گندھارا آرٹ یا گندھارا فن (انگریزی: Art Gundhara یا Greco-Buddhist art) گندھارا اور بدھ مت تہذیب کا فنکارانہ اظہار اور کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان ایک ثقافتی اشتراک ہے جس کا ارتقا وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پزیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7 ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔

پس منظر

ترمیم

گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔[1] گندھارا صوبہ سرحد کے ایک حصے کا نام تھا، مگر یہ چھوٹا سا علاقہ اپنی شاندار تہذیب اور پُر امن ثقافت کے اثرات روس کے دریائے آمو تک پہنچاتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔ مانکیالہ کا اسٹوپا دوہزار سال پرانا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ دبلیو ایف کیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلے ہوئے گندھارا علاقے کی آخری سرحد مانکیالا کا اسٹوپا تھی۔[2]

موریاعہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ ان میں باریت و بدھ گیا، متھرا اور گندھارا قابل ذکر ہیں۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا اور بعد میں یہ مدت تک مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی۔ چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں پر گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ ان مجسموں میں تفصیلات پر بہت زور دیا گیا ہے، تاکہ انسانی جسم کی حالت سے بالکل مشابہ ہوں، مثلاََ پٹھوں تک کو دکھلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح لباس کی ترتیب کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی۔[3]

ماہرین کا خیال ہے گندھارا آرٹ پر یونانی اور رومی اثرات بھی ہیں، بلکہ بعض نے اس کو بجائے گندھارا کے، ہندی یونانی آرٹ بھی کہا ہے۔ بہرحال اس میں یہ کوئی شک نہیں ہے کہ باخترکے یونانی حکمرانوں کے زمانے میں اس علاقے میں یہ اثرات ضرور قبول کیے ہیں؛ لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس اسکول کے جو نمونے دستیاب ہوئے ہیں، ان میں بدھ مت کی روایات یا گوتم بدھ کے مجسمے ہیں اور اس فن کے سب سے قابل تعریف مجسمے ہم کو گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے یہ چینی ترکستان کے راستے چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقی بعید تک پہنچ گیا اور ان علاقوں کے آرٹ پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔[4]

کہا جاتا ہے کہ پہلے مہاتما بدھ کا مجسمہ نہیں بنایا جاتا تھا اور اس کی پرستش کا رواج نہیں تھا۔ پھر کنشک کی چوتھی کونسل بلائی گئی جو کشمیر کونسل کہلاتی ہے، اس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے اور فیصلہ کیا گیا کہ روم و یونان کے دیوتاؤں کی طرح مہاتما بدھ کے مجسمے تراشے جائیں، تاکہ مجسمے دیکھ کر خوبصورتی اور امن کا احساس ہو ناکہ بدہستی اور کراہیت کا۔ چنانچہ روایت ہے کہ یونان سے چند مجسمہ سازوں کو بلوایا گیا تاکہ وہ مقامی مجسمہ سازوں کو اپنے طریق سے آگاہ کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ گندھارا کا مہاتما بدھ کا مجسمہ دراصل اپالو دیوتا کی کاپی ہے، لیکن ان میں وہ پوتراور امن منقود ہے جو گندھارا کے تراشیدہ مجسموں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گندھارا کا بت تراش تفصیل میں جاتا ہے، وہ ناخن کے برابر پتھر سے ایک شاہکار تخلیق کرلیتا ہے، جب کہ یونانی بڑے بڑے مجسمے بنانے پر یقین رکھتے تھے۔ یہ نہیں کہ گندھارا میں بڑے بڑے مجسمے نہیں بنائے گئے، بامیان کے عظیم مجسمے اس دور کی یادگار ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔[5]

اسٹوپے

ترمیم

گوتم کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج ہو گیا اور یہ روایت مشہور ہو گئی کہ چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت بدھ نے کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ جہاں بدھ پیدا ہوئے تھے، دوسرے گیا کے قریب درخت جس کے نیچے انھیں گیان حاصل ہوا تھا، تیسرا بنارس کا ہرن باغ جہاں اُنھوں نے دھرم کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی، چوتھا کسی نگر یا کسی ناراہ جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔[6]

اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا۔ چنانچہ اس دور کی فنی تخلیقات کی محرک وہ گہری عقیدت تھی جو ہر طبقے میں گوتم بدھ کی زات اور تعلیمات سے تھیں۔ گوتم بدھ کے زمانے میں اس کا اثر مظلوم و مفلس طبقوں تک محدود رہا۔ بھکشو بھی عوام کی سی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کا نہ گھر بار ہوتا تھا نہ کوئی اثاثہ۔ وہ گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے اور بھیک سے پیٹ بھرتے اور رات ہوتی تو کسی درخت کے نیچے سو رہے ہوتے۔ لیکن رفتہ رفتہ بدھ مت کی رسائی درباروں میں ہونے لگی اور بالاآخر اشوک نے بھی اسے قبول کر لیا تو بدھ مت میں امیری کی شان جھلکنے لگی۔ اشوک نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے اور ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے تھے۔ ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بھکشو مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے دہار بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس کے لیے وقف کردی گئی۔[7]

جب یاتریوں کی آمد و رفت شروع ہوئی تو ساکیہ منی کے نروان کی جھوٹی سچی داستانیں لکھی جانے لگیں۔ طرح طرح کی رسموں نے رواج پایا۔ بھکشوؤں نے یاترا کے ضابطے اور رسموں کی ادائیگی کے قائدے مقرر کیے۔ اب وہ جاتریوں کی پراتھنا مہاتمہ بدھ کے حضور پہنچانے والے واحد وسیلہ تھے۔ گوتم اور اس کے چیلوں کی مورتیاں بنے لگیں۔ ساہکاروں گنڈے تعویز اور پھول بیچنے والوں کی دکانیں کھل گئیں۔[7]

مشرقی ہند میں قبریں گول ہوتی تھیں اور اسٹوپ کہلاتی تھیں۔ گوتم بدھ سے پہلے قبروں کے نشان کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، اس لیے ممکن تھا کہ استوپ خاص گوتم کے مدفن کی علامت دی جائے اور اس کی شکل کو ایک دینی حیثیت حاصل ہو گئی۔ گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے اسٹوپ بنانا بڑے ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ عموماً ہر اسٹوپ کے ساتھ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے دھار (خانقا) اور ان کے اجتماع کے لیے ایک چیتا (عبادت گاہ) بنوائی جاتی تھی۔ شروع میں اسٹوپ نیم دائرے کی شکل کا ٹھوس گنبد ہوتا تھا، جو قبر کی طرح بغیر کرسی کے بنایا جاتا تھا اور اس کے بیچ میں تابوت کی جگہ وہ آثار رکھے جاتے تھے جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی۔ اسٹوپ کی چوٹی پر ایک چوکور جنگلا ہوتا تھا اور اس کے اوپر ایک چتر۔ چوں کہ بدھوں میں جس چیز کا احترام کیا جاتا تھا اس کے گرد طواف کیا جاتا تھا، اس لیے اسٹوپ کے گرد ایک گول چبوترا بنادیا جاتا تھا۔ بعد میں اسٹوپ کے مزید احترام کے خیال سے ایک جنگلے کے ذریعے اس کی احاطہ بندی کی جانے لگی۔ اس جنگلے کے چاروں طرف سمتوں کے لحاظ سے دروازے ہوتے تھے۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو اسٹوپوں کا ہوتا تھا۔ یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کے لیے لان رکھا گیا تھا۔[8]

اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کرا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ چنانچہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیے گئے۔ چنانچہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے۔ زائرین اسٹوپے کے گرد طواف کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسٹوپے کی گولائی پر نظر رکھتے تھے اور اس پر آویزاں مجسموں کو دیکھتے جاتے تھے، جن میں مہاتمہ بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار بیان کیے جاتے تھے۔ یہ اسٹوپے مہاتمہ بدھ کی زندگی کے بارے میں پھتریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں۔ جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔[5]

