صحافی سیاست دان

لالـہ جگت نرائن کی کہانی جو 31 مئی 1899ء میں وزیر آباد، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے،[1]

لالہ جگت نرائن نے لاہور کے ڈی اے وی کالج سے بی۔اے۔ کیا۔ 1924 میں اپنے کیرئر کا آغاز بھائی پرمانند کے ہندی ہفت روزہ اخبار "آکاش بانی" لاہور میں شرکت سے کیا اور پھر کچھ برس بعد لاہور ہی میں "شری ورجانند پرنٹنگ پریس" قائم کیا جہاں بیشتر ہندی کتب کی طباعت ہوتی تھی۔ 1947ء میں ملک تقسیم ہوا تو وہ ہجرت کر کے جالندھر آ گئے، اردو روزنامہ "ہند سماچار" کا اجرا کیا،[2]

جب 9 ستمبر 1981 کو لدھیانہ کے نزدیک جرنیلی سڑک پر انتہا پسندوں نے لالہ جی کو قتل کیا اس وقت ان کی عمر 82 سال تھی۔ ان 82 برسوں میں 48 سال وہ اپنے وطنِ پیدائش میں رہے اور باقی 34 سال ہندوستان میں۔ ان 34 میں سے 33 سال وہ ہند سماچار کے ایڈیٹر ہے۔ جو انھوں نے مئی 1948 میں جاری کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے جالندھر ہی سے 1965 میں ایک ہندی روزنامہ "پنجاب کیسری" اور 1978 میں ایک پنجابی روز نامہ "جگ بانی" جاری کیے۔

پنجاب پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن رہے۔ بعد میں 1952ء میں شری بھیم سین سچر کی کابینہ میں تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور صحت کے امور کے وزیر مقرر ہوئے۔[3]

1956 میں لالہ جی کانگریس سے مستعفی ہو گئے اور پھر ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی اور پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) کے انتخابات جیتے۔

ان کا ہاتھ بٹانے والوں میں ان کے دو نوجوان بیٹے شری رومیش چندر اور شری وجے کمار سرفہرست تھے۔ اخبار کے اجرا کے وقت بڑے بھائی رومیش کی عمر قریباً 22 سال اور چھوٹے بھائی وجے کی عمر قریب سولہ سال تھی۔[4]

بڑا بیٹا والد ہی کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ والد ہی کی طرح وہ بھی ڈی اے وی کالج لاہور سے گریجویشن (بی ایس سی ) کرنے کے بعد مہاتما گاندھی کی 'کوئٹ انڈیا تحریک' میں جیل کاٹ رہا ہوا تھا اور چھوٹے نے ڈی اے وی کالج جالندھر میں 1956 میں داخلہ لیا تھا۔ بہر حال 1956 تک دونوں کل وقتی طور پر 'ہند سماچار' سے وابستہ ہو گئے تھے۔

رومیش 1952 سے اخبار کا نائب مدیر اور کچھ برس بعد سے اس کا منیجر اور کمپنی سکریٹری تھا،

ہند سماچار' نے مشرقی پنجاب کی مزید تقسیم کی قدرے شدت سے مخالفت کی۔اس کی تحریروں سے بڑی گرمی اور حرارت پیدا ہوئی۔1957 میں اس کا سرکولیشن 5440 تک بڑھ گیا۔ یہ عدد مقامی "پرتاپ" (12325) اور "ملاپ" (9336) کے بعد تیسرے نمبر پر تھا۔ یہ رفتارِ ترقی بڑھتی رہی۔ 1966 میں مشرقی پنجاب کی لسانی بنیاد پر تشکیل نو ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں غیر پنجابی اضلاع اس سے الگ ہو گئے اور وہ ہریانہ اور ہماچل کے نام سے دو نئی ریاستیں بن گئیں۔ البتہ پیپسو کو نئے پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔

بہرحال اس تشکیل نو میں لسانی پریس کے مرتبے میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ حسب سابق اس پریس کا اجتماع جالندھر ہی میں رہا۔ ریاست کی لسانی تحریک میں لالہ جگت نرائن کی عملی شرکت کی وجہ سے "ہند ساچار" کی کشش اور اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔[5] 1966 میں اس کا سرکولیشن تمام مقامی ہم عصروں سے بڑھ گیا اور یہ 17,623 ہو گیا۔ یہ عدد اس کے ابتدائی عدد سے چھ گنا زیادہ تھا۔ 1971 میں میں یہ اخبار پورے ملک کا سب سے زیادہ چھپنے والا اردو روزنامہ بن گیا۔ اس بلندی سے یہ تادمِ تحریر نیچے نہیں اترا بلکہ 1976 میں پچاس ہزار کی حد پار کر کے یہ "بڑے" اخباروں کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ اس سال اس کا سرکولیشن 52,697 تھا۔ یوں ہندوستان کا واحد "پڑا" اردو روزنامہ کہلایا۔ 1981 میں یعنی لالہ جی کی شہادت کے سال میں اس کا سرکولیشن 68,773 تھا۔

چنانچہ "ہند سماچار" پہلا اردو روزنامہ تھا جس نے اپنے اوراق میں چار رنگوں کی طباعت پیش کی اور واحد اردو اخبار بنا جو ہفتے میں تین دن (منگل، جمعرات اور اتوار ) کو رنگین ایڈیشن شائع کرتا ہے۔

9 ستمبر 1981ء کو سکھوں نے گولیوں سے ہلاک کر دیا,[6]

12 مئی 1984ء کو رومیش چندر کو بھی خالصتانی انتہا پسندوں نے گولیوں سے بھون دیا۔[7]

حوالہ جات

ترمیم