فقیر خانہ
فقیرخانہ ایک نجی عجائب گھر ہے، جو پچھلی 6 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیر انتظام قائم ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ یہ عجائب گھر بھاٹی دروازہ کے اندر واقع ہے۔ بھاٹی دروازے سے قدیم لاہور میں داخل ہوں تو کچھ فاصلے پر دائیں جانب ایک بڑی سی حویلی نظر آتی ہے، جسے ’’فقیرخانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کو لاہور کا دوسرا بڑا عجائب خانہ تسلیم کیا گیا ہے۔[1] اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں
تبرکات
ترمیمفقیر خانہ کا ایک حصہ دربار عالی کہلاتا ہے، جہاں 27 تبرکات محفوظ ہیں۔ ان تبرکات میں حضور نبی کریمﷺ کا موئے مبارک، چادر، تسبیح، مسواک، کفش اور جائے نماز شامل ہیں۔ کچھ تبرکات حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسین، حضرت امام حسن، حضرت امام زین العابدین، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب ہیں۔ یہاں چار تبرکات ایسے ہیں جو خاندان فقراء کو اپنے مورث اعلیٰ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری سے ورثے میں ملے ہیں، باقی تمام تبرکات وہ ہیں جو شاہ محمد باز سے فقیر سید نور الدین نے تین لاکھ روپے کے عوض حاصل کرکے انھیں ایک خاص عمارت میں محفوظ رکھا اور ان کی دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تقریباً آٹھ لاکھ کی جائداد بھی وقف کی۔
نوادرات
ترمیمفقیرخانہ عجائب گھر میں 7000 نوادرات موجود ہیں، جن کے علاوہ 6000 سکے بھی ہیں۔ سکوں کو ملا کر ان کی تعداد 13000 کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔ فقیر سید نور الدین نے تقریباً 7000 کتب بھی جمع کیں، جن کا ثبوت تاریخ سے ملتا ہے۔ پھر یہ نوادرات ورثہ کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے اور اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا۔ جو کتابیں، نوادرات اور تبرکات بچے انھیں فقیرخانہ میں جمع کر دیا گیا ہے۔ فقیر سید نور الدین نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کروائی تھی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں۔ آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں اور ظروف بہت اہم شاہکار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں۔ لکڑی کے شاہکار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہکار بھی موجود ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے بھی اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔
فقیر خاندان
ترمیمیہ سادات خاندان اٹھارویں صدی میں اوچ شریف سے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں اور پھر لاہور آ کر آباد ہوا۔ اس دور میں انھوں نے بھاٹی دروازہ سے باہر ایک مدرسہ قائم کیا، جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ تکیہ غلام شاہ کے نام سے مشہور تھا۔ نوادرات کا یہ خزانہ نسل در نسل منتقل ہونے کے باوجود بالکل محفوظ ہے۔ فقیر سید نور الدین نے اپنے بیٹے فقیر سید قمر الدین کو دیا اور انھوں نے اپنے بیٹے فقیر سید جلال الدین کو دیا اور اس میں اضافہ بھی کیا۔ اس کے بعد فقیر سید جلال الدین نے اپنے بیٹے فقیر سید مغیث الدین کو دیا۔ اس وقت ان کے بیٹے فقیر سید سیف الدین اس عجائب گھر کے انچارج ہیں۔
نوادرات سے محبت اس خاندان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ فقیر سید نور الدین کے بعد یہ نوادرات جس کے بھی حوالے ہوئے اس نے نہ صرف پوری ذمہ داری سے ان کی حفاظت کی، بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا۔ اس طرح تقریباً اڑھائی سو سال سے یہ خاندان ان تبرکات کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
مہاراجا رنجیت سنگھ
ترمیمیہ خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کا سرکاری معالج تھا اور مہاراجا نے خوش ہوکر انھیں بیش بہا اور قیمتی نوادرات عطا کیے، جنہیں لاہور کے فقیرخانہ میوزیم میں رکھا گیا ہے۔[2]
مہاراجا رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ بچپن سے ہی خراب تھی، جب دوسری آنکھ بھی خراب ہونے لگی تو اس نے شاہی حکماء کو علاج کے لیے طلب کیا۔ ان حکیموں میں خاندان سادات کے بزرگ حکیم فقیر سید غلام محی الدین بھی شامل تھے، جنھوں نے رنجیت سنگھ کو بتایا کہ ان کے بیٹے فقیر سید عزیزالدین ان کا علاج کریں گے۔ ان کے ہمراہ حکیم حاکم رائے اور حکیم بشن داس بھی تھے۔
جب مہاراجا کا علاج شروع ہوا تو فقیر سید عزیزالدین کی شخصیت سے متاثر ہو کر مہاراجا نے ان سے کہا کہ وہ حکومتی معاملات میں بھی اس کی معاونت کریں۔ سید عزیزالدین دیوان تھے وہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی عدالت میں رہے، مہاراجا ان کی خدمات سے متاثر ہوا۔ فقیر سید عزیزالدین کے دونوں چھوٹے بھائی فقیر سید امام الدین اور فقیر سید نور الدین بھی ان کے ساتھ تھے، ان کی ذہانت سے متاثر ہو کر فقیر سید نورالدین کو لاہور کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ یہ بھی سب دیوان تھے، اس دور میں زیادہ نوادرات اکٹھے ہوئے، البتہ تبرکات تو خاندانی طور پر پہلے سے ورثہ میں چلے آ رہے تھے۔
عجائب گھر کا آغاز
ترمیم1901ء میں فقیر خانہ کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا، آج بھی دنیا کے مختلف خطوں سے لوگ اسے دیکھنے کو آتے ہیں۔ فقیرخانہ میں رکھی سیاحوں کی ڈائری کے مطابق اب تک تین لاکھ سے زائد افراد اس عجائب گھر کو دیکھ چکے ہیں۔ 1974ء میں سید مغیث الدین نے 500 سے زائد نوادرات لاہور عجائب گھر کو بطور امانت دے دیے تاکہ محفوظ رہیں اور خاص و عام ان سے مستفید ہوسکیں۔ فقیر سید مغیث الدین کے انتقال کے بعد ان کی بیگم کشور جہاں نے فقیرخانہ عجائب گھر کی اپنے بچوں کی طرح حفاظت کی۔ ایک ایک چیز کو اس کی اصلی حالت میں رکھنا، موسمی اثرات اور دیمک سے محفوظ رکھنا، بڑے بڑے اداروں کے بس میں نہیں ہوتا لیکن بیگم کشور جہاں نے بڑی جانفشانی سے ایک ایک چیز کی حفاظت کی اور ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
فقیرخانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ سکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات اور ان کے فرامین بھی موجود ہیں۔ چار سو سال قبل ازمسیح کے سکے اور گندھارا آرٹ کے نمونے بھی موجود ہیں۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب فقیرخانہ: تبرکات اور نوادرات سے مالا مال عجائب گھر روزنامہ دنیا، 7 جولائی 2014ء
- ↑ بی بی سی: پاکستان میں ای میوزیم