لبنی قرطبیہ
لبنی قرطبیہ اصل نام لبنی بنت عبد المولی بتایا جاتا ہے۔ اندلس کی مشہور کاتبہ خاتون تھیں، خوشخطی اور خطاطی میں بہت مشہور تھیں، یہاں تک کہ حاکم وقت اندلس کی اموی سلطنت کا نواں حاکم اور اندلس کا اپنے باپ عبد الرحمٰن الناصر کے بعد دوسرا خلیفہ حکم دوم کی معتمد کاتبہ تھیں، ان کی دستخط یہی کیا کرتی تھیں۔[1] علم نجوم، علم عروض اور نحو بھی جانتی تھیں، شعر و ادب میں اچھی مہارت تھی، شہر کی سب سے باصلاحیت اور ہنر مند خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ جلال الدین سیوطی نے انھیں لغویوں اور نحویوں میں شمار کیا ہے۔[2]
لبنی قرطبیہ | |
---|---|
(عربی میں: لبنى) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10ویں صدی اوگو |
وفات | 10ویں صدی |
شہریت | اندلس |
عملی زندگی | |
پیشہ | دانشور ، مہتمم کتب خانہ ، ریاضی دان |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | شاعر ، معلم |
نوکریاں | حکم دوم |
درستی - ترمیم |
احوال
ترمیملبنی قرطبیہ نہایت خوشخط کاتبہ تھیں، اپنے زمانے میں اندلسی خطاطہ کے لقب سے مشہور تھیں، وہاں کے حاکم حکم دوم کی خاص معتمد کاتبہ تھیں، خلیفہ کی دستخط بھی یہی کرتی تھیں۔
اسی طرح قرطبہ کے مرکزی کتب خانہ کی ذمہ دار تھیں، اس میں کتابت اور مخطوطات کے تراجم لکھا کرتی تھیں، مدینہ الزہراء میں حسدای بن شبروط کے بغل میں مشہور کتب خانہ کا قیام بھی انھیں کا کارنامہ ہے۔
عربی مصادر کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ حکم دوم نے مدینہ الزہراء کی ثقافتی اور علمی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر خواتین سے کام لیا، شہر کے مضافات کی 170 سے زائد تعلیم یافتہ خواتین تھیں جو قیمتی مخطوطات کو نقل کرتی تھیں، اس سے اس زمانے میں خلیفہ کے علمی و ثفاقتی ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔[3]
مؤرخین کی آرا
ترمیممشہور اندلسی مؤرخ قاضی ابن بشکوال لکھتے ہیں: «کتابت میں بہت ماہر تھیں، نحویہ اور شاعرہ تھیں، علم عروض اور حساب میں بھی درک حاصل تھا، علوم میں اپنے زمانے کی سب سے قابل و ماہر خاتون تھیں»۔ [4]
تاریخ و سیر کے مشہور مصنف صفدی لکھتے ہیں: «خلیفہ حکم بن عبد الرحمن کی باندی تھیں، نہایت خوشخط کاتبہ تھیں، نحویہ، شاعرہ، علم عروض اور حساب کی ماہر تھیں»۔
وفات
ترمیملبنی قرطبیہ کی وفات سنہ 374 ہجری مطابق 984 عیسوی میں ہوئی۔