گندھارا آرٹ کے ادوار

ترمیم

گندھارا آرٹ کو تاریخی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور جس کی خصوصیت یونانی آرٹ کی نقالی ہے پہلی صدی عیسوی کے آغاز تک جاری رہا۔ پارتھیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد گندھارا میں مقامی عنصر ابھرنے لگا۔ یونانی آرٹ میں بدھ مت کے عقائد و واقعات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش شروع ہوئی اور مے کے پیالوں کی جگہ کنول کے پھول تراشے جانے لگے۔ یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم کی مورتیاں بنے لگیں۔ ابھی پہلی صدی ختم نہیں ہوئی تھی کہ گندھارا کے فنکاروں نے یونانیوں کے سکھائے ہوئے فن کو مقامی ضرورتوں کے تابع کر لیا اور ان کی تخلیقات میں مقامی روح کی تڑپ آگئی۔ گندھارا کا یہ دوسرا دبستان فن ساسانیوں کے حملے (032ء) تک برقرار رہا۔ اس دور میں فن کاروں نے مجسموں اور گل کاریوں کے لیے پتھر استعمال کر رہے تھے۔ ابھرواں چونا کاری کا ابھی رواج نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ گندھارا، سرحد سوات اور افغانستان میں پتھر کے مجسمے کثرت سے برآمد ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا ان علاقوں میں صنم تراشی کی فیکٹریاں کھلی ہوئی تھیں یا انھیں بدھ کی پرستش کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ دوسری خصوصیت اس دور کی یہ تھی کہ مجسموں میں عموماََ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات خاص کر کپل وستو کی زندگی کے واقعات کی منظرکشی کی جاتی تھی۔ مثلاََ ایک سل پرگوتم بدھ کی کپل وستو سے اپنے خادم کے ہمراہ روانگی کا منظر اتارا گیا ہے۔ دوسرے ایک منظر میں گوتم بدھکا گھوڑا اکن نہکا آقا سے رخصت ہوتے وقت جھک کر ان کے قدم چوم رہا ہے اور بدھ کے تین چیلے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ اس قسم کی منظر کشی تیسرے دور میں بھی ملتی ہے۔[9]

گندھارا آرٹ کا تیسرا دور یا دبستان فن تیسری اور چوتھی صدی عیسوی پر محیط ہے۔ یہ کشنوں کا دور ہے۔ اس دور میں گندھارا آرٹ کو بہت ترقی ہوئی اور اس تیسرے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ فن کاروں نے سنگ تراشی ترک کردی۔ مٹی اور چونے کی ابھرواں موتیاں اور نقش و نگار بنانے لگے۔ چونے کی مورتیاں اور پھلکاریاں عمارت کی بیرونی سمت میں ابھار دی جاتی تھیں، جہاں ان کے بارش میں خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا تھا۔ البتہ اندو نی حصہ میں کچی مٹی استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ گندھارا آرٹ کا سب سے حسین شاہکار گوتم بدھ کی وہ مورتی ہے جو کالواں اسٹوپا سے دریافت ہوئی تھی، اس منظر میں گوتم اپنے منڈوا میں پالتی مارے بیٹھا ہے دو چیلے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ یہ کچی مٹی کے ہیں لیکن سر پکی مٹی کا ہے اور دھر کچی مٹی کا بنا ہوا ہے۔ جب ہنوں ے اس اسٹوپا کو آگ لگائی تو سر پک گیا۔ دوسری خصوصیات اس دور کی یہ ہے کہ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات کی منظر کشی ترک کردی گئی اور فقط گوتم کی شبیہیں بنانے لگے۔ کسی منظر میں گوتم کو ارادت مندعقیدت کا خراج پیش کرتے دیکھلائے گئے ہیں، کسی منظر میں گوتم پر پھولوں کی بارش ہو رہی ہے اور کسی منظر میں گوتم درمیان میں بیٹھیے ہیں اور جانور گھاس چر رہے ہیں۔[10]

