اس صفحہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے؛ استفسارِ وجوہات اور متعلقہ گفتگو کے لیے تبادلۂ خیال کا صفحہ استعمال کریں۔

الطاف حسین سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (لندن گروپ) کے بانی و قائد ہیں۔ 17 ستمبر، 1953ء کو کراچی میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا مفتی رمضان حسین آگرہ یوپی کے مفتی اور جید عالم دین تھے۔ والد برطانوی انڈیا میں اسٹیشن ماسٹر تھے۔ حصول آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور کراچی میں ایک کارخانے میں کلرک مقرر ہوئے۔ 13 مارچ، 1967ء کو ان انتقال ہوا۔ 5 دسمبر، 1985ء کو والدہ محترمہ خورشید بیگم کا بھی انتقال ہوا۔ یہ گھرانہ کراچی میں پہلے ایبی سینا لائنز اور پھر جہانگیر روڈ کے سرکاری کوارٹروں میں آباد رہا۔

بانی و قائد تحریک
الطاف حسین
 

معلومات شخصیت
پیدائش (1953-09-17) ستمبر 17, 1953 (عمر 71 برس)
کراچی، پاکستان
رہائش 484/8، عزیزآباد، فڈرل بی ایریا، کراچی
شہریت  پاکستان ،  برطانیہ
قومیت  پاکستان
نسل مہاجر
مذہب سنی، اسلام
جماعت متحدہ قومی موومنٹ ، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
اولاد افضاء الطاف
والد نذید حسین (مرحوم)
والدہ محترمہ خورشید بیگم (مرحوم)
عملی زندگی
تعليم ایم ایس سی (جامعہ کراچی)
مادر علمی جامعہ کراچی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دور فعالیت 1947 تا دور حاظر
وجہ شہرت مہاجر شناخت
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ متحدہ قومی موومنٹ ، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

تعلیم

1969ء میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیل روڈ سے میٹرک کیا۔ 1970ء میں سٹی کالج میں انٹر سائنس کے طالب تھے کہ جنرل یحیی خان کی حکومت نے لازمی فوجی سروس کا ایک منصوبہ نشینل کیڈٹ سروس اسکیم شروع کیا۔ جس کے تحت ہر میٹرک پاس نوجوان کے لیے ایک سال تک لازمی طور پر فوجی خدمات انجام دینا تھیں۔ چنانچہ الطاف حسین بھی اس اسکیم کے لیے بطور کیڈٹ منتخب ہوئے۔ ابتدائی تربیت کراچی کینٹ سے شروع کی۔ پھر حیدر آباد کینٹ منتقل ہو گئے۔ اس دوران میں مشرقی پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ دوران جنگ ہی نیشنل کیڈٹ سروس اسکیم کے تمام کیڈٹوں کو 57 بلوچ رجمنٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر مکران کے ساحل پر واقعہ بندرگاہ سون میانی میں تربیت دی گئی۔ یہ تربیتی کورس ایک سال میں مکمل کر لینے کے بعد انٹرمیڈیٹ کی سند لی۔ 1974ء میں جامعہ کراچی سے بی فارمیسی کرنے کے بعد ایم فارمیسی میں داخلہ لیا لیکن یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ کراچی کے سیونتھ ڈے ہسپتال میں بطور ٹرینی کام کیا اور دو غیر ملکی دوا ساز اداروں میں بھی ملازمت کی۔

