علامہ علی شیر حیدری رجب 1963ء کو ضلع خیر پور کے گاؤں گوٹھ موسی ٰ خان جانوریاں میں پیدا ہو ئے۔ ان کا تعلق بلوچ قبیلہ چانڈیو کے زمیندار گھرانے سے تھا۔ والد کا نام محمد وارث جانوری تھا۔ علامہ علی شیر حیدری سپاہ صحابہ پاکستان اھلسنت ولجماعت پاکستان کے سرپرست اعلی کے عہدے پر فائز رہے۔

علی شیر حیدری
علامہ علی شیر حیدری

معلومات شخصیت
پیدائش 1963ء
خیرپور سندھ
وفات 17 اگست 2009ء
گوٹھ دوست محمد ابڑو
شہریت پاکستانی
مذہب اسلام
مکتب فکر دیوبندی
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ اشاعت القرآن لاڑکانہ، جامعہ دار الہدیٰ ٹھیڑی
پیشہ ماہر اسلامیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر علامہ محمد احمد لدھیانوی،سربراہ اہل سنت والجماعت پاکستان ، شیخ الحدیث مفتی فاروق احمد، مفتی محمد اسد اللہ، علامہ خالد محمود(ملتان)ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، مولانا عبد الجبار حیدری، شیخ الحدیث مولانامحمود حسن(اٹک)، مولانا عبد الجبار فاروقی۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم خیر پور میرس کے مشہور اسکول گورنمنٹ ناز ہائی اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد جامعہ راشدیہ پیرو جو گوٹھ خیرپور میں داخلہ لیا۔ درس نظامی کی تکمیل جامعہ اشاعت القرآن لاڑکانہ سے کی جبکہ ٹھیڑی کے مشہور مدرسہ جامعہ دار الہدیٰ سے دورہ حدیث کیا۔ علامہ علی شیر حیدری کا شمار شروع سے ہی مکتب کے ہونہار اور ذہین و فطین طلبہ میں ہوتا تھا۔

تدریس

1984ء میں دوران تعلیم جامعہ عزیزیہ رتوڈیرو لاڑکانہ میں فقہ کی مشہور کتاب کنز الدقائق کا درس بھی دیتے رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ علامہ کی شہرت علوم قرآن ،علوم سنت ،علم فقہ ،علم الکلام اور تقابل ادیان میں کمال مہارت کے طور پر تھی۔ 1987ء میں خیر پور میں الجامعة الحیدریہ انوار الھدیٰ کے نام سے پروقار مگر سادہ درس گاہ قائم کی۔ جامعة الحیدریہ میں درس نظامی، تقابل ادیان ،اسلامی معاشرت اور تمدن کے ساتھ سندھی تہذیب و ثقاقت کے موضوعات پر علمی اور تحقیقی درس دیے۔ علامہ نے پورے سندھ میں اسلامی معاشرت کے تحفظ اور اس میں در آنے والی خرافات کی اصلاح کی کوششیں کیں اور لوگوں کو ان کی اصل اساس یعنی آغاز اسلام سے نسبت جوڑنے پر زور دیا۔ کیونکہ علامہ کا خیال تھا کہ مسلم معاشروں میں اتحاد و اتفاق صرف اور صرف اساس اسلام سے مضبوط ربط اور منظم تعلق سے ہی استوار کیا جا سکتا ہے۔

ذاتی زندگی

1979ء میں امریکا اور مغرب کے اشارہ پر فرانس میں رہائش پزیر شیعہ رہنما خمینی کے ہاتھوں بپا ہو نے والے ایرانی انقلاب کے اس لیے مخالف ہو گئے کہ امریکی برانڈ اسلام مسلم معاشروں میں فرقہ واریت ،انتہا پسندی اور نفرت پیدا کر رہا ہے۔

علامہ نے نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے دین اور ثقافت کو جانیں اور سنبھالیں۔ جذباتیت اور شعلہ بیانی کی بجائے علمی اور ادبی میدانوں میں اپنا کردار ادا کریں۔ علامہ فرمایا کر تے تھے کہ بہترین نظم و ضبط کے حامل ،اعلی ٰ اخلاق و کردار کے مالک،اسلام کی روح سے آشنا اور جدید دور کے تقاضوں سے آراستہ و پیراستہ طلبہ و طالبات ملت کا اثاثہ اور ان کا سرمایہ ہیں۔ انھوں نے طلبہ پر خصوصی توجہ دی اور فرمایا کہ دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط اور تعلق رکھیں اور باہم علوم و افکار کا تبادلہ کرتے رہیں۔

