قلت (انگریزی: Scarcity) اشیاء کی محدود موجودگی ہے، جن کی بازار میں مانگ ہے اور جو عام طور سے مطلوب ہوتے ہیں اور دیکھے جاتے ہیں۔ قلت کے دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس وسائل کی کمی ہے اور مصنوعات کی خریداری کرنے سے قاصر ہے۔[1] قلت کی عین ضد کثرت ہے۔

مصنوعات

ترمیم

مصنوعات عام طور سے وہ اشیاء ہوتی ہیں جو کسی صنعت کے ذریعے یا قدرتی وسائل سے تیار کیے کیے جاتے ہیں۔ کئی ملکوں میں وسائل کی کمی کے باعث کچھ اشیاء کی تیاری ہی مشکل بن جاتی ہے۔ انڈونیشیا سے آزاد ہونے والا ملک مشرقی تیمور کے نوبل انعام یافتہ صدر جوز ریموس ہورٹا نے 2011ء میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انھوں نے افیملک ڈیری فارم کا دورہ کیا جو تین کیبوتسوں کی مشارکت سے بنا ہے۔ دورے کے دوران انکشاف ہوا کہ مشرقی تیمور میں دودھ دینے والی گائیں نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس ملک کو دودھ پاؤڈر یا کنڈینسڈ دودھ آسٹریلیا یا انڈونیشیا سے ہی حاصل ہوتا تھا۔ اس مسئلے میں مشرقی تیمور نے اسرائیل سے مدد کی درخواست کی تاکہ وہاں پر اپنی ڈیری قائم ہو اور اس طرح ملک کی اپنی معیشت کو تقویت پہنچ سکے۔ [2] اس طرح سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرقی تیمور چو پایوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے دودھ یا اس سے تیار مصنوعات بنانے سے قاصر ہے اور وہ اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

قدرتی وسائل کی بربادی

ترمیم

کئی بار قدرتی وسائل کو انسانی ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش میں برباد کر جاتا ہے، جس سے ان کی قلت ہو جاتی ہے۔ اس میں غیر دانش مندانہ اقدامات کے علاوہ نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔

بھارت کے دار الحکومت نئی دہلی میں کئی وجوہ سے زبر دست ہوائی آلودگی پھیلی ہوئی ہے۔ ان میں سر فہرست پڑوسی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کی جانب سے دھان سے فصل کے کاٹنے کے بعد کھیتوں کا جلانا، بے روک ٹوک ٹریفک، جگہ کے تناسب سے زیادہ آبادی، تعمیرات، صنعتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔[3] یہ دراصل انسان کو زندہ اور صحت مند رکھنے کی بنیادی چیز کی قلت ہے۔

کیپ ٹاؤن پانی کا بحران ایک تاریخی آبی قلت تھی جو جنوبی افریقہ کے دار الحکومت کیپ ٹاؤن کو وسط 2017ء سے لے کر 2018ء تک بری طرح سے متاثر کر چکی ہے۔ [4][5][6].[7]


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Siddiqui، A.S. (2011)۔ Comprehensive Economics XII۔ Laxmi Publications Pvt Limited۔ ISBN:978-81-318-0368-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-11-20 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |ref=harv غير صالح (معاونت)
  2. افیملک (16/02/2011)۔ "President of East Timor visited an afimilk dairy farm in Israel"۔ افیملک۔ مورخہ 2019-12-22 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2018ء {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= و|date= (معاونت)
  3. ٹائمز آف انڈیا (15/11/2017)۔ "Top 8 main causes for air pollution in Delhi"۔ ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2019ء {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  4. Cassim، Zaheer (19 جنوری 2018)۔ "Cape Town could be the first major city in the world to run out of water"۔ USA Today
  5. Poplak، Richard (15 فروری 2018)۔ "What's Actually Behind Cape Town's Water Crisis"۔ The Atlantic۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-02-22
  6. York، Geoffrey (8 مارچ 2018)۔ "Cape Town residents become 'guinea pigs for the world' with water-conservation campaign"۔ The Globe and Mail
  7. "Day Zero, when is it, what is it and how can we avoid it"۔ City of Cape Town