قومی مفاہمت فرمان 2007ء

ایک پاکستانی سیاسی معاہدہ
اصطلاح term

قومی
مفاہمتی
فرمان/حکم

national
reconciliation
ordinance

قومی مفاہمتی فرمان 2007ء (این آر او) اس صدارتی فرمان کو کہتے ہیں جو پرویز مشرف نے امریکی ایماء پر سیاسی مفاہمت ممکن بنانے کے لیے جاری کیا۔[1] اس قانون کے مطابق یکم جنوری 1986ء سے 12 اکتوبر 1999ء کے دوران مالی لوٹ کھسوٹ میں ملوث سیاست دانوں کو حکومت "قومی مفاہمت" کے جذبہ کے تحت معاف کر سکے گی۔ اس مفاہمت کے نتیجے میں تمام مالی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات حکومت پاکستان نے واپس لے لیے۔ "مفاہمت" کا یہ ہتھکنڈہ جنوبی افریقا کی سیاست سے مستعار لیا گیا تھا جس میں سیاہ فام حکومت نے سابقہ گورے حکمرانوں کے ظلم معاف کر دیے تھے۔

۔[2][3] عوامی اور سیاسی مخالفت کے پیش نظر حکومت نے اس قانون کا مسودہ پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

مستفیدین

حکومت کے مطابق آٹھ ہزار سے زائد افراد نے اس فرمان سے فائدہ اُٹھایا جن میں سرکردہ الطاف حسین، رحمان ملک، حسین حقانی شامل ہیں۔[4] صدر پاکستان کے علاوہ پاکستان کی مجلس قانون ساز کے 186 اراکین نے اس سیاہ صدارتی حکم سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے جرائم (جن کی اکثریت کرپشن کے مقدمات پر مشتمل ہے ) معاف کرا‎ئے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے 152 اور سینٹ کے 34 اراکین شامل ہیں ان سب "معزز" اراکین کا تعلق متحدہ قومی موومنٹسے ہے۔

متروک اور مقدمہ

عدالت عظمی کی طرف سے حکومت کو اس فرمان کو پارلیمان سے 28 نومبر 2009ء تک منظور کروانے کی مہلت گذر جانے کے بعد یہ فرمان "متروک" ہو گیا۔[5] دسمبر 2009ء میں عدالت عظمی کے منصف اعظم افتخار چودھری نے فرمان کے بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے بڑا محکمہ تشکیل دینے کا حکم دیا۔[6]جیو ٹی وی کی اطلاع کے مطابق برطانیہ میں پاکستانی سفیر واجد شمس الحسن نے خفیہ کارروائی کے ذریعہ سوئٹزرلینڈ میں بینظیر اور آصف علی زرداری کے خلاف سابقہ مقدمہ سے متعلق دستاویزات کے 12 ڈبے ضائع کرنے کی غرض سے سوئس حکام سے حاصل کیے ہیں، کیونکہ خدشہ تھا کہ فرمان کی متروکی کے بعد یہ مقدمات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔[7] 7 دسمبر 2009ء کو قومی احتسابی ادارہ کی طرف سے عدالت اعظمی میں "قومی مفاہمتی حکم" کے مستفدین کی فہرست پیش کی گئی۔[8] مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے سرکاری وکیل نے خیال ظاہر کیا کہ ملکی فوج اور CIA جمہوری حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ "قومی مفاہمتی فرمان" کا دفاع نہیں کر رہے۔ زرداری نے ایک اخباری بیان میں اس امید کا اظہار کیا کہ عدالت "جمہوری حکومت کا قتل نہیں کرے گی"۔[9][10]

عدالتی فیصلہ

16 دسمبر 2009ء کو عدالت عظمٰی نے فیصلہ دیتے ہوئے "قومی مفاہمتی فرمان" کو آغاز سے فسخ اور عدیمہ قرار دیتے ہوئے آئین سے متصادم قرار دیا۔ اس کے ساتھ تمام مقدمات جو اس فرمان کی وجہ سے ختم ہوئے تھے کو دوبارہ زندہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ زرداری کے خلاف سویٹزرلینڈ میں دائر مقدمات (جنھیں واپس لے لیا گیا تھا) کو دوبارہ کھولنے کی درخواست دے۔[11][12] منصف اعظم نے ان مقدمات کی نگہبانی کرنے کے لیے عدالت عظمی میں نگہبانی خلیہ قائم کیا،[13] جسے مغرب نواز ناقدین نے غیر معمولی اقدام قرار دیا۔[14]

نظرثانی درخواست

گیلانی حکومت نے عدالت میں فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جو عدالت عظمی نے نومبر 2011ء میں مسترد کر دی۔

عوامی رد عمل

عوامی حلقوں میں عدالتی فیصلہ کو سراہا گیا۔ کچھ حکومتی اور مغرب نواز حلقوں میں اس فیصلہ کو سیاسی قرار دیا۔[15]

