علمائے چھولس سادات
سرزمین چھولس وہ زرخیز زمین ہے جہاں سے کافی تعداد میں علما، خطباء، ذاکرین، ڈاکٹر اور انجینیئر وغیرہ معرض وجود میں آئے ہیں۔
چھولس سادات کا مختصر تعارف
ترمیمچھولس، ایک تاریخی بستی ہے جو سادات کی بستی کہلاتی ہے؛ اس بستی کے سادات، ایران کے شہر "سبزوار" سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اس بستی کے مورث اعلیٰ سبزوار سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے سرزمین چھولس سادات،[1]؛ پر قیام پزیر ہوئے تھے۔ یہ بستی پہلے تو ضلع بلند شہر میں واقع تھی اس کے بعد غازی آباد اور حال حاضر میں یہ بستی ضلع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا) میں شمار ہوتی ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے چھولس سادات
ترمیمجغرافیائی اعتبار سے چھولس سادات، دہلی سے پچاس کیلو میٹر؛ غازی آباد سے اکتیس کیلو میٹراور دادری سے تیرہ کیلو میٹر مشرق کی طرف۔ نیز بلند شہر سے اٹھائیس کیلو میٹر اورسکندرآباد سے تیرہ کیلو میٹر مغرب کی طرف واقع ہے۔ دادری اور سکندرآباد کے درمیان میں ایک نہر کا پُل ہے جس کو کوٹ کا پُل کہتے ہیں اس پُل سے ساڑھے چار کیلو میٹر شمال(اتر)کی طرف واقع ہونے والی بستی کا نام چھولس سادات ہے۔[2]
علمائے چھولس سادات کا اجمالی خاکہ
ترمیمچونکہ یہ بستی کافی مشہور ہے اور اس کی یہ شہرت علما ءو ذاکرین کی مرہونِ منت ہے تو فعال ادارہ "پیام اسلام فاؤنڈیشن" کے ممبروں نے یہ سوچا کہ علمائے چھولس سادات (Olama-e-Chholas Sadat) کے نام سے ایک مضمون تخلیق کیا جائے تاکہ اس بستی کو زیادہ سے زیادہ متعارف کرایا جائے اور تمام لوگوں کے لیے اس بستی کے علمائے اعلام کا تعارف کرایا جاسکے۔ اگر چھولس سادات کے شجرہ کا مطالعہ کیا جائے تو شجرہ کے شروع سے آخر تک کافی تعداد میں علمائے اعلام کا وجود ملتا ہے، ہمارے مطالعہ کے اعتبار سے تقریباً چالیس علمائے اعلام کے اسمائے گرامی شجرہ چھولس سادات میں نظر آتے ہیں۔[3]۔ عین ممکن ہے کہ مطالعہ میں کوتاہی کے سبب کچھ رد و بدل ہو گئی ہو تو ایسی صورت میں درگزر کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض علمائے اعلام کے اسمائے گرامی اس شجرہ میں موجود نہ ہوں کیونکہ یہ شجرہ سنہ 2013ء تک کی پشتوں پر منحصر ہے۔ اگر چھولس سادات کے شجرہ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو بیرونی روابط میں لنک موجود ہے، اس لنک کے ذریعہ شجرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ تمام علمائے اعلام کی مکمل معلومات تو دستیاب ہونا ناممکن سا امر ہے لیکن کوشش یہی رہے گی کہ جہاں تک ممکن ہو علمائے چھولس سادات کی سوانح حیات آمادہ کی جائے۔ کچھ علمائے اعلام کی تاریخ بہت پرانی ہے یعنی ان کے متعلق بزرگوں کو بھی مکمل معلومات حاصل نہیں ہیں، اگر کوئی بزرگ ان علمائے اعلام کی زندگی کے متعلق کچھ گوشوں سے واقف ہوں تو ہمیں ضرور مطلع کریں۔ وہ علمائے اعلام کچھ اس طرح سے ہیں۔ (1)مولوی غلام عباس (2)مولوی عوض علی (3)مولوی شبیہ عباس ساکبؔ (4)مولوی رحم علی (5)مولوی اہلبیت حسین (6)مولوی ظریف عباس (7)مولوی نور الحسنین (8)مولانا ناظر حسین (9)مولانا سید حسن (10)مولانا فیاض حسین (11)مولانا محمد الیاس (12)مولانا عزیز الحسن (13)مولانا ظفریاب (14)مولانا سعیدحسن۔ یہ وہ علمائے کرام ہیں جن کا تعلق سرزمین چھولس سادات سے ہے اور ان کے متعلق معلومات فراہم نہیں ہو سکی ہیں؛ ان بزرگ علمائے اعلام کے علاوہ جن علمائے کرام کی معلومات حاصل ہورہی ہیں انھیں ہم درج کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی زندگی کو "پیام اسلام فاؤنڈیشن" کی سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔[4]
مولانا سید شمیم السبطین رضوی چھولسی
ترمیمچھولس کی سرزمین کی ایک مشہور ہستی مولانا سید شمیم السبطین رضوی ( Maulana Shamimus Sibtain Rizvi Chholsi) ہیں۔ آپ کے والد گرامی جناب غلام سبطین تپاںؔ صاحب مرحوم تھے جو بہترین شاعر تھے۔ مولانا کے آبا و اجداد 1947ء کی تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور لاہور کی سرزمین پر مقیم ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی پھر اس تعلیم کو لاہور پہنچ کر آگے بڑھایا اور آپ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد سرزمین قم ایران تشریف لے گئے، کئی سال تک اس سرزمین پر زیر تعلیم رہے اور پھر دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی خاطر پاکستان اور پاکستان سے لندن کی جانب سفر کیا۔ آپ نے لندن کی سرزمین پر ایک ادارہ قائم کیا جو آس پاس کے لوگوں کے لیے ایک مرکزی حیثیت کا حامل تھے۔ آپ جب تک حیات رہے تب تک آپ کا یہ جذبہ رہا کہ جتنا ممکن ہو سکے دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں سرگرم عمل رہا جائے۔ آپ طلاب علوم دینیہ کے حق میں نہایت ہمدرد ثابت ہوئے۔ آپ کی ولادت 1933ء سرزمین چھولس سادات پر ہوئی اور آپ کی وفات 2016ء لندن میں ہوئی اور وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کی اولاد بھی لندن میں ہی رہتی ہے البتہ آپ کے کچھ خاندانی لاہورا ور بعض خاندانی چھولس سادات میں موجود ہیں۔[5]
مولانا سید رضی عباس رضوی چھولسی
ترمیممولانا سید رضی عباس رضوی(Maulana Razi Abbas Rizvi Chhaulsi) 7 ربیع الثانی 1323 ھ بمطابق 12 جون 1905 ء کو چھولس ضلع بلند شہر، یو پی، کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چھولس میں ہی حاصل کی پھر مدرسہ منصبیہ میرٹھ، نور المدارس امروہہ، مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ اور مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسۃ الواعظین کے پرنسپل نجم الملت حضرت مولانا سید نجم الحسن کی طرف سے 1928 ء میں آپ کو واعظ کی سند اور اجازہ بزبان عربی جس پر دیگر اساتذہ کرام مولانا یوسف حسین نجفی، مولانا احمد علی اور مولانا سبط نبی صاحبان کے دستخط اور مہریں ثبت ہیں، جاری کی گئی۔ 1928 ء سے 1938 ء تک تقریبا دس سال آپ کیمبل پور، جو آج کل اٹک کہلاتا ہے، کی جامع مسجد میں تعینات رہے۔ اس دوران علاقہ کے لوگوں کے لیے تمام دینی خدمات اور تبلیغ و مجالس انجام دیتے رہے۔ 1938 ء سے 1952 ء تک ضلع بلند شہر کے قصبہ شکار پور کی جامع مسجد میں تعینات رہے۔ اس دوران مدرسہ احسن المدارس سے بھی منسلک رہے۔ 1952 ء سے 1981 ء تک گوجرانوالہ میں تعینات رہے۔ اپریل 1981 ء میں نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹاون، لاہور میں سکونت اختیار کی اور 10 جولائی 1989 ء بمطابق 6 ذی الحجہ 1409 ھ کو رحلت فرمائی۔۔[6]۔ [7]۔ [8]۔ [9]
مولانا سید قمر الزماں رضوی چھولسی
ترمیمفیلسوف زمان علامہ سید قمر الزماں رضوی چھولسی: مولانا کا اصل نام سید محمد رضی رضوی ہے اور آپ کی عرفیت قمرالزماں یا زماں چھولسی (Maulana Qamruz Zama Chholsi) ہے۔ آپ کے والد گرامی جناب سید محمد رفیع چھولسی ہیں۔ آپ 1325ہجری میں سرزمین چھولس سادات پر پیدا ہوئے اور سنہ1379 ہجری میں سرزمین لاہور(پاکستان) پر وفات پائی اور آپ کا مزار بھی لاہور میں ہی ہے اگر تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو آپ کا مزار مومن پورہ میکلوڈ روڈ لاہور میں واقع ہے۔ آپ لاہور میں کیسے دفن ہوئے؟ اس کی تفصیلات تاریخ میں کچھ اس انداز سے دستیاب ہوئیں: آپ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے بعد سنہ 1948 ء میں عازم پاکستان ہوئے اور لاہور میں قیام پزیر ہوئے۔ لاہور میں دیال سنگھ نامی کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے ۔ آپ منطق و فلسفہ میں ماہر تھے۔آپ عربی، فارسی اور اردو میں مکمل مہارت رکھتے تھے اور ان کی مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تینوں زبانوں میں بہترین شاعری کرتے تھے۔ [10][11][12][13] [14] آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اور تحتانیہ و فوقانیہ منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں اور اس کے بعد لکھنؤ کے مشہور مدرسہ "سلطان المدارس" میں سرگرم تعلیم ہوئے۔[15] ۔ آپ کی تحریروں میں مشہور تصنیفات جن کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے وہ تین تصنیفات نظر آتی ہیں: (1)راز قدرت (2)الحکمۃ المطالعہ شرح شمس البازغہ (3)ترجمہ جامع المسائل۔ پہلی دو کتابیں علم فلسفہ میں اور تیسری کتاب علم فقہ میں ہے۔
مولانا سید جرار حسین چھولسی
ترمیممولانا جرار حسین (Maulana Jarrar Husain Chholsi) اپنے زمانہ کے بہترین شاعر، مرثیہ گو، تحت خواں اور باصلاحیت عالم دین تھے۔ آپ کی متعدد کاوشیں مراثی کی صورت میں موجود ہیں؛ جن میں سے بعض کتب منظر عام پر بھی آئیں اور کچھ کتابیں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوپائیں۔ آپ کا شمار چھولس سادات کے باعزت افراد میں ہوتا ہے۔[16]۔مولانا جرار صاحب قبلہ کے دو مجموعے "قندیل حرم" اور "عکس حیات" کے نام سے دنیا کے عظیم ادبی پلیٹ فارم "ریختہ" پر موجود ہیں۔
