ضلع قصور
ضلع قصور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے، اس کا مرکزی شہر قصور جو ضلعی دار الحکومت بھی ہے، ضلع کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے یہ لاہور کی ایک تحصیل تھا، یکم جولائی 1976ء کو ضلع لاہور سے تحصیل قصور کو علاحدہ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا، اس کے بعد نئی طرز کے بنیادی انتظامی ادارے، کچہریاں اور یونین کونسل قائم ہوئے، اس ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تحصیل قصور، تحصیل پتوکی، تحصیل چونیاں اور تحصیل کوٹ رادھا کشن، اس ضلع کی کل آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 34 لاکھ 55 ہزار افراد اور کل رقبہ 3995 مربع کلومیٹر ہے، مسلمان 95.4 فیصد اور مسیحی 4.4 فیصد ہیں، یہاں لوگوں کی 88.2 فیصد مادری زبان پنجابی ہے، مہاجراردو بولنے والے 6.2 فیصد اور باقی د یگر ہیں، عام طور پر شلوار قمیص پہننے کا عام رواج ہے، دہی علاقوں میں مرد شلوار کی بجائے چادر باندھتے ہیں، شرح خواندگی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 32.1 فیصد تھی مگر اب کافی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں حکومت کافی تعلیمی سہولتیں فراہم کر رہی ہے جبکہ نجی تعلیمی ادارے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔
ضلع قصور | |
---|---|
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت | قصور |
تقسیم اعلیٰ | لاہور ڈویژن |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 31°00′00″N 74°10′00″E / 31°N 74.166666666667°E |
رقبہ | 3995 مربع کلومیٹر |
مزید معلومات | |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1174623 |
درستی - ترمیم |
محل وقوع کے اعتبار ضلع قصور 30–40 درجے سے 31–20 درجے عرض بلد اور 73–38 درجے سے 74–41 درجے طول بلد پر واقع ہے ۔سطح سمندر سے اوسط بلندی 218 میٹر (715.22 فٹ) ہے، اس کا کل رقبہ 3995 مربع کلومیٹر ہے، صوبہ پنجاب کا سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کے جنوب کی طرف دریائے ستلج جو بین الاقوامی ہندوستانی سرحد کے ساتھ ساتھ بل کھاتا ہوا ضلع قصور سے نکل کر پنجند کے مقام پر دریائے سندھ سے مل جاتا ہے، شمال مغرب میں دریائے راوی اس ضلع کی آخری حد کا کام دیتا ہے جس پر بلوکی ہیڈورکس یہاں کا مشہور اور تفریحی مقام ہے، مشرق میں بھی بین الاقوامی ہندوستانی سرحد ہے جبکہ مغرب میں ضلع اوکاڑہ کی سرحد ہے، شمال کی طرف ضلع لاہور اور شمال مغرب کی طرف راوی دریا کے پار ضلع شیخوپورہ واقع ہے۔ [1]
پنجاب کا ایک قدیم دریائے بیاس جو اب موجود نہیں ہے لیکن اس کی پرانی گذر گاہ کے آثار مشرق سے مغرب کی طرف ضلع قصور کے وسط میں اب بھی موجود ہیں جس نے قدرتی طور پر اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، اس گذر گاہ کا شمالی علاقہ جنوبی علاقے کی نسبت اونچا ہے جس کی اوسط اونچائی تقریباً ساڑھے پانچ میٹر ہے، شمالی علاقہ اونچا ہونے کی وجہ سے ماجھا اور جنوبی علاقہ ہٹھاڑ کہلاتا ہے، ماجھا کے علاقے میں دریائے بیاس کے ساتھ ساتھ مٹی کے بہت بڑے بڑے ٹیلوں کا ایک وسیع سلسلہ بھی موجود ہے، قصور قدیم شہر ماجھا کے جنوب مغربی سرے پر آباد ہے ۔
