سانچہ:خانۂ کرکٹ کھلاڑی

فضل محمودانگریزی:Fazal Mahmood(پیدائش:18 فروری 1920ء لاہور، پنجاب)|(وفات:30 مئی، 2005ء لاہور،)فضل محمود کو پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا سپر ہیرو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے پاکستان کو اپنی شاندار کارکردگی سے وہ اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی راہ پر گامزن کیا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بلاشبہ پاکستان کے ابتدائی کرکٹ کا ایک ایسا چمکتا ستارہ تھے جس کی روشنی سے آج بھی پاکستان کرکٹ جگمگا رہی ہے۔انھوں نے متحدہ ہندوستان میں رنجی ٹرافی میں حصہ لے کر فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا اور قیام پاکستان کے بعد 16اکتوبر 1952ء میں بھارت کے خلاف کھیل کر اپنا کیریئر شروع کیا اور دس سال بعد 16-20 اگست 1962ء میں انگلستان کے خلاف آخری ٹیسٹ میچ کھیل کر کرکٹ کو الوداع کہا۔لکھنؤ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف جو ٹیسٹ میچ جیتا اس میں فضل محمود نے 94 رنز دے کر 12 وکٹ لے کر جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

ابتدائی زمانہ ترمیم

فضل محمود دائیں ہاتھ کے بلے باز اور دائیں ہاتھ سے گیند کرانے والے فاسٹ میڈیم بالر تھے۔ فضل محمود اپنے ہم عصروں خان محمد اور محمود حسین کے برعکس میڈیم پیس بولنگ کرتے تھے لیکن انھیں ان سوئنگ اور آف کٹر پرغیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ وہ پرانی گیند سے بھی بہت عمدہ سوئنگ کرتے تھے۔ وہ کریز کا بہت عمدہ استعمال کرتے، جس سے ان کی آٹ سوئنگ کھیلنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔انھوں نے 34 ٹیسٹ میچوں میں 139 وکٹ حاصل کیں۔ وہ آف کٹر اور لیگ کٹر دونوں طرح کی گیندیں کرانے کے لیے بہت مشہور تھے اور میٹ کی پچوں پر خاص طور سے بہت موثر بالر سمجھے جاتے تھے۔ گیند پر زبردست کنٹرول اور پچ پر مسلسل موومنٹ کرانا ان کا امتیاز سمجھا گیا۔جب 1955ء میں انھیں وزڈن کرکٹرزآف دی ایئر کی فہرست کا خطاب دیا گیا تو کہا گیا تھا کہ وہ مردوں اور لڑکوں کے ہیرو اور عورتوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ وہ اپنے وقت کے عمران خان تھے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ 48-1947ء میں اس بھارتی کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے جس نے آسٹریلیا کا دورہ کرنا تھا تاہم پاکستان بننے کے بعد انھوں نے فیملی کے ساتھ پاکستان شفٹ ہونے کو ترجیح دی۔ فضل محمود 13 سال کی عمر میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے جہاں ان کے والد محترم غلام حسین کالج میں معاشیات کے پروفیسر تھے اور ساتھ ساتھ کالج کی کرکٹ ٹیم کے بھی انچارج تھے۔ فضل محمود کو بچپن سے کرکٹ سے بہت لگائو تھا جو بڑھ کر جنون بن گیا تھا۔ والد کی توجہ اور محنت نے اس عشق کو آتش بنا دیا۔ ان کے والد خود بھی کرکٹ کے کھلاڑی اور شائق تھے۔ان کی خواہش تھی کہ فضل محمود بڑے کرکٹ کھلاڑی بنیں اور فضل محمود کو خوش قسمتی سے اوائل عمری میں ہی مخلص کوچ ملے، جن کی محنت اور مہارت نے انھیں جلد جاں فشاں کرکٹ کھلاڑی بنا دیا۔ گھنٹوں نیٹ پر بولنگ کرکے وہ جلد ہی اعلی پائے کے بولر بن گئے۔ اس دور میں کرکٹ محدود پیمانے پر ہوتی تھی اور پسند ناپسند کا عنصر رہتا تھا جس سے کھلاڑیوں کا انتخاب مشکل سے ہو پاتا۔فضل محمود کے والد صاحب نے مسابقتی انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود اسلامی سکالر اور انقلابی کارکن عبیداللہ سندھی مرحوم کی قیادت میں آزادی کی تحریک کو اپنایا۔ فضل محمود کو ایک کامیاب کرکٹ کھلاڑی بنانے میں اس بات کا گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان کے والد محترم کی محنت اور توجہ شامل رہی ہوگی۔ انھوں نے فضل محمود کو صبح ساڑھے 4 بجے بیدار کرکے 5 میل پیدل چلنے اور دوڑنے کی ترغیب دی اور اس سخت شیڈول پر 7 سال بلاناغہ عمل درآمد کے ذریعے فضل محمود آگے چل کر ایک لیجنڈ کرکٹ کھلاڑی کے روپ میں دکھائی دیے۔ یہ اسی سخت ٹریننگ کے باعث ممکن ہوا کہ فضل محمود نے دوسرے ہی سال کالج کی کرکٹ ٹیم کو نمایاں مقام دلوا دیا اور صرف 15 سال کی عمر میں ہی انٹر کالج ٹورنامنٹ کے فائنل میں 13 رنز دے کر 5 وکٹوں کے ذریعے ٹورنامنٹ جتوا دیا۔