مولانا سید تحسین حیدر رضوی چھولسی
ترمیمچھولس نامی بستی کی ایک مشہور شخصیت جن کا تعلق خاندان کشمیریان سے تھا؛ ان کو مولانا تحسین حیدر چھولسی (Maulana Tehsin Haider Chholsi) کے نام سے جانا جاتا ہے؛ مرحوم نے قوم تشیع کی بہت خدمت انجام دی ہے۔ آپ صاحب منبر تھے اور مصائب پڑھنے میں اگر بے نظیر نہیں تو کم نظیر ضرور کہا جا سکتا ہے۔ مرحوم کا خطبہ پورے خطہ میں مشہور تھا کیونکہ آپ بہترین انداز اور لحن میں خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ آپ اپنے آس پاس کے علاقوں میں منبر کی زینت شمار کیے جاتے تھے۔[17]
مولانا سید شایان رضا چھولسی
ترمیممشہور علمائے چھولس میں سے ایک نام مولانا سید شایان رضا (Maulana Shayan Raza Chholsi) کا ہے؛ آپ مولانا جرارحسین کے فرزند نامور تھے۔ آپ صاحب منبر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب محراب بھی تھے۔ آپ کی تعلیم نوگانواں سادات کے مدرسہ باب العلم میں ہوئی اور اس کے بعد تقریباً پانچ سال تک قم المقدسہ کی سرزمین پر کسب فیض کرتے رہے اور واپسی کے بعد ہندوستان کے متعدد علاقوں میں تبلیغ و تشہیر دین میں مشغول رہے۔ زندگی نے وفا نہیں کی ورنہ اور بھی خدمات انجام دیتے۔ عالم جوانی (تقریباً 40 سال کی عمر)میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے معبود حقیقی کی بارگاہ میں چلے گئے۔[17]
مولانا سید عسکری محمد رضوی چھولسی
ترمیممولانا عسکری محمد (Maulana Askari Mohammad Chholsi) کا تعلق چھولس کے مشہور خاندان "رسالہ" سے تھا؛ آپ کے والد گرامی ٹھیکیدار کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے؛ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اس کے بعد مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں زیر تعلیم رہے پھر ایران کا قصد کیا۔ مشہور یہ ہے کہ آپ پانچ سال تک قم المقدسہ کی سرزمین پر زیور علم و عمل سے آراستہ ہوتے رہے۔ ایران سے واپسی پر علی پور کرناٹک میں مشغول تبلیغ وتدریس رہے اور جوانی کے عالم میں کینسر کی مہلک بیماری کے باعث دار فانی کو الوداع کہکر داربقا کی جانب کوچ کرگئے۔ مولانا کی وفات 2003ء کے آخر یا 2004ء کی ابتدا میں ہوئی۔[18]
مولانا سید علی رضا رضوی چھولسی
ترمیمچھولس کی ایک مشہور شخصیت مولانا سید علی رضا رضوی (Maulana Ali Raza Rizvi Chholsi) ہیں؛ آپ اس زمانہ میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ متعدد یوٹیوب چینلز اور ویبسائٹز پر آپ کی معلومات اور خدمات دستیاب ہیں۔ حالانکہ آپ کا اصل وطن چھولس سادات ہے لیکن 1947 کی جنگ کے بعد آپ کے آبا و اجداد نے پاکستان کی سرزمین پر رہنا پسند کیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی اور پھر فوقانیہ تعلیمات کے حصول کی خاطر عازم ایران ہوئے۔ کافی عرصہ تک سرزمین قم کی برکات سے مستفیض ہوتے رہے اور وہاں سے ایم اے یا بقولے پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان پہنچے اور حال حاضر میں لندن میں آباد ہیں 2017 عیسوی میں سرزمین چھولس پر بھی تشریف لائے اور پہلی بار اپنی بستی میں امامبارگاہ دیوانخانہ میں خطاب فرمایا۔ آپ حال حاضر کے مشہور و معروف اسکالر، عالم اور خطیب ہیں۔ آپ کے چند اساتذہ کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مولانا سید امیر حسین نقوی، شیخ احمدی، شیخ بیت غانم، شیخ معین دقیق، شیخ باقریان، سید احمد اشکوری، شیخ عبد اللہ باوی، سید مرتضی العاملی، سید اعتمادی، شیخ جعفر الھادی، شیخ حمید حائری، آیة الله نور محمدی، شیخ سعید واعظی، شیخ محسن اراکی۔ 1999 میں احکام، عقائد اور علوم قرآن کا درس دیا سنہ 2000ء سے لندن کے حوزہ میں مصروف تدریس ہوئے اور آپ کی خطابت کا آغاز سنہ 1998ء سے ہوا جو حال حاضر میں خطابت کے آسمان پر نظر آتا ہے۔[19]
مولانا سید شمشاد احمد رضوی