قصور کے لوگوں کا تحریک پاکستان میں بھی نمایاں کردار رہاہے،آزادی سے پہلے اور بعد کوئی تحریک ایسی نہیں ہے جس میں اس دھرتی کے سپوتوں نے دفاع وطن اور بقائے ملت کے لیے قربانی نہ دی ہویہ ہماری ملی تاریخ کا ایک ایساکردا رہے جس نے اسلامی تہذیب و تمدن اور مسلم ثقافت کی ترقی اور اس کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے، 23مارچ 1940ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی جو بعد میں قرارداد لاہور اور قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی، شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کی پیش کردہ اس قرارداد میں حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے ایسے علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار ریاست قائم کی جائے جب اجتماع کے سامنے منظوری کے لیے اس کو پیش کیا گیا تو جذبہ ایمانی سے معمور مسلمانوں کے اس بحر بے کنار کے اندر تلاطم پیدا ہو گیا اور انھوں نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ فضاؤں میں ہاتھ لہرا لہرا کر قرارداد کی منظوری دی، ہر طرف ایک دیدنی منظر تھا جس طرح ہندوستان بھر کے کونے کونے سے مسلمان بوڑھے، جوان اور بچے بلکہ خواتین تک اس تاریخی اجلاس میں شریک ہوئے تھے، قصور کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے غیور مسلمان بھی اپنے تمام تر جوش ایمانی کے ساتھ اس اجلاس میں شریک تھے۔
ضلع قصور میں ہاتھ سے لگایا دنیا کا سب سے بڑا جنگل چھانگا مانگا تحصیل چونیاں میں واقع ہے، جو بارہ ہزار ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس میں بہت سے قیمتی درخت اگائے گئے ہیں۔ جنگل میں ایک خوبصورت تفریحی پارک اور جھیل سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے، یہ جنگل مختلف قسم کے جانوروں کی پناہ گاہ کا کام بھی دیتا ہے، چھانگا مانگا کی لکڑی پورے ملک میں مشہور ہے، یہاں پر شہتوت کا درخت بہت کثرت سے ہے جس کے پتوں پر ریشم کے کیڑے پال کر بہترین قدرتی ریشم حاصل کیا جاتا ہے ،یہاں سے سالانہ ٹنوں کے حساب سے شہد اکٹھا ہوتا ہے ۔
اس ضلع کی مشہور اور بڑی ذاتیں راجپوت، آرائیں، جٹ، میؤ، ڈوگر، انصاری، شیخ اور پٹھان ہیں ایک اندازے کے مطابق راجپوت 32 فیصد، آرائیں 30 فیصد، جٹ 10 فیصد اور ڈوگر 4 فیصد کے لحاظ سے آباد ہیں۔ انصاری، شیخ اور پٹھان تناسب کے لحاظ سے بہت کم ہیں جو زیادہ تر شہری آبادی کا حصہ ہیں۔ مشہور ذاتوں کے لوگ اکثر دیہی علاقہ میں رہتے ہیں اور کھیتی باڑی کے پیشہ سے منسلک ہیں، ان قوموں کے ساتھ ساتھ مختلف پیشوں سے متعلق لوگ بھی یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے، ان پیشہ ور لوگوں میں لوہار، ترکھان، کمھار، موچی اور جولاہے وغیرہ زیادہ اہم ہیں، یہ لوگ زیادہ تر دیہاتوں میں رہتے ہیں ۔
دیہی ضلع ہونے کی وجہ سے 78 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پزیر ہے جن کی اکثریت زراعت پیشہ ہے، زرخیز زمینیں اور عمدہ نہری نظام ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اراضی نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے، ہٹھاڑ میں آبپاشی کے لیے ٹیوب ویل بھی ایک ذریعہ ہیں مگر ماجھا کا زمینی پانی اکثر کڑوا ہونے کی وجہ سے بارش یا نہریں ہی آبپاشی کے لیے کار آمد ہیں، بڑی بڑی فصلوں میں گندم، چاول، کماد، کپاس، مکئی اور چارہ وغیرہ شامل ہیں، سبزیاں بھی بہت زیادہ کاشت ہوتی ہیں اب دیہات سے بڑے قصبوں اور شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے لوگ مویشی بھی شوق اور کثرت سے پالتے ہیں جن سے گوشت اور دودھ کی ضرورت پوری کی جاتی ہے،
آبادی کے تناسب سے صحت کی بنیادی سہولتیں بھی بہت کم ہیں ، تین ہسپتال ، 25 ڈسپنسریاں ، 12 دیہی مراکز صحت ، 8 زچہ بچہ ہیلتھ سنٹر اور ایک ٹی بی سنٹر پورے ضلع کی ضروریات کے لیے موجود ہے۔
ضلع قصور کی تحصیلیں
اسے انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیاہے، جو درج ذیل ہیں۔
ضلعی انتظامیہ
ڈسٹرکٹ کوآرڈینٹر آفسر سائرزہ رضا اور ضلعی چئیرمین رانا سکندرحیات ہے [2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ paknewslive.com (Error: unknown archive URL)
ضلع قصور کے قصبے
- ↑ "صفحہ ضلع قصور في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2024ء