علامہ نے عالمی حالات و واقعات کا درست سمت تجزیہ کر تے ہو ئے کہا تھا کہ امریکا مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کر نے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے جبہ و دستا ر میں چھپے جعلی علماءپیدا کر رہا ہے۔ ان جعلی علماءکا کام معاشرے میں فروعی اختلافات کو زور دیکر بیان کرنا ہے تاکہ ملک میں مذہب کے نام پر خانہ جنگی کی کیفیت اور ماحول پیدا کر کے معاشرے کو دین بیزار بنایا جا سکے۔ دوسری جانب وہ مغربی اقدار کی سر پرستی اور فروغ کے لیے کو شاں ہے تاکہ معاشرے سے غیرت اور حمیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ تیسرے محاذ پر وہ آمروں اور اپنے ایجنٹوں کو ملکوں میں اقتدار پر مسلط کرواتا ہے تاکہ وہ مہنگائی، کرپشن اور ظلم کا بازار گرم کریں جس سے لوگوں میں ریاست کے خلاف نفرت اور بغاوت کا جذبہ پیدا ہو۔ یہ ساری صورتیں پاکستان کو تباہی کی جانب لے کر جا رہی ہیں۔

نظریات و تحریکات

علامہ نے اتحاد بین المسلمین کے داعی اور فکر اسلامی کے نقیب علامہ حق نواز جھنگوی کی پاک آواز پر لبیک کہا اور سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کی۔

علامہ صوبہ سندھ کے سر پرست رہے اور18 جنوری 1997ء کو قائد شہید ثانی علامہ ضیاءالرحمن فاروقی کی شہادت کے بعد علامہ کو سپاہ صحابہ کا سر پرست اعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔

علامہ نے علماءکے اتحاد اور فروعی اختلافات کے خاتمے کے لیے شاندار اور تاریخ ساز جدوجہد کی۔ عدالت عظمی پاکستان میں جسٹس سید سجاد علی شاہ کے سامنے اگست 1997 میں علامہ نے ملت اسلامیہ کا جب موقف پیش کیا تو چیف جسٹس اسلام کے خلاف اسلام کے روپ میں سازشوں کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ علامہ نے عدالت عظمی پاکستان کے سامنے ائمہ اہل سنت والجماعت ،اور مسالک اہل سنت والجماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ چیف جسٹس نے جب اسلام، قرآن، رسول اللہ، اہل بیت، صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے خلاف غلیظ قلم کی ناپاک جسارتیں دیکھیں تو فرط جذبات پر قابو نا رکھ سکے اور عدالت میں ہی آبدیدہ ہو گئے۔

علامہ نے علما، وکلا، سیاسی اور دینی جماعتوں اور شخصیات کے سامنے اپنا موقف کھلے انداز میں پیش کیا تو سب نے مانا لیکن مصلحت کے پردے میں سامراجی اور ستعماری عزائم سے ناآشنا اور جان کا خوف کھانے والے پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن علامہ نے تپتی دھوپ میں وارثت پیغمبری کا علم اٹھایا اور اسلام کا حقیقی تصور عوام اور خواص کے قلب و دماغ میں گاڑ دیا۔

علامہ نے خلیجی ممالک، افریقا، امریکا، یورپ اور برصغیر کے کئی ممالک کے سفر کیے۔ عربی، انگریزی، فارسی، اردو اور سندھی روانی سے بولتے تھے اور اپنے نوجوانوں سے بھی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں سیکھنے کا مطالبہ کر تے۔

علامہ کو جیل بھیجا گیا۔ تشدد کیا گیا ،کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو ئے لیکن مشن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رہے۔ جیل میں تھے اور وہیں 3 ماہ کے قلیل عرصے میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔

وفات

17 اگست 2009ء کی رات دو بجے تک خیرپور میں تزکیہ نفوس اور تطہیر فکر و قلوب کی مجلس میں مصروف رہے۔ رات کے آخری پہر اپنے مرکز روانگی کے لیے نکلے تو گوٹھ دوست محمد ابڑو کے قریب گھات لگا کر بیٹھے افراد نے علامہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور اس طرح راہی ملک عدم ہوئے۔[1]

حوالہ جات

  1. محمد یونس قاسمی۔ علامہ علی شیر حیدری۔ حیات وخدمات، افکار وآثار