عملی سیاست

عملی سیاست کا آغاز جامعہ کراچی سے بطور طالب علم کیا۔ الطاف حسین نے مہاجر طلبہ کو منظم کرکے 11 جون،1978ء کو آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی چیئرمین رہے۔ یہ تنظیم فوراً ہی اس قدر مقبول ہو گئی کہ دوسری طلبہ تنظیمیں اس کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر اسے تشدد کانشانہ بنانے لگیں۔ یوں یونیورسٹی کیمپس میں آئے روز تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الطاف حسین کو 1979ء میں اس وقت کی مارشل لا حکومت نے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پرگرفتار کر لیا اور انھیں پانچ کوڑوں اور نو ماہ قید کی سزا سنائی۔ الطاف حسین 9 ماہ قید میں رہنے کے بعد رہا ہوئے۔ اس دوران ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ الطاف حسین کو محبور کریں کہ وہ معافی نامہ لکھ کر دیں لیکن ان کی والدہ نے انکار کر دیا۔ رہائی کے بعد الطاف حسین نے مہاجر طلبہ تنظیم کو پورے کراچی میں متعارف و منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے رفقائے کار کے ساتھ مل کر غیر معمولی محنت سے بیس بیس روپے چندہ لے کر تنظیم کے تعارفی کتابچے شائع کیے، جو دوسرے تیسرے روز طبع ہوتے تھے۔ کراچی کے تمام علاقوں کورنگی، گولیمار، گلبہار، ملیر، نیو کراچی، ایف بی ایریا ناظم آباد غرض کہ تمام کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولنے لگا۔ یوں یہ تنظیم بعد میں بنی لیکن اس کو شہرت پہلے ملی۔

ایم کیو ایم

18 مارچ، 1984ء کو الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کے قیام کا اعلان کیا، جو بعد میں سارے ملک میں پھیل گئی۔ 1984ء میں اپنے تشکیلی دور میں کراچی میں لسانی فسادات کا آغاز ہوا تو ایم کیو ایم ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔ ان فسادات میں الطاف حسین کی شہرت اور بدنامی دونوں میں اضافہ کیا۔ کراچی کے فسادات کے دوران ہی الطاف حسین نے سندھ کے دوسرے شہروں کے، جہاں مہاجر بکثرت آباد تھے، وسیع دورے کیے اور ایم کیو ایم کے لیے اخلاقی حمایت حاصل کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں ایم کیو ایم ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ یوں اس دور سے آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں کراچی سمیت سندھ کے دوسرے علاقوں میں مہاجر آبادی والے علاقوں میں انہی کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں۔

آپریشن

1992ء میں سندھ کے دیہی علاقوں میں امن وامان کی خراب صورت حال اور بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فوجی آپریشن کا آغازکیا گیا لیکن بہت جلد اس آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی طرف موڑ دیا گیا۔ الطاف حسین اور ان کی پارٹی جو ان فسادات میں شامل تھی ان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ الطاف حسین اس آپریشن سے قبل ہی لندن فرار ہو چکے تھے۔ اس دور میں ایم کیو ایم کی تشدد آمیز سیاست کا پردہ فاش ہوا۔ ٹارچر سیل اور خفیہ قبریں دریافت ہوئیں۔ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں پر قتل اور دوسرے جرائم کے حوالے سے مقدمات قائم کیے گئے۔ اس دور میں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے درمیان اختلافات نے جنم لیا اور یوں عامر خان، آفاق احمد، محمد ارشاد، بدر اقبال، منصور چاچا وغیرہ نے علاحدہ ہو کر اپنی علاحدہ جماعت ایم کیو ایم حقیقی کی بنیاد رکھی۔