ترمیمیوں تو موصوف کا تعلق سرزمین گوپالپور ضلع سیوان(بہار) سے ہے لیکن بزرگوں سے سنا گیا ہے کہ جب مولانا شمشاد (Maulana Shamshad Ahmad Rizvi ) چھولس آئے تھے اس وقت آپ کی داڑھی بھی مکمل طریقہ سے نہیں آپائی تھی اور آپ چھولس سے ہی عازم ایران ہوئے تھے اور پانچ سال تک سرزمین قم کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد دوبارہ سرزمین چھولس پر واپس آئے اور تبلیغ وتدریس میں مشغول ہو گئے۔[20]۔( جس دوران آپ ایران گئے ہوئے تھے اس عرصہ میں سیتھل ضلع بریلی کے باشندہ مولانا شیخ محمد حیدر نے امامت جمعہ و جماعت کے فرائض بخوبی انجام دیے)۔ مولانا شمشاد احمد سرزمین چھولس کے لیے زینت کا سبب قرار پائے، چونکہ آپ ایک مشہور خطیب ہیں لہٰذا دور دور تک چھولس کا نام مشہور ہوا یہاں تک کہ بعض پوسٹرز میں مولانا موصوف کو چھولسی بھی لکھا گیا ہے۔ بعض بزرگوں کے مطابق آپ نے 35/سال چھولس کی خدمت کی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ 30/سال رہے اور بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ آپ کی مدت تبلیغ وہی رہی جو رسول اسلامﷺ کی مدت تبلیغ تھی یعنی آپ مستقل23/ سال تک چھولس میں دین کی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ باصلاحیت عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ذاکر و خطیب اور کم نظیر شاعر ہیں۔ مگر کیونکہ آپ نے تقریباً آدھے سے زیادہ چھولس کو شاعر بنادیا ہے۔ آپ کے شاگردوں کو دیکھا جائے تو مولانا عسکری صاحب مرحوم، مولانا تقی صاحب، مولانا سید ذاکر رضا چھولسی صاحب، مولانا شمع محمد صاحب، مولانا شبیہ الحسن زیدی صاحب، مولانا تاجدار حسین زیدی صاحب، مولانا قمر زیدی صاحب، مولانا قمر حسنین رضوی صاحب، مولانا سید غافر رضوی چھولسی صاحب، مولانا گلزار حیدر رضوی صاحب، مولانا محمد مقتدیٰ صاحب، مولانا کمال عباس صاحب، مولانا محمدعسکری صاحب اور مولانا اسد صاحب جیسے علمائے اعلام کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔ آپ ہی نے مدرسہ کی ابتدا کی اور آپ نے جس وقت سے چھولس ترک کیا اس وقت سے آج تک مدرسہ بند ہے یہ بات الگ ہے کہ اس عمارت میں مکتب اور اسکول چل رہا ہے۔[18]۔
مولانا سید غضنفر علی رضوی چھولسی
ترمیمچھولس کے خاندان رسالہ سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولانا سید غضنفر رضوی چھولسی (Maulana Ghazanfar Rizvi Chholsi) فرزند محمد علی (چھبّن) ہیں؛آپ کا تعلق چھولس کے ایک مشہور خاندان "خاندان رسالہ" سے ہے۔ آپ کے متعلق زیادہ معلومات فراھم نہ ہوسکیں لہٰذا معلوم ہونے پر اپڈیٹ کیا جائے گا.[17]
مولانا سید ذاکر رضا رضوی چھولسی
ترمیممولانا کی ولادت 1 /دسمبر 1970 ء میں چھولس سادات کے ایک متدین گھرانہ میں ہوئی۔ مولانا ابتدائے زندگی سے آج تک تبلیغ و تشہیر اور درس انسانیت میں مشغول ہیں۔ آپ مولانا سید غافر رضوی چھولسی کے برادر حقیقی ہیں اور آپ کے والد گرامی قدر کا اسم شریف جناب سید احسن رضا رضوی صاحب ہے۔ مولانا سید ذاکر رضا چھولسی (Maulana Zakir Raza Chholsi) نے تشہیر انسانیت کی خاطر پیام اسلام فاؤنڈیشن نامی ادارہ قائم کیا ہے اور اس کے علاوہ مسجد و منبر بھی مولانا کے لیے تشہیر انسانیت کا وسیلہ قرار پائے ہوئے ہیں۔ مولانا کا تذکرہ چھولس سادات کی لکھی ہوئی منظوم تاریخ میں بھی ملتا ہے، یہ کتاب اردو میں لکھی گئی ہے اور اس کے مؤلف جناب جمیل اختر رضوی صاحب چھولسی مرحوم ہیں۔مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن چھولس سادات میں ہی حاصل کی اور کلاس پنجم تک وہیں تحصیل علم میں مشغول رہے آپ نے سنہ1983ء میں کلاس پنجم کی سند ممتاز درجہ کے ساتھ حاصل کی ۔ پھر جولائی سنہ1983ء میں صنف روحانیت میں اضافہ کی خاطر ناصریہ عربی کالج جونپور کے لیے عازم سفر ہوئے؛ آپ نے اس مدرسہ میں دو سال تعلیم حاصل کی اور سنہ1985ء میں جامعہ باب العلم نوگانواں سادات کا عزم کیا۔ سنہ1985ء سے سنہ1994ء تک باب العلم نوگانواں سادات میں زیرتعلیم رہے۔ باب العلم میں رہتے ہوئے ہی سنہ1990ء میں آپ نے اردو ایم اے کا فارم بھرا اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے جامعہ اردو علی گڑھ سے اس کی تمام ڈگریاں حاصل کیں یعنی ادیب سے لے کر معلم تک کی تمام اسناد آپ کی صلاحیت کا منھ بولتا شاہکار ہیں؛ اسی طرح الہ آباد عربی فارسی بورڈ سے آپ نے منشی سے لے کر فاضل تک کی اسناد حاصل کیں۔ آپ نے 1987ء سے 1996ء تک کے عرصہ میں تمام اسناد حاصل کیں۔ سنہ 1995ء سے سنہ 1998ء تک قصبہ بڈولی سادات ضلع مظفر نگر میں خدمت خلق انجام دی۔ سنہ 1999ء سے سنہ 2000ء تک خورجہ میں سرگرم عمل رہے۔ سنہ 2000ء سے سنہ 2017ء تک شمس آباد ضلع فرخ آباد صوبہ یوپی میں امام جمعہ و الجماعت اور ایک برجستہ خطیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہترین استاد بھی ہیں آپ نے شمس آباد میں تدریس کے فرائض بھی انجام دئے۔ اسی عرصہ میں آپ نے سرکاری ٹیچنگ میں درخواست دی اور اختبار و مصاحبہ نیز انٹرویو وغیرہ کے بعد آپ کو سرکاری ٹیچنگ میں قبول کر لیا گیا اور آپ نے سنہ 2017ء میں اردو سرکاری ٹیچنگ کو جوائن کیا۔ آپ کی سروس فتح گڑھ ضلع فرخ آباد میں تعیین ہوئی۔ آپ فتح گڑھ میں سرکاری ٹیچر کے علاوہ ایک امام جماعت اور برجستہ خطیب کے عنوان سے بھی پہچانے جاتے ہیں یعنی سرکاری ٹیچنگ کے باوجود خود فتح گڑھ کی داخلی امامت موصوف نے اپنے ہی ذمہ لے رکھی ہے۔مولانا موصوف نے اپنے والد گرامی جناب سید احسن رضا رضوی صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چھولس سادات کا شجرہ آمادہ کیا یعنی جناب آدم سے لے کر اپنے بچوں تک کے افراد کا شجرہ آمادہ کیا ہے۔ اس شجرہ کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلیں اپنے شجرہ اور اپنی گذشتہ پشتوں سے واقف رہیں۔ شجرہ کے آخر میں موصوف نے یہ بھی گزارش کی ہے کہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں اس سلسلہ کو آگے بڑھاتی رہیں تاکہ اپنے آبا و اجداد کی معرفت حاصل ہوتی رہے۔ اس شجرہ پر مولانا سید غافر رضوی چھولسی (اسلامک ریسرچ اسکالر دہلی) نے نظر ثانی کی ہے اور یہ شجرہ پیام اسلام فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے ۔ مولانا کا شمار اپنے زمانے کے بہترین شاعر وں میں ہوتا ہے۔ آپ نے بے شمار نوحہ جات، مراثی قصائد، فضائل و مناقب اور بہت سی نظمیں، تحریر کی ہیں۔ آپ نے ویسے تو بہت سے نوجات لکھے مگر نوحہ "بابا علی علی" بہت مقبول ہوا۔ جسے انجمن عباسیہ (عباس نگر چھولس سادات) کے نوحہ خواں "مرحوم عروج چھولسی" نے اپنی بہترین آواز میں پڑھا تھا۔ آج کل یہ نوحہ مرحوم کی آواز میں یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے۔[21][22]
مولانا سید قمر حسنین رضوی چھولسی
ترمیمموصوف کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، آپ مولانا سید شمشاد احمد کے داماد ہیں اور دفتر رہبری ایران کلچر ہاؤس میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں؛ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی اور اپنی روحانیت کو آگے بڑھانے کی خاطر سنہ 1995ء میں عازم ایران ہوئے؛ جب آپ ایران سے سنہ 2000 عیسوی میں واپس چھولس سادات آئے تو آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے کچھ روز بعد آپ دوبارہ ایران چلے گئے اور عرصہ دراز قم المقدسہ کی سرزمین پر گزارا؛ وہاں سے ماسٹرز کی ڈگری لیکرسنہ 2007 میں اپنے وطن واپس آئے۔ مولانا قمر حسنین (Maulana Qamar Hasnain Chholsi) میدان خطابت میں بھی ایک نامور خطیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور سرزمین چھولس کے لیے مایہ ناز شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ نے تشہیر دین کی خاطر اوکھلا وہار نئی دہلی میں ایک مدرسہ بھی کھولا ہے جس کا نام جامعۃ الفاطمہ رکھا ہے اور اس میں اپنی قوم کی لڑکیوں کو دینی تعلیمات فراہم کی گئی ہیں۔[23]
مولانا سید غافر رضوی چھولسی
ترمیمچھولس سادات کے افق پر پندرہویں صدی ہجری کا ایک چمکتا ستارہ مولانا سید غافر رضوی چھولسی (Maulana Ghafir Rizvi Chholsi) ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب سید احسن رضا رضوی صاحب ہیں اور آپ کے برادر حقیقی مولانا سید ذاکر رضا چھولسی ہیں۔آپ کا خطاب: "ضیاء الافاضل" اور آپ کا تخلص: "فلکؔ چھولسی" ہے۔ مولانا کی تاریخ ولادت 2/جنوری سنہ 1983ء ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی؛ آپ نے سنہ 1996ء سے سنہ 1998 ء تک جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب، ماہر اور کامل کی اسناد حاصل کیں؛ یوپی کے عربی فارسی بورڈ سے مولوی، منشی اور عالم کی اسناد امتیاز کے ساتھ حاصل کیں۔ سنہ 2000ء میں عازم ایران ہوئے اور مشغول تحصیل ہوئے۔ سنہ 2005ء میں ایران سے واپس آئے تھے تو اسی دوران میں فاضل فقہ کی سند حاصل کی اور کچھ عرصہ بعد پھر ایران واپس چلے گئے۔ آپ سنہ2007ء میں دوبارہ چھولس سادات واپس آئے تو اسی دوران میں آپ کے والدین نے آپ کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا۔ شادی کے بعد آپ پھر ایران تشریف لے گئے۔ یہ موصوف کے بچوں کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کے تینوں بچے یعنی ایک بیٹا اور دو بیٹیاں سرزمین قم المقدسہ پر پیدا ہوئے۔ موصوف تقریباً اٹھارہ سال تک سرزمین قم المقدسہ سے کسب فیض و برکات کرتے رہے۔ آپ سنہ 2000ء کی ابتدا میں ایران گئے تھے اور سنہ 2017ء کے آخر میں ایران کو ترک کرکے اپنے وطن واپس آئے۔ آپ نے سنہ 2015ء میں ایران میں رہتے ہوئے جامعہ اردو علی گڑھ سے معلم کی سند حاصل کی اور حوزہ کی تعلیم کے اعتبار سے کارشناسی اور ارشد کی اسناد حاصل کیں۔ قابل ذکر ہے کہ مولانا نے عربی ٹرم میں امتیازی درجہ حاصل کیا اور پوری کلاس میں اوّل نمبر پر آئے۔ مولانا ایک عالم باعمل، مفکر، مدبر، محقق،خطیب، شاعر اور اسلامی اسکالر ہیں۔ آپ ایک بہترین مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ مترجمین میں شمار کیے جاتے ہیں؛ مولانا کے مضامین اور کتابیں ویب سائٹس پر دستیاب ہیں نیز مولانا کی شاعری آواز اور تحریر کی صورت میں بھی سرچ کیے جا سکتے ہیں۔ آپ ساغر علم فاؤنڈیشن کے مدیر، پیام اسلام فاؤنڈیشن چھولس سادات کے نائب مدیر، شعور ولایت فاؤنڈیشن لکھنؤ کے نائب مدیر، ابو طالب انسٹی ٹیوٹ لاہور کے اہم رکن ہیئت تحریریہ، ادارہ ریاض القرآن لکھنؤکے اہم اور فعال رکن ہیں۔ آپ کی کارکردگی چنداں مخفی نہیں ہے۔ آپ صاحب محراب و منبر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی نشر تعلیمات اسلامی میں ہمہ تن مشغول ہیں۔[24][25]
مولانا سید گلزار حیدر رضوی چھولسی
ترمیمسرزمین چھولس سادات کے ایک عالم دین مولانا سید گلزار حیدر رضوی (Maulana Gulzar Haider Chholsi) ہیں؛ آپ کے والد مرحوم جناب سید ولی حیدر رضوی ہیں۔ مولانا کی ولادت 7/جولائی 1979ء میں ہوئی۔ ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن سے علم دین کا شوق رہا ؛ ابتدائی تعلیم چھولس سادات کے مکتب امامیہ میں حاصل کی اور وہاں درجہ پنجم امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور اسی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم ماسٹر حسن امام صاحب سے حاصل کرتے رہے نتیجتا ًچھولس سادات کے جونیر ہائی اسکول میں چھٹے درجہ میں داخلہ ہو گیا؛ تعلیمی صلاحیت کو بڑھانے کی غرض سے کلوندا کے انٹر کالج میں داخلہ لیا اور 1995 ءمیں ہائی اسکول پاس کیا اور 1997ء میں انٹرمیڈیٹ اچھے نمبروں سے پاس کیا، اسی دوران میں دینی تعلیم جامعہ رضویہ چھولس سادات میں حجت الا سلام مولانا سید شمشاد احمد سے حاصل کی 2000 ءکی ابتدا میں ایران کا سفر کیا اور مختلف اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں قابل ذکر مولانا سلطان حسین صاحب مولانا علی عباد صاحب، مولانا محمد علی مقدادی (ایران) مولانا موسوی خوئی (ایران) ہیں۔ صحت نے ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے پانچ سال کے بعد وطن کا رخ کیا اور ہندوستان میں آکر لکھنؤ بورڈ سے مولوی منشی عالم کامل فاضل کی اسناد حاصل کیں اور امتیازی نمبر حاصل کیے بریلی یونیور سٹی سے BA اور MA کی ڈگری حاصل کی اور اس میں بھی امتیازی نمبر حاصل کیے سنہ 2008 ءمیں مدرسہ باب العلم نوگانواں میں بحیثیت استاد تقرر ہوا اور فی الحال وہیں مصروف ہیں۔مولنا کے بقول: ایک کتاب بنام " حقیقت بشریت " زیر تالیف ہے۔ مولانا صاحب منبر و محراب بھی ہیں۔ آپ نے متعدد عشرہ محرم کو خطاب کیا ہے جن میں سے گجرات اور بہار کے عشرے قابل ذکر ہیں۔ مولانا شاعری کے اعتبار سے بھی ایک عمدہ شاعر ہیں اور ان کے آثار میں نوحے، مناقب اور غزلیات کا وجود پایا جاتا ہے۔[26][27]
مولانا سید محمد مقتدیٰ رضوی چھولسی
ترمیمچھولس کی سرزمین کے ایک عالم دین مولانا محمد مقتدیٰ صاحب چھولسی (Maulana Muqtada Chholsi) ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب ضیاء الحسن رضوی صاحب مرحوم تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی ؛ آپ نے عربی فارسی بورڈ سے مولوی منشی اور عالم کی اسناد لیں اور سنہ2000ء کی ابتدا میں عازم ایران ہوئے۔ قم المقدسہ کی سرزمین مقدس پر تقریباً پانچ سال کسب فیض کرتے رہے اور اس کے بعد اپنے وطن چھولس سادات واپس آئے اور ترویج و اشاعت دین میں مشغول ہو گئے۔ فی الحال آپ جریلی ضلع بریلی کے امام جمعہ و الجماعت ہیں۔
مولانا سید محمد عسکری رضوی (ذیشان) چھولسی
ترمیممولانا سید محمد عسکری رضوی (Maualana Mohd Askari) ولد سید اکرام رضا رضوی (شبّو)، چھولس سادات کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس میں ہوئی، فوقانیہ کی غرض سے مولانا قاضی عسکری صاحب کی زیر سرپرستی مدرسہ اہلبیت دہلی میں چند سال تعلیم حاصل کی؛ کچھ وجوہات کی بناپر چھولس واپس آئے اور مولانا سید شمشاد احمد رضوی گوپالپوری صاحب قبلہ (پرنسپل جامعہ رضویہ چھولس سادات) کی شاگردی اختیار کی اور کچھ مدت بعد عازم ایران ہوئے نیز حال حاضر میں قم المقدسہ کی سرزمین پر مصروف تعلیم ہیں۔
مولانا سید اسد رضا رضوی چھولسی
ترمیممولانا سید اسد رضا رضوی (Maualana Asad Raza) ولد سید اکرام رضا رضوی سنہ 1989 میں چھولس کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس میں ہوئی فوقانیہ کی غرض سے مولانا قاضی عسکری صاحب کی زیر سرپرستی مدرسہ اہلبیت دہلی میں چند سال تعلیم حاصل کی؛ کچھ وجوہات کی بناپر چھولس واپس آئے اور مولانا سید شمشاد احمد رضوی گوپالپوری صاحب قبلہ (پرنسپل جامعہ رضویہ چھولس سادات) کی شاگردی اختیار کی اور کچھ مدت بعد عازم ایران ہوئے نیز حال حاضر میں مشہد مقدس کی سرزمین پر مصروف علم وحکمت ہیں۔
مولانا سید جعفر علی رضوی چھولسی
ترمیمآپ کے والد محترم جناب حسن امام رضوی صاحب ہیں جنھوں نے ایک عرصہ دراز تک چھولس سادات کے مکتب امامیہ میں خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا کی شادی بھی چھولس سادات میں ہوئی ہے۔مولانا کی زوجہ محترمہ، مولانا غضنفر رضوی چھولسی صاحب کی حقیقی بھتیجی ہیں۔ مولنا جعفر رضوی (Maulana Jafar Rizvi Chholsi) کا دولت کدہ بھی چھولس ہی میں ہے ۔ مولانا اپنی فیملی کے ساتھ دہلی میں مقیم ہیں۔ آپ کا شمار دور حاضر کے مشہور خطباء میں ہوتا ہے اور آپ کا نام دور دور تک مشہور ہو چکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ چھولس کا نام بھی روز بروز ترقی کررہا ہے - مولانا موصوف کی خطاب کی چمک آج پورے ہندوستان میں زیر نظر ہے،بنگال سے لے کر گجرات، پنجاب آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش سے کشمیر اور اگر شہرو ںکی بات کریںتو لکھنؤ سے علی پور، بھاو نگر سے کلکتہ، وشاکھاپٹنم سے بنگلور، بنارس سے اندور، پٹنہ سے سورت ،سلطان پور سے احمد آباداور ہندوستان کے چاروں کونو میں مولانا موصوف کی خطابت کو زیریں نظر عروج کے مقام پر دیکھتی ہیں۔اس وقت دور حاضر کے بہترین خطیبوں کی فہرست میں مولانا موصوف کا نام سر فہرست میںشومار ہوتا ہے۔ممبررسولؐ سے قبلہ کی شان میں سکّے رائج الوقت کے القاب سے بھی مولانا موصوف کو نوازا جا چکا ہے۔مولانا موصوف کی خدمت وشاکھاپٹنم سے لے کر نوگانواں تک رہی ہیں۔چھولس سادات میں بزم رسوؐل کمیٹی کے صدر کے عہدے پرقبلہ فائز ہیں جو کمیٹی بین الاقوامی سطح پر جشن رسولؐ اعظم کا انعقاد کر رہی ہے جس میں ہندوستان کے عظیم خطیب، شعرائے کرام اور مفسر شریک ہوتے ہیں قبلہ نے اس کمیٹی میں قومی خدمت کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈ بھی دینے کے کام کی ابتدا کی ہے جس کو رحمۃ للعالمین ایوارڈ کا نام دیا ہے۔ ایک دوسرا اوارڈ مدینہ ۃ العلم ایوارڈ بھی مولانا موصوف نے ایسی خوشی میں پیش کیا جس سے قوم میں علمی اور اخلاقی ہستیوں کی حوصلہ افزائی کا کام کیا جا سکے۔مولانا موصوف کو "فخرِ چھولس" کے لقب سے بھی بستی میںلو گ پہچانتے ہی
مولانا سید کمال عباس چھولسی
ترمیمموصوف کا نام کمال عباس چھولسی (Maulana Kamal Abbas Chholsi) ولد ظفر عباس چھولسی ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس میں ہی ہوئی، فوقانیہ کی غرض سے مولانا شمشاد احمد صاحب کی زیر سرپرستی مدرسہ جامعہ رضویہ چھولس میں چند سال تعلیم حاصل کی؛اور کچھ مدت بعد عازم ایران ہوئے وہاں چند سال رہ کر علوم آل محمد سے فیضیاب ہوئے اور اپنے وطن واپس آکر تبلیغ و ترویج دین میں مشغول ہو گئے۔ مولانا کی خطابت عوام و خواص میں مقبول ہے، جس جگہ ایک دفعہ پہنچ جائیں وہاں دوبارہ بلکہ کئی بار دعوت دی جاتی ہے۔ مولانا کی شاعری بھی اپنی مثال آپ ہے، آپ کی شاعری میں غزلیاتی رنگ کوٹ کوٹ کر بھرا رہتا ہے۔ مناقب ائمہ اطہار علیہم السلام کے علاوہ آپ غزل کے عنوان سے بھی کافی مشہور ہیں اور حلقہ ادب میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔[28]
مولانا سید مظاہر علی رضوی چھولسی
ترمیممولانا کا نام سید مظاہر علی رضوی (Maualana Mazahir Ali) ولد امین علی (مینو) رضوی ہے، آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، کچھ عرصہ پروفیسر کے اعتبار سے علی گڑھ یونیورسٹی میں رہے اور حال حاضر میں شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ میں پروفیسر ہیں۔ میدان خطابت میں بھی کافی حد تک دست رس ہے اور منبر پر فضائل و مصائب اہلبیت علیہم السلام اچھے طریقہ سے بیان کرتے ہیں۔ موصوف کا تعلق علمائے چھولس سادات سے ہے۔
مولانا سید تقی محمد رضوی چھولسی
