علم نجوم (عربی: نجم کی جمع نجوم)، اجرام و نقاط فلکی (گرہوں) بشمول کواکب کی بروج اور بیوت میں حالت و حرکات کا مطالعہ اور ان سے پیش گوئی کے لیے ممکنہ نتائج کا استخراج ہے۔ نجوم کی علمی بنیادوں سے لا علم افراد بسا اوقات اسے توہم پرستی، شگون اور قیاسی آرائی کا نام دیتے ہیں۔ تاہم نجوم کا تعلق تاریخ انسانی کے قدیم ترین علوم سے ہے۔ یہ علم صدیوں تک علم ہیئت، طب، ریاضی اور فلسفہ کا لازمی جزو رہا ہے اور دنیا کے جید فلاسفہ، حکیم، شاعر اور سائنس دان اس کے طالب علم رہے ہیں

مبادیات ترمیم

ہماری یہ زمین نظام شمسی کا حصہ ہے اور اس یہ ممکن نہیں کہ زمین اور اس پر بسنے والے افراد شمس، قمر اور دیگر کواکب کی موجودگی اور حرکات سے غیر مرئی طور پر متاثر نہ ہوں۔ علم نجوم کی مبادیات 7 کواکب، 12 بروج، 12 بیوت، 2 عقدتین اور دیگر ثانوی اصول ہیں۔ دراصل زائچہ یا کنڈلی (Horoscope) مخصوص وقت اور مقام پر انھیں سیارگان، بروج و بیوت کا علامتی نقشہ ہوتا ہے۔ کلاسیکی نجوم میں ان ہفت سیارگان یا سبعہ کواکب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

 
سن 2003 میں زمین سے مریخ کا مشاہدہ۔ بظاہر مریخ تھوڑی دیر کے لیے الٹا چلتے ہوئے نظر آ رہا ہے جبکہ حقیقتاً مریخ کا الٹا چلنا نا ممکن ہے۔

یہاں واضح رہے کہ شمس سیارہ نہیں بلکہ ستارہ ہے اسی طرح قمر بذات خود سیارہ نہیں بلکہ سیارہ زمین کا ذیلی ہے۔ اس کے باوجود علم نجوم میں سہولت و یکسانی کی خاطر انھیں سیارہ یا کوکب تصور کیا جاتا ہے۔ جدید مکتب نجوم میں حالیہ دریافت شدہ درجہ ذیل بعید ترین کواکب بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا کواکب کے علاوہ نجوم میں عقدتین (چھایاگرہ) کو خاص حیثیت حاصل ہے۔ جو بذات خود نہ تو سیارے ہیں اور نہ ستارے بلکہ یہ زمین کے گرد قمری مدار پر دو مقابل قاطع نقاط ہیں۔ انھیں سنسکرت میں راہو اور کیتو جبکہ عربی میں راس اور ذنب کہتے ہیں۔

12 بروج کی تفصیل یوں ہے۔

علم نجوم کے حصص ترمیم

عرب اور مغربی ماہرین نجوم اس علم کو درجہ ذیل دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

  • حصہ آثار (تخمین)
  • حصہ اخبار (نتائج)

جبکہ قدیمی ہند کے ماہرین جیوتش اسے 3 بھاگوں میں بانٹتے ہیں۔

  • سدھانت (علم ہیئت)
  • سمھیتا (دنیاوی و ملکی امور)
  • ہورا (انفرادی امور)

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم