عبد الملک میمونی
عبد الملک بن عبد الحمید بن میمون بن مہران میمونی رقی، ابو الحسن کنیت ہے، عالم، محدث اور فقیہ تھے، امام احمد بن حنبل کے شاگرد تھے، کبار ائمہ میں شمار ہوتا ہے، ان کے دادا میمون بن مہران رقی جزیرۃ العرب کے شیخ مانے جاتے تھے۔[1][2]
عبد الملک میمونی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 797ء الرقہ |
وفات | سنہ 887ء (89–90 سال) الرقہ |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنبلی |
والد | میمون بن مہران |
عملی زندگی | |
استاذ | احمد بن حنبل |
تلمیذ خاص | احمد بن شعیب النسائی رضوان ، ابو عوانہ |
پیشہ | محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ ، علم حدیث |
درستی - ترمیم |
اساتذہ
ترمیم- اسحاق بن یوسف ازرق
- حجاج بن محمد
- محمد بن عبید طنافسی
- روح بن عبادہ
- مکی بن ابراہیم
- عبد اللہ قعنبی[2]
تلامذہ
ترمیم- امام نسائی
- ابو عوانہ اسفرائینی
- ابو بکر بن زیاد نیساپوری
- ابو علی محمد بن سعید حرانی
- محمد بن منذر شکر
- ابراہیم بن محمد بن متویہ [2]
علما کی آرا
ترمیمذہبی لکھتے ہیں : «عبد الملک میمونی رقہ کے بڑے عالم اور اس زمانے کے مفتی تھے»۔[2]
ابو بکر خلال فرماتے ہیں: « عبد الملک میمونی امام احمد کے جلیل القدر تلامذہ میں سے تھے، وفات کے وقت ان کی عمر سو سال سے کم تھی، زبردست فقہ کے مالک تھے، امام احمد ان کا خوب احترام کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ الگ انداز سے پیش آتے تھے۔
میمونی نے مجھ سے کہا: میں ان (امام احمد) کے ساتھ مستقل سنہ 250 سے تقریباً 27 سالوں تک رہا ہوں، پھر اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً حاضر ہوتا رہتا تھا، امام احمد مجھے زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے ابن جریج سے مثال دیا کرتے تھے اور مجھ سے کہتے کہ میں تمھارا دوسروں سے زیادہ خیال رکھتا ہوں، امام احمد کے بہت سے مسائل تقریباً سولہ 16 اجزاء میں ان کے پاس موجود تھے، دو جز تو کافی بڑے تھے»۔[3]
وفات
ترمیمربیع الاوّل کے مہینہ میں سنہ 274 ہجری میں وفات پائی۔[3]