فرسٹ کلاس کیریئر ترمیم

مارچ 1944ء میں ابھی ان کی عمر 17 سال ہی ہوئی تھی کہ انھوں نے شمالی ہندوستان کی ٹیم کے لیے رنجی ٹرافی میں اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے جنوبی پنجاب کے خلاف گیارہویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے ناقابل شکست 38 رنز بنائے اور 3 وکٹ بھی حاصل کیں۔ اس ٹیم کے کپتان لالہ امرناتھ تھے۔ دوسری شرکت میں فضل محمود نے مغربی بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں 65 رنز دے کر 6 وکٹوں کی اعلیٰ کارکردگی پیش کی۔ 1944-45ء کے اس سیزن میں اسی اعلی کارکردگی کی بدولت انھیں 1946ء میں دورہ انگلینڈ کے لیے ٹیم کا حصہ بنائے جانے پر غور کیا جانے لگا۔ اس مقصد کے لیے زونل کوارٹر ینگلر ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوا جس میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر اس دورے میں شمولیت یقینی ہوجاتی۔ فضل محمود نے امرناتھ کے ساتھ بولنگ کا آغاز کیا اور پورے میچ میں 83 رنز کے عوض 9 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ تھی کہ بھارتی کپتان نواب منصور پٹودی فضل محمود کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے تھے تاہم سلیکٹر کا خیال تھا کہ وہ ابھی کم عمر ہیں۔ اس کے بعد فضل محمود نے ریسٹ آف انڈین الیون کے خلاف میچ میں 7 وکٹ حاصل کیں جس کی بدولت ان کی ٹیم یہ میچ جیت گئی۔ اس کے بعد 1946-47ء کے سیزن میں ان کی بلے بازی کی صلاحیتیں سامنے آئیں جب انھوں نے اپنی پہلی اور واحد سنچری 100 ناٹ آئوٹ بنا ڈالے۔ نارتھ زون کی طرف سے آٹھویں نمبر پر کھیلتے ہوئے انھوں نے اس باری کے دوران گوگومل کشن چند کے ساتھ ساتویں وکٹ کے لیے 207 رنز بھی جوڑے۔ نارتھ زون نے فضل محمود کی 6 وکٹوں کے عوض یہ میچ آسانی سے جیت لیا۔ فضل محمود نے فائنل میں مزید 5 وکٹ لیے مگر بدقسمتی سے نارتھ زون یہ میچ ہار گیا تاہم زونل ٹورنامنٹ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔آزادی کے اعلان کے بعد بھارتی ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنا تھا، جس کے لیے فضل محمود کا انتخاب یقینی تھا۔ ٹیم کے دورے سے قبل مہاراشٹر کے شہر پونا میں کیمپ لگایا گیا۔ کیمپ کے اختتام پر جب فضل محمود بمبئی جا رہے تھے تو ٹرین میں انتہاپسندوں نے مسلمان جان کر حملہ کرنے کی کوشش کی۔اس وقت ان کے ساتھ سفر کرنے والے سی کے نائیڈو اپنا بلا نکال کر فضل محمود کی ڈھال بن گئے اور کہا خبردار کسی نے فضل کو ہاتھ لگایا جس سے بلوائی بھاگ گئے۔تاہم فضل محمود اس واقعے اور اگلے دنوں میں مہاجرین پر ہونے والے حملوں سے بہت دل برداشتہ ہو گئے اور پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے سے وہ بھارتی ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا کا دورہ کرسکے اور نہ ہی سر ڈان بریڈ مین کے خلاف کھیل سکے، جس کا ان کو ہمیشہ قلق رہا۔ اگرچہ ان کے فیصلے کو بدلنے کے لیے سی کے نائیڈو، لالہ امرناتھ اور دوسرے ساتھیوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ راضی نہ ہوئے۔

’کیپ اٹ اپ ینگ مین۔‘ ترمیم

1946ء کے دورہ انگلینڈ کے لیے وہ منتخب نہ ہو سکے تو بہت دل برداشتہ ہوئے کیونکہ ان کی بولنگ کی شہرت اب لاہور سے دہلی اور بمبئی تک پہنچ گئی تھی اور سب کا خیال تھا کہ وہ منتخب ہوجائیں گے۔اس زمانے میں قائد اعظم اسلامیہ کالج لاہور آئے تو فضل محمود سے ان کا تعارف ہوا۔ قائد اعظم ان کی کرکٹ کی کارکردگی سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا 'کیپ اٹ اپ ینگ مین۔ فضل محمود اپنی بائیو گرافی میں ان الفاظ کو زندگی کا سب سے بڑا انعام تصور کرتے ہیں۔پاکستان میں آزاد ہونے کے بعد 27 دسمبر 1947ء میں پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلا گیا۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان ہونے والے اس میچ میں فضل محمود نے 6 وکٹ حاصل کیے اور اننگ میں 60 رنز بھی بنائے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ فضل محمود کی خان محمد کے ساتھ اوپننگ بولنگ اٹیک کی ابتدا ہوئی۔ بعد ازاں خان محمد ٹیسٹ کرکٹ میں ان کے اوپننگ پیئر بن گئے۔ نومبر 1948ء میں پاکستان کا پہلا بین الاقوامی ٹور ویسٹ انڈیز کے لیے تھا جس میں فضل محمود کے حصے میں صرف ایک میچ آیا۔ 1948-49ء کے سیزن کے اختتام پر پاکستان نے سیلون (سری لنکا) فضل محمود نے 20 وکٹ لے کر ٹاپ کیا۔ اس کے بعد اگلے سال انھوں نے 2 میچوں میں 16 وکٹ حاصل کیے۔ 1951-52ء میں ایم سی سی کی ٹیم نے جب برصغیر کا دورہ کیا تو پنجاب کے خلاف پہلے میچ میں فضل محمود نے 58 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جس سے مخالف ٹیم فالو آن پر مجبور ہو گئی۔ دورے کے پانچویں اور آخری میچ میں فضل محمود نے 40 رنز کے عوض 8 کھلاڑیوں کی اننگز کو ٹھکانے لگایا۔ ایم سی سی کے اس دورے کے بعد 28 جولائی 1952ء کو پاکستان کو ٹیسٹ سٹیٹس کا درجہ مل گیا حالانکہ پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی صرف 5 سال ہی ہوئے تھے[1]

