قیسی رامپوری

ناول نگار

قیسی رام پوری (پیدائش: 20 جون 1908ء - وفات: 10 فروری 1974ءاردو زبان کے معروف مصنف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ وہ نامور ادیب ملا واحدی کے داماد تھے۔

قیسی رامپوری

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: خلیل الزماں خان ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 20 جون 1908ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست رام پور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 فروری 1974ء (66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1904–1947)
پاکستان (1947–1974)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ناول نگار ،  مترجم ،  ڈراما نگار ،  افسانہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

قیسی رام پوری 20 جون 1908ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خلیل الزماں خان جبکہ والد کا نام محمد زماں خان تھا۔ انھوں نے تعلیم انٹرمیڈیٹ تک حاصل کی۔ لکھنے کی ابتدا 1930ء کی دہائی سے کی۔ 1925ء میں وہ وطنِ مالوف کو الوداع کہہ کر اجمیر پہنچے جہاں رفیعی اجمیری سے ملاقات ہوئی۔ قیسی کا پہلا افسانہ ایثار مجسم رفیعی اجمیری کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ کیف میں شائع ہوا تھا، کچھ عرصہ خواجہ حسن نظامی کے ہاں دہلی میں بھی قیام کیا۔ ادب میں انھوں نے ناول نگاری کے حوالے سے اپنی الگ پہچان بنائی۔ 1940ء کی دہائی میں انھوں نے ناول نگاری شروع کی، جس کا سلسلہ تقسیم ہند کے بعد ان کی وفات تک جاری رہا۔ انھوں نے معاشرتی، سماجی اور تاریخی موضوعات پر لا تعداد ناول تحریر کیے۔ ان کے ناولوں کی تعداد اندازہً 100 سے زائد ہے جن میں خیانت، نکہت، اچھے دن، رضیہ سلطانہ، ٹیپو شہید، چاند بی بی،آخری فیصلہ، اجالا، تیسرا راستہ، فردوس، کلیم وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کے کچھ ادبی جرائد کی ادارت بھی کی۔ ایک تخلیق کار، مترجم اور ادیب کے طور پر قیسی نے بھرپور زندگی گزاری۔ انھوں نے اپنی تخلیقی قوت، زورِ تخیل، فنی ہنرمندی اور اندازِ بیان کی سادگی و جاذبیت کے ذریعے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں اردو کے افسانوی ادب کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے تاریخ کے موضوع پر ایک کتاب دوسری جنگِ عظیم کے ہولناک واقعات بھی تحریر کی۔ اس کے علاوہ انھوں ناولوں کے تراجم بھی کیے جن میں خاص کر ویران ہے دل شامل ہے۔[1]
قیسی رام پوری صاحبِ اسلوب ادیب، تذکرہ نگار اور سفرنامہ نگار ملا واحدی دہلوی کے داماد تھے۔

اقتباسات ترمیم

میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حیران حیران مجھے نہ دیکھو۔ میں تم کو یہ دم دینے کی کوشش نہ کروں گا کہ میں تم پر پروانے کی طرح فدا ہوں۔ تم سے غیر مادی محبت کرتا ہوں ہاں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اب تک مجھ مختصر عمر میں جس قدر لڑکیاں نظر آئی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ تم کو پسند کرتا ہوں۔[2]
مدرسہ کی تعلیم کے بعد میں ایک متعصب کٹر مسلمان تھا۔ میرے اندر رواداری وسیع الخیالی نام کو نہ تھی۔ ہاں تنگ نظری اور تاریک بینی کی فراوانی تھی۔ میں ہندو تو کیا مسلمانوں تک کے لیے اپنے تنگ دل میں گنجائش نہیں پاتا تھا۔[3]

تصانیف ترمیم

  1. کیفستان (افسانے)
  2. ضربیں (افسانے)
  3. غبار (افسانے)
  4. دوسری جنگِ عظیم کے ہولناک واقعات (تاریخ)
  5. خیانت (ناول)
  6. نکہت (ناول)
  7. اچھے دن (ناول)
  8. رضیہ سلطانہ (ناول)
  9. ٹیپو شہید (ناول)
  10. چاند بی بی (ناول)
  11. فردوس (ناول)
  12. کلیم (ناول)
  13. تسنیم (ناول)
  14. حور (ناول)
  15. عمو (ناول)
  16. بے آبرو (ناول)
  17. دل کی آواز (ناول)
  18. خطا (ناول)
  19. فرزانہ (ناول)
  20. خیانت (ناول)
  21. سزا (ناول)
  22. شیریں (ناول)
  23. سائرہ (ناول)
  24. نغمہ (ناول)
  25. نیلم (ناول)
  26. رونق (ناول)
  27. برہنہ (ناول)
  28. سماج کے ستون (ڈراما)
  29. دھوپ (ناول)
  30. برجیس (ناول)
  31. ثریا (ناول)
  32. نیلا آسمان (ناول)
  33. آخری فیصلہ (ناول)
  34. اپاہج (ناول)
  35. آنچ (ناول)
  36. چوراہا (ناول)
  37. پھیکی جنت (ناول)
  38. اجالا (ناول)
  39. تیسرا راستہ (ناول)
  40. ویران ہے دل (ترجمہ)

وفات ترمیم

قیسی رام پوری 70 سال کی عمر میں بروز اتوار 10 فروری 1974ء کو بعارضہ قلب کراچی انتقال کرگئے۔[4][5]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. قیسی رامپوری، غبار، اظہار سنز لاہور، 2017ء، پس ورق
  2. قیسی راموری، افسانہ: آخری فتح، غبار (افسانوی مجموعہ)، اظہار سنز لاہور، 2017ء
  3. قیسی راموری، افسانہ: مستقبل بناتا ہوں، غبار (افسانوی مجموعہ)، اظہار سنز لاہور، 2017ء
  4. مالک رام: تذکرہ ماہ و سال، صفحہ 331۔ مطبوعہ دہلی، 2011ء
  5. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 651