غالب لائبریری
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
غالب لائبریری، کراچی میں واقع ایک بڑی لائبریری ہے جسے ادارۂ یادگار غالب نے 27 دسمبر 1970ء کو مرزا اسد اللہ خان غالب کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں قائم کیا۔
آج جتنی تقریبات آرٹس کونسل میں ہوتی ہیں اس سے کہیں زیادہ تقریبات غالب لائبریری میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، مجنوں گورکھپوری، ابن انشا، ابراہیم جلیس، احمد ندیم قاسمی، ابوالفضل صدیقی، محسن بھوپالی اور صادقین وغیرہ یہاں ادبی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے، غالب لائیریری میں 4000 کتابوں کے علاوہ تقسیم ہند سے قبل شائع ہونے والے رسائل وجرائد کا بھی نہایت عمدہ اور بڑا ذخیرہ موجود ہے اس کے علاوہ خود غالب کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط اورفارسی شاعری بھی موجود ہے جو شاید ہی کہیں پائی جاتی ہو۔ غالب لائبریری کلیتاً ایک ادبی کتب خانہ ہے جس میں اُردو زبان کی ابتداءسے آج تک کا تمام ادبِ نثر اور نظم) جمع کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کے پونے چار سو رسائل و جرائد کے 8000 سے ذائد کے شمارے موجود ہیں۔ کچھ وقت پہلے یہ ہی غالب لائبریری جو ایک منزلہ عمارت پر مشتمل ہے پہلے یہ لائبریری ایک سرکاری بینک کے اوپر قائم تھی بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر بینک کا اختتام ہو گیا جس کے بعد نچلے حصّے میں لائبریری کو متقل کر دیاہے اور اُوپری حصّے میں ِانھیں رسائل و جرائد کو (جو تقسیم ہند سے قبل شائع ہوئے تھے) اور قدیم کتابوں کو محفوظ کر دیا گے۔
اگر اس کتب خانے کے عملے کی بات کی جائے تو کتب خانے کے عملے میں ایک کتب خانے دار ، دو کتب برار ، ایک کمپیوٹرکے انچارج شامل ہیں۔کتب خانے کی موجود صدر فطمہ ثریابجیا جبکہ سیکٹری تنظیم فردوس اور رو¿ف پاریکھ ہیں۔ ایک سیکورٹی گارڈکتب ثر نے کے باہر مستقل رہتا ہے۔بیک وقت ساٹھ لوگو ں کے بیٹھنے کا انتظام ہے۔ کتب خانے کے اوقات کار شام چاربجے سے رات آٹھ بجے تک ہیں، صرف اتوار کے دن اور سرکاری چھٹیوں میں بند رہتا ہے ۔ کتب خانے میں کتابوں کے الگ الگ سیکشن بنے ہوئے ہیں جن میں غالبیات ، اقبالییات ، فیض،تحقیق و تنقید ، تاریخ و سوانح، فلسفہ،خودنوشت ،ثقافت اور مجموعہ نظم و نثر ہیں۔۔ ممتاز ادیبوں، شاعروں و غیر ہ پر اور ادب کی اہم اصناف پر جو مکالمے اور مضامین وغیرہ مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ان کے 6 ہزار سے زائد کارڈ بنوالئے گئے ہیں۔صرف غالب پر ایسے 2 ہزار سے زائد کارڈ ہیں جنھیں مالی حالات سازگار ہوتے ہی اشاریے کی صورت میں شائع کر دیا جائے گا۔یہ اشاریہ بالکل ایسی نوعیت کا ہوگا جیسا کہ ملک کے ممتاز نوجوان ، ادیب و شاعر پروفیسر سحر انصاری نے ادارہ یادگارِ غالب کے لیے ”ذکرِغالب ، ذکرِ عبد الحق“ کے نام سے مرتب کیا تھا ۔ اس میں بابائے اردو پر تین سو مضامین و غیر ہ کی تفصیل ہے ۔ یہ سار ے مضامین غالب لائبر یری میں محفوظ ہیں۔اِس کے علاوہ یہاں قاضی فیض الاسلام کا پورا مجموعہ موجود ہے ۔
کتب خانے میں 11000 کتابیں اور رسائل کرم فرماﺅں کے عطیہ کردہ ہیں ۔ کتابیں خریدی بھی جاتی تھیں لیکن مالی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے زیادہ تر انحصار عطیات پر ہوتا ہے۔ ہر اُس کتاب یا رسالے پر جو عطیہ کی گئی ہو۔معطلی کے نام کی مہر لگادی جاتی ہے اور عطیہ کے خاص رجسٹر کے علاوہ ایک اور رجسٹر میں بھی اس کا اندراج کر دیا جاتا ہے۔غالب لائبریری ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنی مدد آپ خود چل رہا ہے لیکن کچھ دوسرے فاﺅنڈیشن کی بھی ان کو مالی مدد حاصل ہے ۔ اِنفاق فاﺅنڈیشن اور اکادمی ادبیات پاکستان تقریباً دس ہزار روپے سالانہ دیتے ہیں ۔ حکومتِ سندھ 5000 روپے سالانہ اشاعت کے لیے دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ تاج حیدر صاحب اور فاطمہ ثُریّا بجیا لائبریری کے لیے فنڈنگ کرتے رہے ہیں ۔ زاہد انصاری، حسن فاروقی اور دوسرے موجودہ شاعر اپنی کتابیں کتب خانے میں بطور تحفہ دیتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلم فاروقی ، آصف فاروقی ، فاطمہ ثریّا بجیا نے دو سو کتابیں کچھ عرصے پہلے لائبریری کو عطیہ کی تھیں ۔ انھیں وجوہات کی بنا پر لائبریری کی حالت بہتر ہوتی جارہی ہے لیکن پھر بھی کتب خانے کی پہلے کی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ سب فنڈز بہت کم ہیں اور فنڈز کی قلت کے سبب تاریخی کتب خانوں کے ذخیرے کو نہ محفوظ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بنیادی طور پر انھیں درست طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر تنظیم الفردوس جو 2006 سے اس اِدار ے میں ہیں اب پچھلے دو سال سے یہاں کی سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہی ہیں اُن کا کہنا تھا کہ غالب لائبریری ایک سرکاری ادارہ ہے حکومتِ سندھ سالانہ 5000 روپے اشاعت کے لیے دیتی ہے جو اشاعت کے لحاظ سے بہت کم ہے اس سال جنوری سے اب تک چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور اس کے علاوہ دو کتابیں اشاعت کے مراح میں ہیں افکارِ غالب کے نام سے اب تک بایئس اشارے نکالے جاچکے ہیں۔
ایک رجسڑرمیں باقاعدہ کتابوں کا اندراج کیا ہوا ہے اور اس کے علاوہ کمپیوٹر میں بھی محفوظ کیا گیا ہے یعنی اندر سے کتب خانے کو صحیح طریقے سے بنایا گیا ہے مختلف قسم کی کتابیں ، اُردو ادب کے نامور شعراءکی کتابیں ، نامہ نگار اور ادیبوں کی کتابیں ایک ترتیب سے سیکشن بنا کر رکھ دی گئی ہیں ۔