ٹیسٹ کیریئر ترمیم

ٹیسٹ کرکٹ میں فضل محمود نے پاکستان کی طرف سے 34 ٹیسٹ میچوں میں شرکت کی جس کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں-

1952-53ءمیں بھارت کے خلاف سیریز ترمیم

اکتوبر 1952ء میں پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز کا آغاز کیا۔ فضل محمود نے دہلی کے پہلے ٹیسٹ میں ڈیبیو کیا۔ بھارت کی پہلی اننگ میں انھوں نے دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ لالہ امرناتھ جو اس ٹیم میں ہندوستان کی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے ان کا پہلا شکار بنے۔ پاکستان دونوں اننگز میں بہت کم سکور پر آئوٹ ہوکر ایک اننگ کے فرق سے یہ ٹیسٹ ہار گیا۔ فضل محمود اس مرحلے پر واحد کھلاڑی تھے جو بیٹنگ میں دوہرے ہندسے تک پہنچے لیکن لکھنئو کے دوسرے ٹیسٹ میں نتیجہ بالکل مختلف تھا جب فضل محمود نے 52 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جبکہ دوسری اننگز میں صرف 42 رنز دے کر 7 وکٹوں کے ذریعے پورے میچ میں 94/12 کا متاثر کن فگر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فتح کا سبب بھی بن گئے۔ ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کرنے کے بعد محض دوسرے ہی ٹیسٹ میں کامیابی کوئی معمول بات نہ تھی۔ 1980ء تک فضل محمود کا یہ ریکارڈ بھارت کے خلاف قائم رہا کہ کسی بولر نے ایک میچ میں 10 یا 10 سے زائد وکٹ حاصل کیے۔ سیریز کا تیسرا ٹیسٹ بمبئی (اب ممبئی) میں تھا جہاں فضل محمود کا جادو نہ چل سکا اور پاکستان اس ٹیسٹ میں 10 وکٹوں کے بھاری مارجن سے مشکلات سے دوچار ہوا حالانکہ فضل محمود نے بیٹنگ میں 8 ویں نمبر پر کھیلتے ہوئے 33 رنز بنائے تھے جس سے ایک مرحلے پر شدید مشکلات سے دوچار قومی ٹیم 60 رنز پر 6 کھلاڑی آئوٹ سے 143 رنز 7 کھلاڑی تک پہنچ گئی۔ سیریز کے آخری 2 ٹیسٹ بغیر فیصلے کے اختتام پزیر ہوئے۔ فضل محمود نے 25.60 کی اوسط سے 20 وکٹ لے کر قومی ٹیم کے لیڈنگ بولر کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے 28.83 رنز کی اوسط سے 173 رنز بھی بنائے۔