متحدہ قومی مومنٹ

جولائی 1997ء میں ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی مومنٹ سے تبدیل کرکے متحدہ قومی مومنٹ رکھا گیا۔ جس میں صرف مہاجر سیاست سے ہٹ کر تمام مظلوم طبقوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بات کی گئی۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد الطاف حسین کی پارٹی نے مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت میں شامل ہوئی۔ یوں ان کے بہت سے جلاوطن رہنما واپس آئے سندھ کے گورنر کا عہدہ بھی ان کی پارٹی کو ملا۔ پرویز مشرف کے حامیوں میں اس جماعت کا شمار ہوتا ہے۔ اور آج تک الطاف حسین اور ان کی جماعت پرویز مشرف کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں اپنی دیرینہ مخالف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد ہوا۔ یوں الطاف زرداری بھائی بھائی کا نعرہ سامنے آیا۔ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ بنی لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات بار بار سامنے آتے رہے بالآخر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کر دیا اور حکومت سے باہر آگئی۔ الطاف حسین آج بھی لندن میں مقیم ہیں اور وہاں پارٹی کے انٹرنشینل سیکرٹریٹ سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ الطاف حسین پاکستانی سیاست کی ایک متنازع شخصیت ہیں جن کے چاہنے والے اور مخالفین دونوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ الطاف حسین فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن وہ جمہوری حکومت میں فوج کے محدود کردار کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے پرویزز مشرف کی اس وقت تک حمایت نہیں کی جب تک کہ انھوں نے مارشل لا ختم کرکے ایک جمہوری حکومت کی بنا نہیں رکھی۔ وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں لیکن پاکستان کے مخصوص سماجی ڈھانچے میں ان کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت میں بھی شمولیت اختیار کرنے پر مجبور ہیں تاکہ سندھ شہری علاقوں کے عوام کی نمایند گی پاکستان کے جمہوری اداروں میں باقی رہے۔ پاکستانی سیاست دانوں میں عمران خان ان کے بڑے ناقد اور مخالف ہیں جنھوں نے لندن جا کر ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی بھی کوشش کی تاہم وہ اپنے ان الزامات کو کسی بھی عدالت میں ثابت نہ کر سکے ۔

برطانیہ میں پناہ

1991ء میں الطاف حسین کے اوپر ہونے والے ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں نے انھیں برطانیہ بھیج دیا اس وقت سے وہ لندن میں ہی رہتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔ 2001ء دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد الطاف حسین نے برطانوی وزیر اعظم کے نام خط میں سندھ کے شہروں اور دیہات میں جہادی عناصر پر معلومات برطانیہ کو دینے کی پیش کش کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اپنے آپ کو شریک بتایا۔[1] برطانیہ نے 2002ء میں الطاف حسین کو برطانوی شہریت دے دی۔ الطاف حسین اور ان کی جماعت پر الزامات لگائے جاتے رہے لیکن وہ اور ان کے کارکنان ہمیشہ عدالتوں سے بری ہوتے رہے۔ الطاف حسین کی جماعت کے پندرہ ہزار کارکنان کراچی کی غیر مقامی پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ سیکڑوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لینے کے بعد قتل کر دیا، جبکہ بے شمار ایسے ہیں جو گھروں سے گرفتار کیے گئے لیکن ان کا کبھی پتہ نہ چل سکا۔ کراچی میں 200 پولیس افسروں کو قتل کرنے کا الزام بھی لگا لیکن یہ کبھی کسی عدالت میں ثات نہ ہو سکا۔ گارجین اخبار نے خیال ظاہر کیا کہ برطانیہ جو کراچی میں بڑے پیمانے میں جاسوس کارروائیوں میں ملوث ہے، متحدہ اور الطاف حسین اس میں بھر پور تعاون کرتے ہیں، جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ الطاف حسین پر دہشت گردی کے الزامات سے قطع نظر کرتے ہوئے ان کے ساتھ اچھے روابط رکھیں اور بھر پور تعاون کریں۔[2]

تفتیش

2013ء کے انتخابات کے بعد الطاف حسین پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو دھمکیوں اور زہرہ شاہد حسین کے قتل کے الزامات لگائے گئے اور بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے کارکنان نے برطانوی پولیس کو ای میل پیغامات بھیجے جس کی وجہ سے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کی لیکن بعد میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کے بعد ان تمام الزامات کو جھوٹا قرار دے دیا۔ جون 2013ء میں متحدہ کے رہنما عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے سلسلہ میں برطانوی پاسبان نے الطاف حسین کے گھر چھاپہ مارا، جس کے بعد الطاف حسین نے تفتیش مکمل ہونے تک جماعت کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا،[3] مگر اگلے ہی روز کارکنان اور عوام کے شدید رد عمل اوراصرار پر استعفی واپس لے لیا۔ چھاپے کی خبر پاکستان اخبارات میں چھپی اور خود الطاف حسین نے اس کا انکشاف کیا۔ الطاف نے شکایت کی کہ پولیس ان کے گھر اور دفتر سے کچھ رقم لے گئی ہے اور پیسہ دھلائی منی لانڈرنگ کے الزامات کی تفتیش کر رہی ہے۔ بی-بی-سی 2 نے تفتیش کے متعلق چھوٹا سا پروگرامنگ پیش کیا،[1] بعد میں ایم کیو ایم کی قانونی ٹیم کی طرف سے نوٹس دیے جانے پر بی بی سی نے تفصیلات نشر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔[4] الطاف حسین کے بھتیجے کو تھوڑی مدت گرفتار کر کے چھوڑ دیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر پر چھاپہ

