غالب کی حویلی

دہلی میں وہ ایک قدیمی حویلی کہ جس میں مرزا اسد اللہ خاں غالب قیام پذیر رہے۔

غالب کی حویلی اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کی انیسویں صدی میں رہائش تھی۔ یہ اب ثقافتی ورثہ کا مقام ہے۔[2]۔ یہ مقام گلی قاسم جان، بلیماران، قدیم دہلی میں واقع ہے۔ یہ اس مغلیہ دور کا آئینہ دار ہے جو کبھی زوال پزیر تھا۔

غالب کی حویلی
غالب کی حویلی
مرزا غالب کے جسم کی اوپری ساخت کا مجسمہ، جو حویلی میں واقع ہے۔
سنہ تاسیس27 دسمبر 2000[1]
محلِ وقوعگلی قاسم جان، بلیماران
نوعیتیادگار
عوامی نقل و حمل رسائیچاوڑی بازار میٹرو اسٹیشن
؎ اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

تعارف ترمیم

 
حویلی کا ایک منظر

مرزا غالب کی حویلی قدیم دہلی میں واقع ہے اور اسے آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے ثقافتی ورثے کا مقام قرار دیا گیا ہے۔ اس حویلی غالب کی طرز زندگی اور مغلیہ سلطنت کے دور کی معماری کا اندازہ ہوتا ہے۔[3] اس کا بڑا صحن جو ستونوں اور اینٹوں سے بنا ہے، دہلی میں مغلیہ حکمرانی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ یہاں کی دیواروں پر شاعر کی تصویریں اور ان کے اشعار آویزاں ہیں۔ دہلی حکومت کی جانب سے اس مقام کو اپنے قبضے میں لے لیے جانے کے بعد یہ ایک مستقل یادگار عجائب خانہ بنا دیا گیا ہے جس میں شاعر اور ان کے دور کی چیزوں کو رکھا گیا ہے۔ یہاں پر غالب کی کتابیں اور کئی ہاتھ کے لکھے نمونے رکھے گئے ہیں۔ عجائب گھر میں ایک حقیقی زندگی کے جسامت والا شاعر کا مجسمہ بھی ہے جس میں ہاتھ میں حقہ لیے ہوئے ہیں۔ استاد ذوق، بہادر شاہ، مومن اور غالب کے دیگر معاصرین کی تصاویر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

27 دسمبر 2010ء کو دہلی کی سابقہ وزیر اعلٰی شیلا دیکشت نے شاعر کے مجسمے کی نقاب کشائی جسے نامور مجمسہ ساز بھگوان رامپورے نے تراشا تھا اور یہ کام شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار نے تفویض کیا تھا۔[4] غالب کی ایک تصویر جس کے اتارنے کا کام بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے سونپا تھا، وہ مجمسمے کی تیاری میں کام آیا۔[5]

تاریخ ترمیم

غالب اس حویلی میں اپنی زندگی کا ایک لمبا سا وقت گزار چکے ہیں۔ آگرہ سے دہلی آنے کے بعد یہی ان کی رہائش تھی۔ اس حویلی میں رہتے ہوئے انھوں نے اردو اور فارسی زبانوں میں دیوان لکھے تھے۔ غالب کی موت کے ایک سال کے بعد اس جگہ کے اندر کئی دکانات بنے ہوئے تھے۔ تاہم 1999ء یہ ہٹا دیے گئے جب دہلی حکومت نے اس جگہ کو اپنے قبضے میں لے لیا دیرینہ مغلیہ دور کی آب و تاب بحال کی۔ خصوصی کارگزاری کے لیے مغل لکھوری اینٹوں، سنگ مرمر کے پتھروں اور داخلے پر ایک لکڑی کی بھاٹک تنصیب ہوئی تاکہ انیسویں صدی کے دور کا اثر دیکھا جا سکے۔[2]

معماری ترمیم

اس کی تعمیر روایتی سازوسامان سے ہوئی، جس میں لکھوری اینٹیں اور چونے کا مارٹر کام میں لایا گیا۔[6][7][8][9]

معلومات ترمیم

یہ حویلی چاوڑی بازار میٹرو اسٹیشن اور دہلی جنکشن ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہے۔ یہ سب کے لیے مفت داخلے کا مقام ہے اور یہاں تصویر کھینچنے پر بھی کوئی پیسہ نہیں لگتا۔ یہ دن میں 11 بچے سے 6 بجے تک سوائے پیر کے سبھی دن کھلی ہے۔

نگارخانہ ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Ghalib ki Haveli"۔ 20 نومبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2014 
  2. ^ ا ب "Ghalib ki Haveli"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2014 
  3. "Mirza Ghalib's Haveli in Chandni Chowk, Delhi"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2014 
  4. "Ghalib's marble bust unveiled"۔ Times of India۔ Dec 27, 2010۔ 22 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2017 
  5. "Ghalib's Legacy"۔ جنوری 3، 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2017 
  6. "Haveli to speak of a history lost in time.", ٹائمز آف انڈیا, 21 دسمبر 2015.
  7. 5. Havelis of Kucha pati Ram, in South Shahjahanabad, World Monument fund.
  8. Revival of Hemu's Haveli on the cards, Yahoo News India, 6 اگست 2015.
  9. A Zail, school and orphanage: Bawana's fortress gets another makeover.", ہندوستان ٹائمز.

بیرونی روابط ترمیم