عزالدولہ عبدالرشید
عزالدولہ عبد الرشید غزنوی ابن سلطان محمود غزنوی (پیدائش: 1024ء— وفات: 1052ء) سلطنت غزنویہ کا نواں حکمران سلطان تھا جس نے 1049ء سے 1052ء تک حکومت کی۔
عزالدولہ عبدالرشید | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت غزنویہ | |||||||
برسر عہدہ 1049 – 1052 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | سنہ 1024ء | ||||||
تاریخ وفات | سنہ 1052ء (27–28 سال) | ||||||
والد | محمود غزنوی | ||||||
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمعبد الرشید کے متعلق مؤرخین کا اِختلاف ہے کہ اُس کا باپ کون تھا؟۔ محمد قاسم فرشتہ نے تحقیق سے لکھا ہے کہ وہ سلطان محمود غزنوی کا صلبی پانچواں فرزند تھا۔ وہ غزنی میں 1024ء میں اپنے والد سلطان محمود غزنوی کے دورِ حکومت میں پیدا ہوا۔
عہد حکومت
ترمیمسلطان مودود غزنوی نے عبد الرشید کو بست اور اسفرائن کے مابین ایک قلعہ میں قید کروا دیا تھا۔ بہاؤ الدولہ علی بن مسعود غزنوی کے بعد عبد الرزاق بن احمد حسن میمندی نے اثنائے سفر میں سلطان مودود غزنوی کے انتقال کی خبر سنی تو سیستان کی مہم کو ملتوی کرکے مگیاباد کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں چند دِن قیام کرکے آخر 443ھ مطابق 1051ء میں میمندی نے خواجہ ابوالفضل، رشید بن التونتاش اور توستگین وغیرہ کے مشورے سے اور سلطان مودود غزنوی کی وصیت کے مطابق عبد الرشید کو قیدخانے سے نکال کر سلطان مقرر کر دیا۔ یہیں سے میمندی نے عبد الرشید اور دوسرے امرا کو ساتھ لیا اور غزنی کا سفر اختیار کیا۔ ابو الحسن نے جب عبد الرشید کی آمد کی خبر سنی تو وہ اِس قدر بدحواس اور خوفزدہ ہوا کہ بغیر کسی جنگ کے تاج و تخت چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ عبد الرشید نے میدان خالی پایا اور کسی روک ٹوک کے بغیر ہی تخت نشیں ہوا اور حکمرانی کرنے لگا۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی سب سے پہلے عبد الرشید نے ابو الحسن کو گرفتار کر لیا اور اُسے وندیرود کے قلعہ میں قید کر دیا۔ اُس کے بعد اُس نے علی بن الربیع کو جس نے مکملاً ہندوستان پر قبضہ کررکھا تھا اور سلاطین غزنویہ کے سامنے آنا پسند نہ کرتا تھا، کو اپنے پاس بلالیا اور اطمینان دِلایا۔ علی بن الربیع کے معاملے کو اِس خوش اسلوبی سے نباہ کرکے عبد الرشید نے ہندوستان کی طرف توجہ کی اور توستگین کو سپہ سالار بنا کر ایک زبردست لشکر کے ساتھ لاہور کی طرف روانہ کیا۔
توستگین نے لاہور پہنچ کر نگرکوٹ کے قلعے کی جانب رخ کیا۔ پانچ چھ روز کے محاصرے کے بعد اُسے فتح کر لیا اور لاہور کو سلطنت غزنویہ کا حصہ بنالیا۔ عبد الرشید نے اِسی اثنا میں طغرل کو ایک بڑی فوج دے کر سیستان روانہ کیا۔ طغرل نے سیستان کو مکمل طور پر فتح کر لیا اور وہاں اپنے قدم جمالئے۔ اُس کی اتنی ہمت بڑھ گئی کہ اُس نے حکمرانی کے خواب دیکھتے ہوئے غزنی پر لشکرکشی کردی۔ عبد الرشید کو جب خبر ہوئی تو وہ مجبوراً قلعہ غزنی میں محبوس ہو گیا۔ طغرل نے قلعہ فتح کر لیا اور عبد الرشید سمیت خاندانِ غزنوی کے دیگر نو افراد کو قتل کروا دیا۔[1]
وفات
ترمیمطغرل نے عبد الرشید کو قلعہ غزنی میں خاندان کے نو افراد کے سمیت 1052ء میں قتل کروایا۔ اُس وقت عبد الرشید کی عمر 27 یا 28 تھی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ محمد قاسم فرشتہ: تاریخ فرشتہ، جلد 1، صفحہ 115۔