عبد الرحمن الناصر (912ء تا 961ء)اندلس میں خلافت امویہ کا سب سے مشہور حکمران تھا جو عبد الرحمن الثالث اور عبد الرحمن اعظم کے ناموں سے بھی معروف ہے۔

عبد الرحمٰن ثالث
(عبد الرحمن الناصر لدين الله)
امیرالمومنین[1]
8واں امیر قرطبہ
اکتوبر 912 – 16 جنوری 929
پیشروعبد اللہ ابن محمدالاموی
جانشینامارت خلافت میں تبدیل ہو گئی
خلافت قرطبہ کا پہلا خلیفہ
جنوری 929 – 15 اکتوبر 961
اعلان خلافت16 جنوری 929 (عمر38سال)[2]
پیشروخود امیر کی حیثیت سے
جانشینالحکم ثانی
زوجہفاطمہ بنت المنذر بن محمد بن عبد الرحمن[3]
مرجان[4] یا مّرجان[5] (پسندیدہ بیوی)
نسلابن حزم کے مطابق ترتیب ولادت کے حساب سے: الحکم دوم (مرجان کا بیٹا)، عبد العزیز، الاسباغ، عبیداللہ، عبد الجبار، عبد الملک، سلیمان، عبد اللہ، مروان، المنذر، المغیرا
مکمل نام
کنیت: ابو المعترف (أبو المطرف)

لقب: الناصر لدين الله

نسب: عبد الرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمان اوسط بن الحکم ابن ہاشم بن عبد الرحمٰن الداخل بن معاویہ ابن ہشام بن عبد الملک ابن عبد الملک بن مروان بن مروان بن حکم ابن الحکم بن عبد العاص بن امیہ بن عبد شمس
خاندانخلافت امویہ (ہسپانوی شاخ)
والدمحمد ابن عبد اللہ
والدہمنزہ (اصلی نام: ماریہ)[1]
پیدائش7 جنوری 791
قرطبہ[6]
وفات15 اکتوبر 961 15 اکتوبر 961(961-10-15) (عمر  70 سال)[7]
قرطبہ [8]
تدفینقصرِ قرطبہ[9]
مذہباسلام، اہل سنت(مالکی فقہ)[10]

وہ جب تخت پر بیٹھا تو ملک کی حالت بہت خراب تھی۔ ہر طرف بغاوتیں پھیلی ہوئی تھیں اور بادشاہ کا حکم قرطبہ سے باہر چلنا بند ہو گیا تھا۔ الناصر کی عمر اس وقت صرف 22 سال تھی لیکن اس کے باوجود اس نے ایسی قابلیت سے حکومت کی کہ دس پندرہ سال کے اندر ملک میں امن قائم کر دیا۔ اس نے نہ صرف اسلامی اندلس میں امن قائم کیا بلکہ شمال کے پہاڑوں میں قائم مسیحی ریاستوں کو بھی باجگزار بنا لیا۔

عبد الرحمن نے فوجی قوت کو بڑی ترقی دی۔ اس کی فوج تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اس کے دور میں بحری قوت میں بھی بہت اضافہ ہوا اور اندلس کے بحری بیڑے میں 200 جہاز شامل تھے جبکہ ساحلوں پر پچاس ہزار سپاہی ہر وقت حفاظت کے لیے موجود رہتے۔

اندلس کی اس قوت اور شان کو دیکھ کر یورپ کی حکومتوں نے عبد الرحمن اعظم سے تعلقات قائم کرنا چاہے چنانچہ بازنطینی سلطنت اور فرانس اور جرمنی کی حکومتوں نے اپنے سفراء اس کے دربار میں بھیجے۔ اندلس کے اموی حکمران اب تک "امیر" کہلاتے تھے اور انھوں نے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تھا لیکن چوتھی صدی ہجری میں بغداد پر بنی بویہ کے قبضے کے بعد عباسی خلفاء بویہی حکمرانوں کے ماتحت ہو گئے تھے۔ عبد الرحمن نے جب دیکھا کہ خلافت میں جان نہیں رہی اور وہ ایک طاقتور حکمران بن گیا ہے تو اس نے امیر کا لقب چھوڑ کر اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ اور اس کے جانشیں خلیفہ کہلانے لگے۔

عبد الرحمن صرف ایک طاقتور حکمران ہی نہ تھا بلکہ وہ بڑا لائق، عادل اور رعایا پرور بادشاہ تھا۔ اس کے زمانے میں حکومت کی آمدنی ایک کروڑ بیس لاکھ دینار تھی۔ اس میں سے ایک تہائی رقم وہ فوج پر خرچ کرتا تھا اور باقی کو وقت ضرورت پر کام آنے کے لیے خزانے میں جمع کر دیتا تھا۔

اس کے عدل و انصاف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ اس کے لڑکے نے بغاوت کی۔ جب وہ گرفتار کر کے لایا گیا تو عبد الرحمن نے اس کو موت کی سزا دی۔ اس پر ولی عہد نے اپنے بھائی کو معاف کر دینے کے لیے گڑ گڑا کر سفارش کی لیکن عبد الرحمن نے جواب دیا:

