لطائف لطیفہ کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیزیں جن کا انسانی حواس ادراک نہ کر سکیں۔ یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے۔

لطائف کے معانی

ترمیم

اللطیف اللہ تعالیٰ کا ایک نام یعنی وہ ذات جو اپنے بندوں پر لطیف اور مہربان ہے۔ معاملات کے اسرار اور پوشیدگی کو جاننے والا مشکل اور دقیق معنی والا کلام۔ اللطیفہ اللطیف کی مؤنث ہے (دقیق کلام) جس کی جمع اللطائف ہے۔[1] اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے یعنی بندوں پر احسان کرنے والا، باریک سے باریک بات جاننے والا، ایسا کلام جس کے معانی مخفی ہوں، اللطیفہ نفس میں انسباط پیدا کرنے والا نکتہ، جمع لطائف[2] لطیف: جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جثل کی ضد ہوتا ہے جس کے معانی بھاری اور ثقیل کے ہیں۔ کہتے ہیں شعر جثل (زیادہ اور بھاری بال) اور کبھی لطافۃ یا لطف سے حرکت خفیفہ اور رقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا انسانی حواس ادراک نہ کر سکتے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معانی یاتو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے ادراک سے مافوق اور بالا تر ہے۔ اور یا اسے اس لیے لطیف کہا جاتا ہے کہ وہ باریک سے باریک اور دقیق امر تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے۔[3]

لطائف کی حقیقت

ترمیم

یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی کو زمین اپنی کثافت کے سبب برداشت کرسکتی ہے اور دیگر عناصر لطافت کے سبب متحمل نہیں ہو سکتے اسی طرح تجلی ذاتی کو بھی عنصر خاکی ہی برداشت کر سکتا ہے اور باقی عناصر میں جتنی کثافت ہے اس کے سبب تجلی صفاتی کو تو برداشت کر بھی سکتے ہیں مگر تجلی ذاتی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور عالم امر کے لطائف چونکہ لطیف ہیں اس لیے انھیں تجلیات ذاتیہ سے تو حصہ ملتا نہیں لیکن تجلیات ظلیہ سے کچھ بہرہ مل جاتا ہے اور انسان چونکہ ان دس لطائف سے مرکب ہے جو اجزاء عالم کبیر ہیں اور سوائے انسان کے اور افراد عالم میں یہ لطائف مجتمع نہیں اس لیے وہ خلافت کے قابل اور اس بار امانت کا حامل ہوا۔[4]

دس لطائف

ترمیم

انسان کی ساخت دس اجزا سے ہوئی ہے، ان میں سے پانچ (ہوا، پانی، آگ، مٹی اور لطیف نفس) عالم خلق کے اجزا ہیں اور پانچ (قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ) عالم امر کے اجزاء ہیں انھی اجزائے عشرہ کو لطائف عشرہ کہا جاتا ہے عالم خلق عرش کے نیچے کی مخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم امر عرش سے اوپر کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں (اصل عالم ارواح میں ہیں لیکن تعینات انسانی جسم میں ہیں) جسم انسانی میں یہی جگہیں ہیں جہاں انوار و اسرار اور فیوض و برکات الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے گویا یہ لطائف اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے مختلف راستے ہیں اور ہر راستہ ایک اولو العزم رسول کے زیر قدم ہے۔ انسانی جسم میں آکر ان کی نورانیت زائل ہو گئی ہے اس لیے سالکین ذکر کے ذریعے دوبارہ ان کو نورانی بنا لیتے ہیں۔

لطیفہ

ترمیم

لطیفہ انسان کے جسم میں محلِ نور کو لطیفہ کہتے ہیں اور اس کو نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں یہ وہ جوہر ہے جو مادہ سے خالی ہوتا ہے ان کا نام قرآن میں ہے (إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ۔ ق:37۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي۔ بنی اسرائیل:85۔ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى۔ طٰہٰ:7۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔ الاعراف:55۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا۔ الشمس:7)

لطیفہ قلب

ترمیم

قلب سے مراد گوشت کا ٹکرا نہیں بلکہ ایک لطیفہ ہے جس میں ﷲ فیض ودیعت فرماتا ہے۔

اسے قلب حقیقی کہا جاتا ہے لطیفہِ قلب کا مقام انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو 2 انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے اس کی فناء قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات افعال کا ظہور ہے اس کی علامت ذکر کے وقت ماسویٰ اللہ کا نسیان اور ذاتِ حق کے ساتھ محوّیت ہے (اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے ہو) اس کی تاثیر رفعِ غفلت اور دفعِ شہوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ:

اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ وہ ہیں جو اللہ کی مشیئت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا تعلق اللہ کے فعل سے ہے جیسا کہ استواء علی العرش، نزول الی سماء الدنیا، غضب اور محبت وغیرہ۔

لطیفہ روح

ترمیم

قُلِ الرُّوحُ مِن اَمرِ رَبِّی (بنی اسرائیل:85)

فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے۔

روح ایک اﷲ کی طرف سے عطا کردہ لطیفہ ہے جو ہر جاندار کے لیے ہے اور اس جسمانی زندگی کا سبب ہے۔

اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے۔ اس کی فناء روح پر اللہ تعالیٰ کی صفات ثبوتیہ کا ظہور ہے۔ اس کی علامت ذکر کے وقت کیفیاتِ ذکر (قلبی و روحی) میں اضافہ و غلبہ ہے۔ اس کی تاثیر غصّہ و غضب کی کیفیّت میں اعتدال اور طبیّعت میں اصلاح و سکون کی کیفیت کا ظہور ہے۔

لطیفہ سر

ترمیم

اس کا مقام انسان کے سینے میں بائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ وسط سینہ ہے اس کی فناء لطیفہ سِر پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے شیونات و اعتبارات کا ظہور ہے اس کی علامات ہر دو سابق لطیفوں کی طرح اس میں ذکر کا جاری ہونا اور کیفیات میں ترقی رونما ہونا ہے (یاد رہے کہ یہ مشاہدہ اور دیدار کا مقام ہے) اس کی تاثیر طمع اور حرص کے خاتمے نیز دین کے اُمور کے معاملے میں بلا تکلف مال خرچ کرنے اور فکر آخرت کے جذبات کی بیداری سے ظاہر ہوتی ہے اس کا نور سفید ہے۔

لطیفہ خفی

ترمیم

اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بوسط سینہ ہے۔ اس کی فناء صفات سلبیہ تنزیہ کا ظہور ہے۔ اس کی علامت اس میں ذکر کا جاری ہونا او عجیب و غریب احوال کا ظہور ہے اس کی تاثیر حسد و بخل اور کینہ و غیبت جیسی امراض سے مکمل نجات حاصل ہو جانے سے ظاہر ہوتی ہے اس کا نور سیاہ ہے۔

لطیفہ اخفی

ترمیم

اس کا مقام انسان کے جسم میں وسط سینہ ہے اس کی فناء مرتبہ تنزیہ اور مرتبہ احدیت مجردہ کے درمیان ایک برزخی مرتبے کے ظہور و شہود سے وابستہ ہے اور یہ ولائت محمدیہ علیٰ صاحبہ الصلوات کا مقام ہے اس کی علامت اس میں بلا تکلف ذکر کا جاری ہونا اور قرب ذات کا احساس و شہود ہے اس کی تاثیر فخر و غرور اور خود پسندی جیسی روحانی امراض سے رہائی پانے اور مکمل حضور و اطمینان کے حصول سے ظہور پزیر ہوتی ہے اس کا نور سبز ہے۔

لطائف کے کمالات

ترمیم

لطائف عالم امر کو کمالات ولایت کے ساتھ مناسبت اور لطائف عالم خلق کو کمالات نبوت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے عالم امر کے پانچوں لطیفوں میں سے ہر ایک کو لطیفہ عالم خلق کے کسی نہ کسی لطیفہ کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور یہی ان کی اصل بھی ہیں، مثلاً لطیفہ قلب کو لطیفہ نفس کے ساتھ لطیفہ روح کو لطیفہ آب کے ساتھ لطیفہ سر کو لطیفہ باد کے ساتھ لطیفہ خفی کو لطیفہ نار کے ساتھ اور لطیفہ اخفیٰ کو لطیفہ خاک کے ساتھ نسبت بھی ہے اور یہی ان کی اصل بھی ہیں۔

لطیفہ نفس

ترمیم

یہ عالم خلق کا پہلا لطیفہ ہے سلسلہ نقشبندیہ میں اس کا مقام وسط پیشانی یا ام الدماغ ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مقام زیر ناف ہے اگرچہ بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن ارباب عرفان کے نزدیک ابتدا اور انتہا کا فرق ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تطبیق فرمائی ہے کہ اس کا سر ام الدماغ یا وسط پیشانی ہے اور اس کا قدم متصل زیر ناف ہے (اہل کشف کے نزدیک ہر دو مقام نفس کے لحاظ سے برابر ہیں) اس کا نور سبز اور نیلگوں ہے اس کی تاثیر نفسانیت اور سرکشی کے مٹ جانے عجز و انکسار کا مادہ پیدا ہونے اور ذکر میں ذوق و شوق بڑھ جانے سے ظاہر ہوتی ہے۔

لطیفہ قالبیہ

ترمیم

یہ عالم خلق کا بظاہر دوسرا لطیفہ ہے لیکن درحقیقت چاروں لطائف( ) پر مشتمل ہے اس کا مقام سارا قالب (جسم) ہے (بعض کے نزدیک متصل ناف ہے) اس کی علامت ہر ہر جزو بدن اور بال بال سے ذکر کا جاری ہوجانا اس کی تاثیر رذائل بشریہ اور علائق دینویہ سے رہائی پالینے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا نور آتش نما ہے۔۔[5] حضرت عبد اللہ بن خراز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو علما جانتے ہیں، اشاروں کو دانا جانتے ہیں جبکہ لطائف کو سرداران مشائخ جانتے ہیں۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. المعجم الوسیط عربی سے اردو طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور
  2. المنجد عربی اردو کتب خانہ دار الاشاعت کراچی
  3. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد 3 صفحہ 422، علی محمد، سورۃ الشوری، 19، مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  4. تفسیر ضیاء القرآن - پیر کرم شاہ صاحب سورۃ البقرۃ آیت 30
  5. البینات شرح مکتوبات از ابو البیان محمد سعید احمد مجددی صفحہ 127 تا 131طابع تنظیم الاسلام پبلیکیشنز گوجرانوالہ
  6. طبقات الصوفیہ 202 أبو عبد الرحمن السلمي ادارہ پیغام القرآن لاہور