ترمیممولانا تقی محمد (Maulana Mohammad Taqi) ولد سید شمع محمد رضوی صاحب کا تعلق چھولس کے مشہور خاندان "خاندان رسالہ" سے ہے۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں ہوئی، اس کے بعد مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں کسب فیض کیا، پھر عازم ایران ہوئے؛ چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آئے اور دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہوئے۔ مولانا موصوف حال حاضر میں دوارکا (دہلی) میں مشغول ہیں۔
مولانا سید عرفان رضا رضوی چھولسی
ترمیممولانا سید عرفان رضا رضوی (Maualana Irfan Raza) ولد حکیم سید نظر علی رضوی چھولس سادات کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق چھولس کے خاندان "رسالہ" سے ہے۔ آپ نے مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں تعلیم حاصل کی، چند سال ایران میں زیر تعلیم رہے؛ میدان خطابت کے اچھے شہسوار ہیں۔ حال حاضر میں اپنی آبائی حکمت میں مشغول ہیں ۔
مولانا سید عباس رضا رضوی چھولسی
ترمیممولانا ڈاکٹر سید عباس رضا رضوی (Maualana Abbas Raza) ولد سید محمد شفیع رضوی چھولس سادات کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ نے مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں تعلیم حاصل کی اور حال حاضر میں اپنے والد مرحوم کے مشغلہ کو آگے بڑھا رہے ہیں یعنی چھولس سادات میں ہی حکمت کی ترویج میں مشغول ہیں۔ آپ کا تعلق چھولس کے معروف خاندان "رسالہ" سے ہے۔
مولانا سید محمد تفضل رضوی چھولسی
ترمیمچھولس کی سرزمین کے ایک عالم دین مولانا محمد تفضل رضوی صاحب چھولسی (Maulana Mohammad Tafazzul) ہیں۔ آپ کے والد محترم جناب حکیم اکرم رضوی صاحب ہیں۔ آپ کی ولادت 1982ء میں چھولس سادات کی سرزمین پر ہوئی۔ آپ نے حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ میں تعلیم حاصل کی، ان کے اساتذہ کے کچھ اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مولانا غلام مرتضیٰ صاحب، مولانا حکیم محمد کاظم مرحوم، مولانا بیدار حسین نجفی وغیرہ۔ قم المقدسہ کے اساتذہ میں آیۃ اللہ لنگرودی اور آقائے پایانی قابل ذکر ہیں۔انھوں نے جو اسناد حاصل کی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: معلم اردو 2016ء میں، فاضل دینیات 2017ء میں اور بی اے 2018ء میں اسناد حاصل کیں۔ آپ چند سال مدرسہ غفرانمآب لکھنؤ میں مصروف تدریس تھے، حال حاضر میں حیدرآباد میں تبلیغ میں مشغول ہیں۔ آپ ماہنامہ شعاع عمل کے نائب مدیر ہیں۔[29]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://ur.wikipedia.org/wiki/چھولس_سادات
- ↑ Gulsitan-e-Rizvia; Urdu, Page.14
- ↑ Gulsitan-e-Rizvia, Shajra Chholas Sadat Complete
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
- ↑ varesoon.ir/pictures-of-shiite-clerics-sp.۔۔shamim.۔۔/22765.html
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
- ↑ تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، سید عارف حسین نقوی، ص109، 110
- ↑ مکتوب مولانا سید رضی عباس رضوی بنام سید محمد ثقلین کاظمی
- ↑ نجوم الھدایہ، ج3، ص39 سے 42 تک
- ↑ Tazkera e Olama e Pakistan; Arif, Page.239
- ↑ Mahnama Sahil, جولائی 1960 Karachi
- ↑ Diary S.Mo. Sibtain; Urdu
- ↑ Tazkera Olama-e-Punjab; Vol,2. Page,571
- ↑ Tazkera Sadat-e- Jarcha o Chholas; Urdu, Prof: Nabi Hadi Chholsi Page,266
- ↑ Tazkera Olama e Pakistan: S.Arif Husain Naqvi
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
- ^ ا ب پ
- ^ ا ب "PAYAM-E-ISLAM Foundation پیام اسلام فاؤنڈیشن"۔ payameislam.blogspot.com
- ↑ "Syed Ali Raza Rizvi"۔ 19 نومبر 2018 – بذریعہ Wikipedia
- ↑ interview With Molana Shamshad
- ↑ سید ذاکر رضا چھولسی
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/search/label/Biography%20of%20Shia%20scholars
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/search/label/Biography%20of%20Shia%20scholars
- ↑ سید غافر رضوی چھولسی
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html
- ↑ inter view with Maulana Gulzar Rizvi
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 2020-06-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-29
- ↑ https://payameislam.blogspot.com/p/olama-e-chholas-sadat.html