کشن دور میں بدھ مت نے بہت ترقی کی جگہ جگہ اسٹوپے اور دہار قائم ہو گئے۔ پشاور کا مشہور اسٹوپا کشنوں کے دور میں کنشک نے بنایا تھا۔ یک لخت وحشی ہنوں کی آندھی آئی اور گندھارا کا علاقہ جلتی چتا بن گیا۔ ہنوں نے شہروں اور بستیوں کو مسمار کیا اور دہاروں میں آگ لگا دی۔ ہزاروں لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔[11] رہی سہی کسر محمود غزنوی کے حملوں نے پوری کردی۔

نگار خانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ صفحہ 135
  2. مستنصر حسین تارڑ۔ سفر شمال کے، صفحہ 35
  3. ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 197، 198
  4. ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ صفحہ 198، 199
  5. ^ ا ب مستنصر حسین تارڑ۔ سفر شمال کے۔ صفحہ 35، 36
  6. پرفیسر محمد مجیب۔ تمدن ہند قدیم، صفحہ 831
  7. ^ ا ب سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ صفحہ 141
  8. پرفیسر محمد مجیب۔ تمذن ہند قدیم، صفحہ 138۔139
  9. سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ صفحہ 141، 142
  10. سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ صفحہ 144، 146
  11. سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ صفحہ 146
  • Along the ancient silk routes: Central Asian art from the West Berlin State Museums۔ New York: The Metropolitan Museum of Art۔ 1982۔ ISBN:9780870993008 {{حوالہ کتاب}}: |title= میں بیرونی روابط (معاونت)
  • احسان علی اور محمد نعیم قاضیGandharan Sculptures in Peshawar Museum، ہزارہ یونی ورسٹی، مانسہرہ۔
  • Alfred Foucher, 1865-1952; Ecole française d'Extrême-Orient, L'art gréco-bouddhique du Gandhâra : étude sur les origines de l'influence classique dans l'art bouddhique de l'Inde et de l'Extrême-Orient (1905), Paris : E. Leroux.
Timeline and influence of Greco-Buddhist art
ادوار شمالی ایشیا وسطی ایشیا گندھارا بھارت جنوب مشرقی ایشیا
5 صدی قبل مسیح Birth of بدھ مت
 
4 صدی قبل مسیح Occupation by
سکندر اعظم (330 BCE)
2-3 صدی قبل مسیح سلوقی سلطنت
(300-250BCE)

----------
سلطنت یونانی باختر
(250-125 BCE)
(Hellenistic art)

 

موريا
(321-185 BCE)
(Aniconic art)

 
 

Introduction of Buddhism to میانمار
1-2 صدی قبل مسیح چین, ہان خاندان
First mention of Buddhist statues brought from Central Asia (120 BCE)

 

مملکت يونانی ہند
(180 BCE-10 CE)
Buddhist symbolism and proselytism

    Free-standing Buddhas
(Foucher &al.)
   

Sunga Empire
(185-73 BCE)

   

1 صدی قبل مسیح یوہژی
Nomadic invaders, who became Hellenized and propagated Buddhism
Indo-Scythians
(80-20 CE)


 
 
 

1 صدی عیسوی Official start of چینی بدھ مت. Arrival of statues of the Buddha in 70 CE. ہند-پارتھی سلطنت

   

Art of Mathura

 

1-3 صدی عیسوی
First known Buddha statues in China (later Han, c.200 CE)
کشان سلطنت
(10-350 CE)

     

4-6 صدی عیسوی تاریم طاس
   
چین
  
Start of جاپان میں بدھ مت
باختر
فائل:GBA1(trimmed).jpg
گپتا سلطنت
(320-550 CE)

     

مہایان Buddhism in تھائی لینڈ, کمبوڈیا and ویتنام
7-13 صدی عیسوی جاپان
  
اسلامic invasions Pala Empire
(11th century)
 
Southeast Asia
 
 
Introduction of تھیرواد from سری لنکا in the 11th century