.....مرتب نعیم الرحمٰن صدیقی ندوی ـ صفحہ 13ـ 15، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ

2 ـ نطق کو سو ناز ہیں.....مرتب نعیم الرحمٰن صدیقی ندوی صفحہ 11ـ 12 صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ

3 ـ نطق کو سو ناز ہیں.....مرتب نعیم الرحمٰن صدیقی ندوی ـ صفحہ 12، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ

4 ـ نطق کو سو ناز ہیں .....مرتب نعیم الرحمٰن صدیقی ندوی ـ صفحہ 12، صدق فاؤنڈیشن لکھنؤ