حضرت قادر شاہ اولیاء : بھارت کی ریاست آندھرا پردیش، ضلع چتور شہر مدنپلی میں حضرت قادر شاہ اولیاء کا آستانہ ہے۔

حضرت قادر شاہ اولیاء
پیدائشعرب
رہائشمدنپلی , آندھرا پردیش
پیشہتبلیغ اسلام
وجہِ شہرتاشاعت اسلام، تبلیغ اسلام
مذہباسلام

تاریخ

ترمیم

تاریخ : تقریباً 400 سال قبل، شہر مدینہ سے ایک قافلہ ہندوستان کی طرف نکلا تھا۔ اس قافلہ میں اہل بیت سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی موجود تھے۔ یہ قافلہ کی ٹولی ملک ایران سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچی تھی۔ جس کے کئی افراد شمالی ہند میں بس گئے، تو کئی وسطی ہند میں۔ ان میں سے کئی افراد مملکت بیجاپور میں مقیم ہو گئے۔ چند احباب کی ٹولی جنوبی ہند کی طرف رخ کی اور مختلف مقامات پر سکونت اختیار کرلی۔ ریاست کرناٹک، ضلع کولار، شہر چنتامنی کے قریب ایک گاؤں جس کا نام مرغ ملہ ہے وہاں پر ایک بزرگ نے سکونت اختیار کرلی اور اس بزرگ کا آستانہ آج کل اماجان باواجان کی درگاہ کے نام سے مشہور ہے۔ ایک اور بزرگ مرغ ملہ کے قریب نمکانہ پلی میں سکونت اختیار کی۔

چند احباب موجودہ ضلع چتور کی طرف تشریف لائے، ان میں حضرت قادر شاہ اور ان کے بھائی سید میراں شاہ اور ان کے ساتھ کئی احباب نے شہر مدنپلی میں سکونت اختیار کرلی۔ اسی ٹولی کے دو افراد جو بھائی تھے شہر مدنپلی کے قریب نمنپلی میں سکونت اختیار کرلی۔

شہر مدنپلی میں مقیم حضرت قادر شاہ اور سید میراں شاہ تھے۔ ایک اور خاتون شخصیت جن کا نام بی سیدانی ماں تھاوہ بھی یہیں مقیم ہوگئیں۔ ان تمام حضرات کا کام اشاعت اور تبلیغ دین تھا۔ ان احباب کی محنت سے اس علاقے میں اسلامی تہذیب، دینی معلومات رائج اور عام ہونے میں کافی مدد ملی۔

مدینہ سے تشریف لائے حضرات جس جگہ پر مقیم ہوئے اس قصبہ کانام مدینہ واری پلی ہو گیا۔ علاقائی زبان میں اس کا مطلب مدینے والوں کا قصبہ ہے۔

آستانے کی اردو نوازی اور ادبی خدمات

ترمیم

شہر مدنپلی اردو تہذیب کا گہوارہ رہاہے۔ جناب قاضی غلام دستگیر صاحب کی سرپرستی اور جناب سید عبدالعظیم صاحب کی رہنمائی اور قیادت میں حضرت مستعان ولی درگاہ مدنیلی میں مشاعروں کا آغاز ہوا اور حضرت قادر شاہ اولیاء کے منتظمین حضرات نے ان مشاعروں کے سلسلوں کو پروان چڑھایا۔ جناب سید نثار احمد اور قمر امینی کی کاوشوں سے یہاں کے مشاعرے پروان چڑھے۔ لیکن حقیقت میں اس کا سہرا حضرت قادر شاہ اولیاء درکاہ کے ذمہ دار جناب مکاندار سید ھاشم صاحب کے سر جاتا ہے۔ ان کی کاوش اور محنتوں کی وجہ سے یہ روایت آج بھی برقرار ہے۔ مکاندار سید ھاشم صاحب خدمت خلق، آستانے کی سرپرستی اور اردو نوازی کے لیے کافی مشہور اور مقبول شخصیت ہیں۔ پچھلے 12 سال سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ مشاعروں کا انعقاد، ادبی نشستوں کا احتمام، قوم اور برادری کے سماجی کام یہاں پر انجام ہوتے آ رہے ہیں۔

یہاں پر کل ہند مشاعرے انعقاد پاتے ہیں۔ یہاں کے مشاعروں میں ملک بھر کے مشہور شعرا کرام شرکت کرتے ہیں۔ علامہ شارق جمال کو اس آستانے سے کافی انسیت تھی۔ ملک کے مشہور شعرا عقیل نعمانی، نذر ایٹوی، میسم گوپالپوری، عظم شاکری وغیرہ یہاں پر اپنا کلام پڑھ چکے ہیں۔

وفات اور تدفین

ترمیم

ان کی حیات کے بعد ان حضرات کی تدفین اسی قصبہ کے قبرستان میں ہوئی۔ یہ قبرستان اس قصبہ کے باہر ہوا کرتا تھا، لیکن آج مدنپلی شہر ہو گیا ہے تو وہی قبرستان کا علاقہ شہرکا مرکزی حصہ بن گیا ہے۔ اس علاقہ کا نام آج بنگلور بس سٹانڈ ہے اور اس آستانے اور قبرستان کا نام بڑا مکان ہے۔

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  • تاریخ آستانہ قادرشاہ اولیاء و بی سیدانی ماں - سالانہ عرس روئداد، بڑا مکان، مدنپلی۔
  • تاریخ مدنپلی - از - سید عبد العظیم

بیرونی روابط

ترمیم