1954ءمیں انگلستان کے خلاف سیریز ترمیم

بھارت کے دورے کے بعد انگلستان کا دورہ آن پہنچا اور پاکستان ایگلٹس کی ٹیم جس میں فضل محمود بھی شامل تھے کو دورہ انگلستان کی تیاری کے لیے بھجوایا گیا۔ الف گور جو سابق انگلستان اور سرے کے بولر تھے کی کوچنگ سے فضل محمود کو مزید مہمیز ملی۔ 1954ء کے دورے انگلستان کے لیے فضل محمود کو کپتان عبد الحفیظ کاردار کا نائب مقرر کیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور وہ بیرون ملک اس پہلی سیریز کو یادگار بنانے میں معاون بنے۔ فضل محمود نے ووسٹر شائر کے خلاف 102 رنز دے کر 11 وکٹوں کے حصول سے سب کو حیران کر دیا جبکہ 67 رنز بھی ان کے بلے سے امڈ آئے تھے۔ ٹیسٹ سیریز کے آغاز تک فضل محمود وکٹوں پر وکٹ لیتے رہے۔ انھوں نے لمبے اور کم رنز والے سپیل کرکے اپنی صلاحیتوں کا خوب استعمال کیا' خصوصا آکسفورڈ یونیورسٹیز کے خلاف جہاں انھوں نے 68 اوورز میں سے 37 میڈن پھینکے اور 95 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں کی وکٹوں کو اپنے قبضے میں کیا۔ ٹیسٹ سیریز میں لارڈز کا پہلا ٹیسٹ بارش سے متاثرہ تھا اس لیے بغیر کسی نتیجے کے اختتام پزیر ہو گیا۔ کھیل میں بیٹنگ کے شعبے میں قومی ٹیم بہت مشکل کا شکار نظر آئی اور صرف 87 رنز بنا سکی۔ انگلینڈ نے جواب میں 9 وکٹوں پر 117 رنز بنائے۔ خان محمد اور فضل محمود نے بولنگ اینڈ سنبھالے رکھا۔ فضل محمود نے 54 رنز کے عوض 4 وکٹ لیے جبکہ ان کے ساتھ خان محمد 161 رنز دے کر 5 وکٹوں کے مالک بنے۔ دوسرے ٹیسٹ میں نوٹنگھم کے مقام پر پاکستان زیادہ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکا۔ خصوصا فضل محمود 148 رنز دے کر کسی بھی کھلاڑی کی وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی ایک وجہ غالبا یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹانگ کے زخمی ہونے کی وجہ سے انھیں اپنا رن اپ چھوٹا کرنا پڑا تھا۔ یہی نتیجہ تیسرے ٹیسٹ میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں پاکستان کی ناقص کارکردگی پوری طرح عیاں تھی۔ یہ ٹیسٹ آخر بارش کی نذر ہوا۔ پاکستان کی ٹیم انگلینڈ کے 359 رنز 8 کھلاڑی آئوٹ پر ڈکلیئر اننگ کے جواب میں صرف 90 رنز تک محدود رہی۔ حنیف محمد 32 کے سکور پر نمایاں رہے۔ دوسری اننگز میں پاکستان نے ابھی 4 وکٹوں کے نقصان پر 25 رنز کی بنائے تھے کہ بارش پاکستان کی مدد کو آگئی۔ فضل محمود نے 42 اوورز میں 107 رنز کے عوض 4 وکٹ حاصل کرلئے تھے۔ سیریز کا چوتھا ٹیسٹ اوول میں تھا۔ کس کو معلوم تھا کہ یہ ٹیسٹ پاکستان کی فتح پر ختم ہوگا اور عشروں تک جہاں جہاں فضل محمود کا نام لیا جائے گا وہاں اس ٹیسٹ کی یادیں تازہ ہوتی رہیں گی۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی اور 133 کا کم سکور کھاتے میں درج کروایا لیکن انگلینڈ کے ساتھ بھی کچھ مختلف نہ ہوا کیونکہ فضل محمود 53 رنز کے عوض 6 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کرنے کا سبب بنے تھے جبکہ ان کا ساتھ محمود حسین نے 54/4 کے ساتھ دیا تھا اور یوں انگلستان کی دوسری اننگز میں بھی کارکردگی کا یہی تسلسل قائم تھا جب انگلستان کی ٹیم 143 رنز ہی بنا سکی اور فضل محمود 46/6 لے کر نمایاں بولر تھے۔ انھوں نے لین ہٹن 5' پیٹر مے 53' ڈینس کامپٹن 29' گارڈ فرے ایونز 3' جونی وارڈل 9 اور فرینک ٹائیسن کو 3 رنز پر پویلین کی راہ دکھائی اور یوں 24 رنز سے یہ ٹیسٹ پاکستان کی جھولی میں لا ڈالا اور سیریز 1-1 سے برابر ہو گئی۔ یہ فتح اس لیے بھی اہم تھی کہ انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی یہ پہلی فتح تھی۔ اس سیریز میں فضل محمود نے 20 وکٹ 20.40 کی اوسط سے حاصل کیے۔ اس متاثر کن کارکردگی پر فضل محمود کو 1955 میں وزڈن کرکٹ کھلاڑی آف دی ایئر نامزد کیا گیا۔ فضل محمود یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے۔

1954-55ء میں بھارت کے خلاف سیریز ترمیم

1954-55ء میں بھارت کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور 5 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ دونوں ٹیمیں اس قدر محتاط انداز میں میدان میں اتریں کہ سیریز کے تمام ٹیسٹ بغیر نتیجہ اپنے اختتام کو پہنچے۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا کہ 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز برابری پر منتج ہوئی ہو۔ فضل محمود نے 5 میں سے 4 ٹیسٹوں میں شرکت کی اور 21.93 رنز کی اوسط سے 15 وکٹوں کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ اس میں فضل محمود کی بہترین بولنگ 48 رنز کے عوض 5 وکٹ تھیں جو کراچی کے پانچویں ٹیسٹ میں ان کے ہاتھ میں آئیں۔

1955ء میں نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان ترمیم

اسی سیزن میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں قومی ٹیم نے 2-0 سے اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ فضل محمود نے اس سیریز کے 3 میں سے 2 ٹیسٹوں میں شرکت کی اور 18.40 کی اوسط سے 5 وکٹوں کے مالک بنے۔