11 مارچ، 2015ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر نائن زیرو پر پاکستان رینجرز نے چھاپہ مارا اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں سزائے موت پانے والے قیدی اور ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں۔[5] 17 مارچ، 2015ء کو الطاف حسین کے خلاف کرنل طاہر کی مدعیت میں پاکستان رینجرز کے اہلکاروں کو دھمکانے کے جواب میں کراچی کے سول لائنز تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔[6]

نظریات

  • سیاست میں الطاف حسین اپنی جماعت کو ترقی پسند بتاتے ہیں۔
  • 2001 ء دہشت پر جنگ کے بعد الطاف نے برطانوی وزیر اعظم کے نام خط میں سندھ کے شہروں اور دیہات میں جہادی عناصر پر معلومات برطانیہ کو دینے کی پیش کش کی اور دہشت کے خلاف شریک بتایا۔[1]
  • بھارت میں تقریر کرتے ہوئے الطاف نے قیام پاکستان کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے۔[7]

غیر ملکی ایجنسیوں سے تعلق

الطاف حسین نے کئی مرتبہ اپنی تقریر میں براہ راست پاکستان کے سیکیورٹی اداروں (فوج،رینجرز،وغیرہ) کو دھمکی دی ہے،اس کے علاوہ اپنی تقاریر میں انھوں نے غیر ملکی عناصر سے کہیں مرتبہ پاکستان میں مداخلت کا مطالبہ بھی کیا ہے جس کی جواب میں وزیر داخلہ پاکستان نثار علی خان نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی محب وطن شہری ایسا حرکت نہیں کر سکتا کہ راء اور نیٹو جیسے غیر ملکی ایجنسیوں سے امداد مانگے،اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کیخلاف برطانوی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔[8][9] اس کے علاوہ پاکستان اور برطانیہ دونوں میں الطاف حسین کیخلاف قتل کے متعدد مقدمات بھی درج ہیں جن میں عمران فاروق قتل کیس،ظہرہ شاہد قتل کیس اور عظیم طارق قتل کیس سب سے متحرک مقدمات ہیں۔[10]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ BBC documentary یوٹیوب پر
  2. Owen Bennett-Jones (28 جولائی 2013ء)۔ "Altaf Hussain, the notorious MQM leader who swapped Pakistan for London"۔ گارجین۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "Altaf Hussain quits as MQM chief"۔ ڈان۔ 30 جون 2013ء۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "BBC not to publish report on Altaf Hussain on its website"۔ جیو۔ 14 جولائی 2013ء۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ  الوسيط |archiveurl= و |archive-url= تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط |archivedate= و |archive-date= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  5. ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر پر چھاپہ، متعدد افراد گرفتار - BBC News اردو
  6. ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج - Pakistan - Dawn News
  7. کھرا سچ یوٹیوب پر
  8. http://www.dailytimes.com.pk/islamabad/14-Jul-2015/altaf-hussain-s-hate-speech-against-army-rangers-time-has-come-to-take-up-matter-with-britain
  9. Altaf Hussain's statement tantamount to waging war against Pakistan: Nisar - Pakistan - DAWN.COM
  10. Imran Khan blames MQM leader Hussain for killing of activist | World news | The Guardian

بیرونی روابط

کینیڈا کی عدالت نے اسے دہشت گرد قرار دیا ہے http://209.41.165.188/urdu/details.asp?nid=206520