ایک باپ کی حیثیت سے میں اس کی موت پر ساری زندگی آنسو بہاؤں گا لیکن میں باپ کے علاوہ بادشاہ بھی ہوں۔ اگر باغیوں کے ساتھ رعایت کروں تو سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی

اس کے بعد اس کا لڑکا قتل کر دیا گیا۔

ان تمام خوبیوں کے باوجود عبد الرحمن کی زندگی ایک بادشاہ کی زندگی تھی۔ ہم اس کا مقابلہ خلفائے راشدین یا عمر بن عبدالعزیز سے نہیں کر سکتے۔ نہ وہ نور الدین اور صلاح الدین کی طرح تھا اور نہ وہ اپنے خاندان کے ہشام کی طرح تھا۔ اس نے اپنی لونڈی زہرہ کے لیے قرطبہ کے نواح میں ایک بستی قائم کی جو مدینۃ الزہرہ کہلاتی ہے۔ اس پر اس نے کروڑوں روپیہ صرف کیا۔ اس کی تعمیر چالیس سال تک جاری رہی۔ اس میں شاہی خاندان کے امرا کے بڑے بڑے محل اور ملازمین کے لیے مکانات اور سرکاری دفاتر تھے۔ اس میں ایک چڑیا گھر بھی تھا جس میں طرح طرح کے جانور پھرا کرتے تھے اور شہر کے لوگ تفریح کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔

مدینۃ الزہرہ کے محلات کی تکمیل ہونے کے بعد لوگوں نے خلیفہ کو مبارک باد دی۔ جمعہ کا دن تھا مسجد میں سب نماز کے لیے جمع ہوئے۔ قاضی منذر نے خطبہ پڑھا اور اس خطے میں عبد الرحمن کی اس فضول خرچی کی مذمت کی اور برا بھلا کہا۔ قاضی منذر بہت دلیر تھے اور حق بات کہنے سے کبھی باز نہیں آتے تھے۔ عبد الرحمن بھی ایک عادل حکمران تھا اس لیے اس نے قاضی کی باتیں صبر سے سنیں اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ عبد الرحمن کے بعد اس کا بیٹا حکم ثانی تخت پر بیٹھا۔

سلسلہ نسب

ترمیم


بیرونی روابط

ترمیم
  • "Abd-er-Rahman III.Collier's New Encyclopedia۔ 1921 
عبد الرحمٰن الناصر
چھوٹی شاخ قبیلہ قریش
ماقبل  امارت قرطبہ
912–929
خلافت قرطبہ
قائم ہوئی
'
خلافت قرطبہ
قائم ہوئی
خلافت قرطبہ
929–961
مابعد 

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Richard Fletcher (2006) [First published 1992]۔ "Chapter 4: The Caliphate of Córdoba"۔ Moorish Spain (2nd ایڈیشن)۔ Berkeley, California: University of California Press۔ صفحہ: 53–54۔ ISBN 978-0-520-24840-3 
  2. David Wasserstein (1993)۔ The Caliphate in the West: An Islamic Political Institution in the Iberian Peninsula (snippet view)۔ Oxford: Clarendon Press۔ صفحہ: 11۔ ISBN 978-0-19-820301-8۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2010 
  3. Joaquín Vallvé Bermejo (1999)۔ Al-Andalus: sociedad e instituciones [Al-Andalus: Society and Institutions]۔ Volume 20 of Clave historial (بزبان الإسبانية)۔ Madrid: Real Academia de la Historia۔ صفحہ: 48–50۔ ISBN 978-84-89512-16-0 
  4. Manuela Marín (2002)۔ "Marriage and Sexuality in Al-Andalus"۔ $1 میں Eukene Lacarra Lanz۔ Marriage and Sexuality in Medieval and Early Modern Iberia۔ Volume 26 of Hispanic issues۔ New York: Routledge۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-0-415-93634-7 
  5. Hanna Kassis (1999)۔ "A glimpse of openness in medieval society: Al-Ḥakam II of Córdoba and his non-Muslim collaborators"۔ $1 میں Balázs Nagy، Marcell Sebők۔ The Man of Many Devices, Who Wandered Full Many Ways (Festschrift in Honor of János M. Bak)۔ Budapest: Central European University Press۔ صفحہ: 162۔ ISBN 978-963-9116-67-2 
  6. Paula Kay Byers، مدیر (1998)۔ "Abd al-Rahman III"۔ Encyclopedia of World Biography۔ Volume 1: A – Barbosa (2nd ایڈیشن)۔ Thomson Gale۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-0-7876-2541-2۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2010 
  7. Hugh N. Kennedy (1996)۔ Muslim Spain and Portugal: A Political History of al-Andalus (snippet view)۔ London: Longman۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-0-582-49515-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2010۔ The Caliph died on 15 October 961 and was buried with his predecessors in the Alcazar at Cordoba. 
  8. Farhad Daftary (1992)۔ The Isma'ilis: Their History and Doctrines۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 173۔ ISBN 978-0-521-42974-0۔ ... the Umayyad ʿAbd al-Raḥmān III, who was a Mālikī Sunnī.