1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹیسٹ ترمیم

اکتوبر 1956ء میں آسٹریلیا کی طرف سے دورہ بھارت سے منسلکہ دورے میں کراچی کے مقام پر ایک ٹیسٹ کھیلا گیا جو پاکستان کی عمدہ کارکردگی پر اختتام پزیر ہوا۔ اس ٹیسٹ میں فتح کے نمایاں کردار فضل محمود تھے جنھوں نے 114 کے عوض پورے میچ میں 13 وکٹ لے کر آسٹریلوی بیٹنگ کی کمزوریوں کو نمایاں کیا۔ اس میں پہلی اننگ میں 56 رنز کے عوض 6 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ بھی شامل تھا جس میں کولن میکڈونلڈ17، جم برک 4، نیل ہاروے 2، آئن کریگ0، کیتھ ملر21 اور رچی بینو4 شامل تھے۔ اس شاندار بولنگ کے سبب آسٹریلوی ٹیم مشکلات کا شکار نظر آئی۔ اسی طرح کا نتیجہ دوسری اننگز میں بھی نظر آیا جب فضل محمود نے پہلے 4 کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا اور 80 نز کے عوض 4 وکٹوں کے ساتھ کامیابی اختتام کیا۔ ان کے لیگ کٹرز اور آف بریکس کو کرکٹ میگزین وزڈن نے کرکٹ کی ایک نئی تکنیک قرار دیا۔ اس وقت کے کپتان امتیاز احمد نے بھی فضل محمود کی بولنگ کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا جس سے آسٹریلوی ٹیم سمجھنے سے قاصر رہی دوسری اننگ میں فضل محمود کی گیندوں پر کولن میکڈونلڈجم برک 10، نیل ہاروےآئن کریگ 18، رچی بینو56 رے لنڈوال اور آسٹریلوی کپتان آئن جانسن 0 نے وکٹ گنوائیں۔

پاکستان کا دورہ ویسٹ انڈیز 1958ء ترمیم

1958ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا یہ دورہ بولرز کے لیے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس سیریز میں بیٹسمینوں نے رنز کے انبار لگا دیے ایسے میں یہ فضل محمود ہی تھے جنھوں نے 320 اوورز کیے جس میں 186 اوورز مسلسل کیے پاکستان یہ سیریز 1-3 سے ہار گیا اور صرف ایک ٹیسٹ ہی میں شکست ٹلی جہاں ایک وجہ حنیف محمد کے شاندار 337 رنز تھے جس کی تکمیل کے دوران وہ کریز پر 16 گھنٹے سے زائد قیام پزیر رہے۔ فضل محمود نے اس ٹیسٹ میں 6 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جبکہ بیٹسمین کی حیثیت سے انھوں نے آخری نمبر پر کھیلتے ہوئے 60 رنز بنائے جو ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں واحد نصف سنچری اور کیریئر کا سب سے زیادہ انفرادی سکور بھی تھا۔ تیسرے ٹیسٹ میں کنگسٹن کے مقام پر سر گیری سوبرز کا بلا ستم ڈھانے کو موجود تھا جہاں انھوں نے 365 ناقابل شکست رنز بنائے جو ایک عالمی ریکارڈ بنا۔ پاکستان کے ابتدائی بولرز محمود حسین اور سپن بولر نسیم الغنی کے زخمی ہونے سے بولنگ کی ساری ذمہ داریاں فضل محمود کے کندھے پر منتقل ہوگئیں جس کو بخوبی نبھانے کے لیے انھیں 85.2 اوورز کرنے پڑے جسے وزڈن میگزین نے ایک مشکل ڈیوٹی قرار دیا۔ فضل محمود کو 247 رنز دے کر صرف 2 وکٹوں کی محنت وصول ہوئی۔ اسی سبب فضل محمود کرکٹ کی تاریخ کے وہ پانچویں بولر بنے جنھوں نے کسی اننگز میں اتنے زیادہ رنز دیے ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو ایک اننگ کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم پانچویں ٹیسٹ میں پاکستان کو فتح مل ہی گئی جب فضل محمود نے 83 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا جس میں میچ کی پہلی ہی گیند پر کونارڈ ہنٹ کی وکٹ بھی شامل تھی۔ فضل محمود کے لیے سیریز اگرچہ بعض حوالوں سے مشکل تھی تاہم اس نے پھر بھی 38.20 کی اوسط سے 20 وکٹ کھاتے میں درج کروا لیے تھے اور یہ بات فضل محمود کے لیے اطمینان بخش تھی کہ وہ اس سیریز میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بولر تھے۔

