ابو الحسن علی بن زیاد طرابلسی تیونسی، مالکی مذہب کے فقیہ اور مفتی تھے۔ وفات سنہ 183 ہجری میں ہوئی۔

علی بن زیاد
(عربی میں: علي بن زياد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 8ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرابلس   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 799ء (48–49 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تونس شہر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت و جماعت
فقہی مسلک مالکی

شیوخ

ترمیم

مالک بن انس (ان سے موطا روایت کی ہے)، اسی طرح سفیان ثوری، لیث بن سعد اور دیگر محدثین و فقہا سے استفادہ کیا۔

تلامذہ

ترمیم

بہلول بن راشد، سحنون بن سعید، اسد بن فرات اور دوسرے کبار علما نے آپ سے کسب فیض کیا۔

علما کی آرا

ترمیم

ابو سعید بن یونس فرماتے ہیں: علی بن زیاد پہلے شخص ہیں جنھوں نے موطا امام مالک اور جامع سفیان ثوری کو مغرب میں سب سے پہلے داخل کیا اور وہاں امام مالک کے اقوال کی تشریح کی، اس سے پہلے اہل مغرب نا واقف تھے، طلب علم کے خاطر حجاز اور عراق کا بھی سفر کیا اور سحنون فقیہ کے استاذ ہیں۔

سحنون فرماتے ہیں: بہلول بن راشد، علی بن زیاد کی خدمت میں آتے تھے، ان سے سماعت کرتے، وہ علم و معرفت کے ان پر موتی لٹاتے تھے، اہل تیونس سے خط کتابت کرتے تھے اور وہ دینی معاملات میں ان سے فتویٰ طلب کرتے تھے، اسی طرح قیروان کے اہل علم میں اگر کسی مسئلہ کے تعلق سے اختلاف ہو جاتا تو وہ علی بن زیاد کی خدمت میں سوال پیش کرتے تاکہ وہ ان کی درست رہنمائی کریں۔

شیخ شاذلی نفیر فرماتے ہیں: علی بن زیاد تیونس کے مدرسہ کے حقیقی بانی تھے جو آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہیں، جو دور دراز تک پھیلے ہوئے ہیں، گرچہ اس سے پہلے ابن ابی عمران مدرسہ قائم کر چکے تھے۔ لیکن حقیقی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو علی بن زیاد کے مدرسہ نے اس علاقے میں مالکی مسلک پر خوب توجہ دی اور خالد بن عمران نے صرف مدرسہ پر توجہ دی، چنانچہ وہاں سب سے زیادہ دو لوگوں نے موثر کام کیا ہے ایک اندلسی اور دوسرے تیونسی۔ اندلسی یحییٰ بن یحییٰ لیثی ہیں، گرچہ تیونسی کے بعد آئے لیکن جو کچھ کام انھوں نے کیا ان کا مقام مرتبہ ابن زیاد ہی طرح ہے۔

مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیونسی مدرسہ اور اس کے علاوہ افریقا کے علاقے قیروان وغیرہ میں مدرسہ کی بنیاد کا فضل انھیں کو جاتا ہے، انھوں نے ہی اس شاندار عمارت کی بنیاد رکھی تھی جس کے آثار و باقیات کسی نہ کسی شکل میں اب تک موجود ہیں، یہی وہ مدرسہ ہے جس کو علی بن زیاد نے اپنی بیٹی کے لیے قائم کیا تھا، یہی مالک بن انس کے مسلک کا مدرسہ اور مرکز ہے، جس نے مغرب میں مالکی مسلک کو پھیلایا ہے، اہل مغرب کو مالکی مسلک سے متعارف کرایا اور اس کی تشریح و تفسیر کی، یہاں تک کہ مالکی مسلک مغرب میں جڑ پکڑ گیا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ترتيب المدارك: 3/80-84 .تراجم أغلبية:21-22 .الديباج المذهب: 2/92-93 .شجرة النور الزكية: 60 الانتقاء في فضائل الأئمة الثلاثة الفقهاء:109.طبقات الفقهاء لأبي إسحاق الشيرازي: 162.أزهار البستان في طبقات الأعيان: 12. طبقات علما إفرقية وتونس لأبي العرب التميمي: 220-223 . رياض النفوس: 1/234. الإكمال لابن ماكولا : 1/524 .الأنساب :1/494. تاريخ الإسلام: 12/304.الوافي بالوفيات: 21/119. الوفيات لابن قنفد : 145. إتحاف السالك: 270. التعريف برجال جامع الأمهات: 204-205. الحلل السندسية في الأخبار التونسية: 1/692-695. إتحاف أهل الزمان : 1/125-126. ورقات عن الحضارة العربية بإفرقية التونسية: 3/41-43 أعلام الفكر الإسلامي في تاريخ المغرب العربي: 21-29. معجم المؤلفين: 7/96. مقدمة تحقيق موطأ علي بن زياد: 29 -50. تاريخ التراث العربي: 1/3/143. اصطلاح المذهب عند المالكية: 97-98.