حکومتی رد عمل

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اگلے روز ملزم وزیر دفاع احمد مختار (جو مقدمات کی زد میں آ گیا تھا) کو قواعد کے مطابق بیرون ملک جانے سے روکنے پر دو سرکاری افسروں کو معطل کر دیا۔ اس کے علاوہ مقدمات کے حوالے سے زرداری کا بھرپور دفاع کیا۔ جس سے یہ تاثر ابھرا کہ ان کی حکومت عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد پر سنجیدہ نہیں۔[16] پیپلزپارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ملزم وزیر اپنے عہدوں سے نہ استعفا دیں گے اور نہ علاحدہ کیے جائیں گے۔

ایک عرصہ تک حکومت نے عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا۔ بالآخر سرکاری ادارہ قومی احتساب بیورو نے عدالت میں پیشی کے دوران جارحانہ رویہ اختیار کر لیا اور منصف اعظم کی بجالی کو غیر قانونی بتایا اور کہا کہ عدالت کو اس ادارہ کی نگرانی کا کوئی اختیار نہیں۔[17]

عدالت عظمی نے ستمبر 2010ء کو وزیر قانون کو عدالت کے حکم پر ناعملدرآمد پر تین دن کے اندر جواب داخل کرانے کا حکم دیا۔[18]

پیپلز پارٹی کی حکومت نے تحقیقاتی اداروں پر اپنی پسند کے افسران بٹھا کر عدالتی فیصلوں پر کوئی کارروائی نہ ہونے دی۔ مارچ 2011ء میں عدالت عظمی نے قومی احتساب بیورو کے سربراہ کو بذریعہ عدالتی حکم ہٹا دیا۔[19][20][21] وزیر اعظم گیلانی نے ملزم صدر زرداری کے خلاف سوئٹرلینڈ میں مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لیے عدالتی حکم کے مطابق خط لکھنے سے انکار کر دیا جس پر 2012ء میں عدالت نے گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں طلب کر لیا۔ مگر گیلانی اپنے موقف پر اڑا رہا۔[22] جس پر عدالت نے اسے مجرم قرار دیتے ہوئے 30 سیکنڈ عدالتی کٹھیرے میں کھڑے رہنے کی سزا سنا دی۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "Rice reveals all about Benazir-Musharraf NRO deal Says Musharraf was imposing martial"۔ دی نیوز۔ 15 دسمبر 2011ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. بی بی سی، 1 نومبر 2009ء
  3. روزنامہ نیشن، 1 نومبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "اداریہ:Making NRO universal"
  4. روزنامہ ڈان، 21 نومبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dawn.com (Error: unknown archive URL) "Govt presents NRO beneficiaries’ list to media "
  5. روزنامی ڈان، 28 نومبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dawn.com (Error: unknown archive URL) "NRO, eight other ordinances cease to exist "
  6. روزنامہ جنگ، 1 دسمبر 2009ء،[مردہ ربط] "این آراو کیخلاف درخواستیں، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا"
  7. روزنامہ جنگ، 1 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jang.net (Error: unknown archive URL) "سوئس منی لانڈرنگ کیس کے اصلی دستاویزات اور شواہد کی پراسرار منتقلی"
  8. روزنامہ نیشن، 8 دسمبر 2009ء،[مردہ ربط] "NAB submits list of NRO beneficiaries in SC"
  9. روزنامہ ڈان، 16 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dawn.com (Error: unknown archive URL) "SC asks govt to elaborate on ‘GHQ threats’ "
  10. بی‌بی‌سی، 15 دسمبر 2009ء، "ایوانِ صدر عدلیہ کے لیے محترم ہے:چیف جسٹس"
  11. روزنامہ نیشن، 17 دسمبر 2009ء،[مردہ ربط] "SC strikes down NRO"
  12. نیویارک ٹائمز، 16 دسمبر 2009ء، "Pakistan Strikes Down Amnesty for Politicians "
  13. ڈان 19 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dawn.com (Error: unknown archive URL) "Monitoring cells for NRO cases "
  14. بی‌بی‌سی 19 دسمبر 2009ء، "عدلیہ دائرہ کار سے تجاوز کر گئی ہے"
  15. روزنامہ نیشن، 21 دسمبر 2009ء، اداریہ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL)، "Malicious campaign"
  16. روزنامہ جنگ، اداریہ، 20 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jang.net (Error: unknown archive URL) "اداروں میں تصادم سے گریز کریں"
  17. بی بی سی موقع، 7 جولائی 2010ء، "نگرانی کرنے کا کوئی اختیار نہیں"
  18. نیوز، 21 ستمبر 2010ء،[مردہ ربط] "Secretary Law ordered to submit fresh summary on NRO within 3 days"
  19. "SC invalidates Deedar Shah's appointment as NAB chief"۔ ڈان۔ 10 مارچ 2011ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2011 
  20. "SC takes notice of Sindh strike"۔ ڈان۔ 12 مارچ 2011ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2011 
  21. اداریہ (12 مارچ 2011ء)۔ "تصادم سے بچ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے"۔ روزنامہ جنگ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2011 
  22. "PM Gilani says will not take advice to write letter to Swiss officials"۔ نیشن۔ 11 مارچ 2012ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

اخباری مدونہ