بطور کپتان ترمیم

ویسٹ انڈیز کے دورے سے واپسی پر کپتان عبد الحفیظ کاردار ریٹائر ہو گئے۔ ان کی جگہ فضل محمود کو قیادت کے فرائض سونپے گئے۔ 1958-59ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم 146 رنز تک محدود رہی۔ فضل محمود نے 22 اوورز میں 35 رنز دے کر 4 وکٹ لیے جس میں پہلے ہی اوور میں کورنارڈ ہنٹ کی وکٹ بھی شامل تھی جسے مسلسل دوسرے ٹیسٹ میں فضل محمود نے آغاز میں ہی دبوچ لیا تھا۔ اسی اننگ میں انھوں نے عظیم کھلاڑی سر گیری سوبرز کو بھی صفر پر ہی پویلین بھجوا دیا۔ دوسری اننگز میں ان کے حصے میں مزید 3 وکٹ آئے جس میں کورنارڈ ہنٹ اور گیری سوبرز ایک بار پھر ان کا نشانہ بنے۔ اسی اننگز میں فضل محمود نے اپنے 100 وکٹ بھی مکمل کرلئے۔ اس وقت تک اس اعزاز تک پہنچنے والے وہ پہلے پاکستانی بولر تھے۔ حنیف محمد کے 103 رنز کی بدولت پاکستان 304 کا اچھا سکور ترتیب دینے میں کامیاب رہا اور 10 وکٹ سے یہ ٹیسٹ جیت کر فضل محمود نے بطور کپتان اپنی پہلی فتح کا مزہ چکھا۔ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ ڈھاکہ میں تھا۔ پاکستان نے والس میتھائس کے 64 رنز کی بدولت 145 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم فضل محمود کے 34/6 کی عمدہ کارکردگی کے سبب 76 رنز تک ہی محدود رہی۔ اس ٹیسٹ میں فضل محمود نے 10 وکٹ لیے۔ یہ پہلا موقع تھا جب فضل محمود کے حصے میں 10 یا اس سے زائد وکٹ لیے تھے۔ پاکستان نے 41 رنز سے یہ ٹیسٹ جیت کر 3 میچوں کی سیریز میں برتری حاصل کرلی تھی۔ میچ میں فضل محمود نے 100 رنز پر 12 وکٹ حاصل کیے جو 1993ء تک بطور کپتان بہترین بولنگ کے اعداد و شمار ہیں تاہم لاہور کے تیسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کھیل میں واپس آیا۔ اس کی وجہ غالباً غیر معیاری وکٹ تھی جہاں فضل محمود نے ابتدائی کھلاڑیوں کی وکٹ جلد حاصل کرلی تھی مگر وہ یہیں تک محدود رہے اور ویسٹ انڈیز 41 رنز سے یہ ٹیسٹ جیت کر 2-1 تک لے گیا تھا۔ فضل محمود نے اس سریز میں 15.85 کی اوسط سے 21 وکٹوں کے حصول کو ممکن بنایا تھا۔ اس کے بعد 1959ء کے اختتام پر آسٹریلیا کی ٹیم نے 3 ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔ فضل محمود ہی قومی ٹیم کے قائد تھے۔ اس سیریز میں آسٹریلیا نے 2-0 سے فتح حاصل کی جو پاکستان کی اپنے ملک میں کسی بھی سیریز کی پہلی شکست تھی۔ ڈھاکہ کے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا سے 8 وکٹوں سے فتح یاب رہا۔ فضل محمود نے اننگز میں 5 آسٹریلوی کھلاڑیوں کو 71 رنز پر آئوٹ کیا۔ دوسرے ٹیسٹ میں وہ شریک نہ تھے جہاں امتیاز احمد نے ان کی عدم موجودگی میں قیادت کے فرائض ادا کیے۔ اس ٹیسٹ میں بھی آسٹریلیا نے 7 وکٹوں سے فتح اپنے نام کی۔ سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں کراچی کے مقام پر فضل محمود واپس آئے اور پہلی اننگ میں 74 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کی باری ختم کی۔ ایک مرحلے پر پاکستان کی بیٹنگ نے میچ کو دلچسپ بنا دیا تھا مگر دوسری اننگز میں یہ تسلسل قائم نہ رہ سکا اور ٹیسٹ بغیر نتیجہ کے اختتام پزیر رہا۔ صرف 2 ٹیسٹ میں شرکت کے باوجود فضل محمود 19.36 کی اوسط سے 11 وکٹ لے کر سیریز کے ٹاپ پاکستانی بولر رہے۔ اسی کارکردگی کے باعث انھیں 1959ء میں آئی سی سی کی ٹیسٹ بولنگ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر فائز دیکھا گیا۔ 1960-61ء کو بھارت کے دورے میں فضل محمود ہی قومی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ ٹیسٹ سیریز بھی 7 سال قبل ہی کی طرح بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ دونوں ٹیمیں اتنے محتاط انداز میں کھیل رہی تھیں کہ کسی بھی ٹیسٹ کا فیصلہ ہار یا جیت کی شکل میں نہ ہو سکا۔ فضل محمود نے سیریز میں 9 وکٹ حاصل کیے۔ یہ کپتان کی حیثیت سے ان کی آخری سیریز تھی جس نے ان پر شدید تنقید سامنے آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں کپتانی سے معزول کر دیا گیا۔

آخری سیریز ترمیم

1962ء میں انگلستان کے خلاف ہوم سیریز میں ابتدا میں ان کو ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا اگرچہ بعد میں انھیں آخری ٹیسٹ کے لیے بلا لیا گیا تھا تاہم 63 اوورز میں 98 رنز دینے کے باوجود وہ ایک بھی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ اسی طرح 1962ء میں دورہ انگلینڈ کے لیے بھی ٹیم میں جگہ نہیں ملی مگر پاکستانی بولرز محمود حسین اور محمد فاروق کے زخمی ہونے کے بعد انھیں پاکستان سے بلا لیا گیا۔ 5 ٹیسٹ میچز کی سیریز پاکستان پہلے ہی ہار چکا تھا۔ فضل محمود نے ٹرنٹ برج کے چوتھے ٹیسٹ میں شرکت کی۔ انگلستان کی ٹیم بہت اچھا کھیل رہی تھی اور فضل محمود بولنگ میں بہت محنت کر رہے تھے تاہم 60 اوورز میں ان کے حصے میں صرف 3 وکٹ آئے جس کے لیے انھیں 130 رنز دینے پڑے تھے۔ سیریز کے پانچویں ٹیسٹ میں اوول کے مقام پر وہ بہت مہنگے ثابت ہوئے کیونکہ صرف 2 وکٹوں کے حصول کے لیے 47 اوورز میں انھیں 192 رنز گنوانے پڑے تھے۔ اپنے ٹیسٹ کیریئر کے اس آخری ٹیسٹ میں انھوں نے کولن کائوڈرے (182) اور ٹیڈ ڈیکسٹر (172) کی وکٹ ہی ان کے حصے میں آئی تھیں۔

لیگ کرکٹ ترمیم

فضل محمود نے لیگ کرکٹ کے بھی 3 سیزن کھیلے۔ 1957-58-59ء میں لنکا شائر کرکٹ کلب ان کی نگاہوں کا محور ٹھہرا۔ البرٹ ایکسیلنٹ ایمچور کرکٹرز کے خلاف ان کی بولنگ تباہ کن تھی جہاں انھوں نے 4 ہیٹ ٹرکس کے ساتھ 2 موقع پر 8' 8 وکٹ لیے اور 6 مواقع پر ان کے حصے میں 7 وکٹ آئے۔ ان کی بہترین کارکردگی 7 وکٹ تھی جس کے لیے انھوں نے 9 رنز دیے تھے تاہم انھوں نے 1957ء میں 26 رنز کے عوض 7 وکٹ بھی حاصل کی تھیں۔

کرکٹ کے علاوہ مصروفیات ترمیم

فضل محمود نے اسلامیہ کالج لاہور سے معاشیات کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1947ء میں پاکستان سروسز بطور انسپکٹر آف پولیس جوائن کرلی اور 1952ء میں انھیں ترقی دے کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور 1976ء میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) بن گئے۔ پولیس کی ملازمت کے بعد ان کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا اور وہ طاہر القادری کے معتقد ہو گئے۔انھوں نے 1990 میں تحریک منہاج القران کی طرف سے الیکشن بھی لڑا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

گھریلو زندگی ترمیم

ان کی شادی پاکستان کے سابق ٹیسٹ کپتان محمد سعید احمد کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی تھی اور ان کے بچوں میں 2 بیٹے اور ایک بیٹی شامل تھی۔ بیٹے کا نام شہزاد محمود تھا۔ ان کے ایک بھائی ڈاکٹر ظفر مسعود خلجی یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر رہ چکے ہیں جبکہ ان کے برادر نسبتی میاں یاور سعید سمرسٹ کائونٹی کی طرف سے کرکٹ کھیل چکے ہیں۔

فضل محمود کی وجاہت کا کریز ترمیم

گورا رنگ، دراز قامت، متناسب بدن، سلیقے سے جمی ہوئی زلفیں اور سیاہ پلکوں کے عقب سے جھانکتی ہوئی نیلی آنکھوں والے فضل محمود کو جب ہالی وڈ کی خوبرو اداکارہ ایوا گارڈنر نے پہلی دفعہ دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ 1955ء میں انگریزی فلم بھوانی جنکشن کی فلم بندی کے لیے ایوا گارڈنر جب لاہور آئیں تو ان کی فضل محمود سے ملاقات ہوئی، جس میں فضل کی شاندار شخصیت اور وجاہت نے ایوا کو دیوانہ کر دیا۔اس وقت تک فضل محمود کرکٹ کے افق پر چھا چکے تھے اور میدان میں اپنی تیز بولنگ کے سبب مشہور تھے تو میدان سے باہر مہ جبینوں کے جھرمٹ میں گھرے رہتے تھے۔ کسی فلمی ہیرو کی مانند ان کا ہر جگہ استقبال ہوتا تھا۔ اس زمانے کی دوشیزاں اور اینگلو انڈین لڑکیوں کو کرکٹ کی سمجھ نہ تھی لیکن فضل محمود کی وجاہت کا اتنا کریز تھا کہ خواتین ان سے آٹوگراف لینے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتیں[2]

جہاں فضل محمود رہتے ہیں وہاں پاکستان ہے ترمیم

1955ء میں انگلینڈ کے ایک اسکول میں جب جغرافیہ کی ٹیچر نے کلاس میں پوچھا کہ پاکستان کہاں ہے تو پوری کلاس خاموش تھی۔ایک بچی نے کہا جہاں فضل محمود رہتے ہیں وہاں پاکستان ہے۔ یہ ایک ایسا جواب تھا جس سے فضل محمود کی شہرت عیاں ہوتی ہے۔ فضل محمود نے 1954ء کے انگلینڈ دورے پر اتنی خطرناک بولنگ کی کہ مقامی میڈیا کی خبروں کا محور بن گئے۔

آپ کی آنکھیں کتنی نیلی ہیں؟ ترمیم

1954ء کے انگلستان کے دورے پر جب پاکستان ٹیم کی ملکہ برطانیہ سے ملاقات ہوئی تو ملکہ بھی فضل محمود کی آنکھوں سے متاثر ہوئیں۔ انھوں نے سب سے پہلے فضل محمود سے ہاتھ ملایا اور پھر بقیہ ٹیم سے، آخر میں پھر فضل کے قریب آکر کہا آپ کی آنکھیں کتنی نیلی ہیں؟[3]

پوسٹر بوائے ترمیم

اگر بھارت کے پہلے کپتان سی کے نائیڈو سب سے پہلے اشتہارات میں آنے والے کرکٹ کھلاڑی تھے تو پاکستان میں فضل محمود سب سے پہلے اشتہارات کی زینت بنے۔بریل کریم کی تشہیر کے لیے ان کے بڑے بڑے پوسٹر لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر آویزاں ہوتے تو خواتین مڑمڑ کر اس وجیہ و جمیل کرکٹ کھلاڑی کو دیکھتیں۔

اعزازات ترمیم

1958ء میں فضل محمود کی اعلیٰ کارکردگی پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا اور 2012ء میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے ہی ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ 16 اکتوبر 2021ء کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کا نام ایک شفاف ووٹنگ کے ذریعے ہال آف دی فیم لسٹ میں شامل کیا۔ اس ووٹنگ میں 13 ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی نے شرکت کی۔ اس موقع پر چیئرمین پی سی بی رمیز راجا نے کہا کہ فضل محمود عالمی کرکٹ میں پاکستان کے شاندار سفیر تھے۔ اس سے قبل حنیف محمد' عمران خان' جاوید میانداد' وسیم اکرم' وقار یونس اور ظہیر عباس پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہال آف فیم میں شامل ہیں۔

اعداد و شمار ترمیم

فضل محمود نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 34 ٹیسٹ کی 50 اننگز میں 6 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر ایک نصف سنچری کی مدد سے 620 رنز بنائے۔ 60 ان کا زیادہ سے زیادہ سکور تھا۔ ان کو 14.09 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 11 کیچز بھی ان کی کارکردگی کا حصہ ہیں جبکہ فرسٹ کلاس میچز میں 112 میچوں کی 147 اننگز میں 33 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر ایک سنچری اور 13 نصف سنچریوں کی مدد سے انھوں نے 23.35 کی اوسط سے 2662 رنز بنائے۔ بغیر آئوٹ ہوئے 100 رنز ان کا بہترین سکور تھا۔ بولنگ کے شعبے میں انھوں نے 34 میچز کی 53 اننگز میں 3434 رنز دے کر 143 وکٹ حاصل کیے۔ 24.70 کی اوسط سے حاصل کی گئی ان وکٹوں میں 42 رنز کے عوض 7وکٹوں کا حصول کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی جبکہ پورے میچ میں 114 رنز کے عوض 13 وکٹوں تک رسائی ان کے بہترین فگرز تھے۔ 4 مرتبہ 10 سے اس سے زائد وکٹ' 13 دفعہ 5 یا اس سے زائد وکٹ اور 6 مرتبہ 4 وکٹ ان کی اعلیٰ کارکردگی کو نمایاں کرتے ہیں۔ اسی طرح فرسٹ کلاس میچز میں 8837 رنز دے کر انھوں نے 18.96 رنز کی اوسط سے 466 وکٹ شکار کیے۔ 43 رنز کے عوض 9 وکٹ ان کی بہترین کارکردگی تھی۔ انھوں نے 10 سے اس سے زائد وکٹ 8 مرتبہ اور 5 سے اس سے زائد مرتبہ 38 مرتبہ حاصل کرکے خود کو ایک عظیم بولر ثابت کیا۔ فضل محمود وہ پہلے بولر تھے جنھوں نے کرکٹ کی تاریخ میں 4 مختلف ملکوں بھارت' انگلستان' آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک میچ میں 12 یا اس سے زائد وکٹ لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے صرف 22 ٹیسٹوں میں اپنے 100 وکٹ مکمل کیے۔ اتنے کم ٹیسٹوں میں وکٹوں کی سنچری بنانے میں صرف 2 پاکستانی بولرز وقار یونس اور محمد آصف ہی کامیاب ہو سکے[4]

ریٹائرمنٹ کے بعد ترمیم

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد فضل محمود پنجاب پولیس کے ملازم رہے اور ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچے۔ پولیس کی ملازمت کے بعد ان کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا اور وہ طاہر القادری کے معتقد ہو گئے۔انھوں نے 1990ء میں تحریک منہاج القران کی طرف سے الیکشن بھی لڑا تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔

وفات ترمیم

فضل محمود ایک شریف النفس انسان تھے اس لیے کسی بڑے گروپ سے وابستہ نہ ہو سکے ورنہ جس پائے کے وہ بولر تھے اگر ان کی خدمات کا فائدہ اٹھایا جاتا تو وہ بہت سارے فاسٹ بولر بنا سکتے تھے۔ کرکٹ کا یہ نایاب ہیرا جس کی چمک دمک سے گرائونڈ چمکتا تھا 78 سال 101 دن کی عمر میں 30 مئی 2005ء کو منوں مٹی کے نیچے سو گیا جس کی بولنگ کی یادیں آج بھی اوول کے میوزیم میں سجی ہوئی ہیں اور ایک قد آور پوسٹر میں مخصوص بولنگ کا انداز دیواروں کی زینت ہے۔لاہور میں گڑھی شاہو کے علاقے میں ان کے آبائی مکان والی گلی کا نام آج بھی فضل محمود سٹریٹ کے نام سے قائم ہے !!!!!

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم