ماریہ قبطیہ

صحابیہ و ام المومنین

ام المؤمنین ماریہ قبطیہ (عربی: مارية القبطية) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔ وہ پہلے مسیحی تھیں اور بازنطینی شاہ مقوقس نے 628ء میں انھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بطور ہدیہ بھیجا تھا۔

ماریہ قبطیہ
(عربی میں: مارية القبطية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش بازنطینی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 فروری 637ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد بن عبداللہ (630–8 جون 632)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابراھیم بن محمد   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
پیشہ ورانہ زبان عربی [1]،  مصری زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ماریہ نام، ام ابراہیم کنیت، قبطیہ ان کی قومی نسبت تھی (حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ قبطی کی نسبت ہی اگرچہ ان کی عیسائیت کی دلیل کے لیے کافی ہے؛ لیکن میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ صاحب زرقانی کی تصریح اور بعض دوسرے قرائن کی بناپر اُن کو اس فہرست میں داخل کیا ہے، سیرین کے حالات میں اس کی تصریح آچکی ہے) مصر کے ایک ضلع انصا یاانص کا ایک گاؤں حفن اُن کا آبائی وطن تھا۔

خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آمد

سنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کے لیے شاہانِ وقت کو جو خطوط لکھے تھے، اُن میں ایک خط مقوقس عزیز مصر کے نام بھی تھا، جس کو حضرت حاطب رضی اللہ عنہا ابن بلتعہ لے کر مصر گئے تھے، مقوقس نے اسلام قبول نہیں کیا؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیام اور پیامبر کی بڑی پزیرائی کی اور قیمتی سازوسامان کے علاوہ دولڑکیاں جن کے ساتھ اُن کے بھائی مابور بھی تھے، خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تحفۃً بھجیں۔ [2] اِن لڑکیوں میں ایک تو سیرین رضی اللہ عنہا تھیں جن کا ابھی ذکر آچکا ہے، دوسری یہی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

اسلام

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ آئی تھیں، اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہو گئی تھیں، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا، حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا؛ لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پر قائم رہے۔

قیام گاہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو پہلے ہمارے پڑوس میں حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکان پر ٹھہرایا گیا اور ہم لوگ برابر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا جایا کرتے تھے؛ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ورفت ان کے پاس زیادہ ہونے لگی تو ہم لوگوں نے اُن کے پاس آنا جانا کم کر دیا (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکون میں فرق نہ آئے) وہ تنہائی کہ وجہ سے گھبرانے لگیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مقامِ العالیہ میں جواس وقت مشربۃ ام ابراہیم کے نام سے مشہور ہے، منتقل کر دیا۔ [3] سنہ میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، جس سے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا خاص تعلق ہے، اس کی تفصیل آخر میں آئے گی۔

عہدِ صدیقی وفاروقی

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو ازواجِ مطہرات میں نہیں تھیں؛ لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے جیسا سلوک کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا۔

وفات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زمانۂ خلافت میں محرم سنہ16ھ میں داعیٔ اجل کولبیک کہا [4] بعض روایتوں میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ برس بعد ان کی وفات ہوئی، اس حساب سے ان کی وفات سنہ15ھ میں ہوئی؛ لیکن دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس لیے کہ سنہ16ھ کے پہلے مہینے محرم میں ان کی وفات ہوئی ہے اس لیے پانچ برس کی تعیین غلط نہیں ہے۔

تدفین

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوان کی وفات کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے خود تمام اہلِ مدینہ کو جمع کیا اور اُن کے جنازہ کی نماز پڑھائی، مدینہ کے عام قبرستان بقیع میں سپردِ خاک کی گئیں۔ [5]

اولاد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی اولادیں ہوئیں وہ سب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئیں، ان کے بعد صرف حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کویہ شرف حاصل ہوا کہ ان کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور 17،18/ماہ زندہ رہ کرداغِ مفارقت دے گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی وفات کا بیحد غم ہوا تھا۔

حلیہ

قدرت نے حُسن باطن کے ساتھ ساتھ حسنِ ظاہر سے بھی نوازا تھا، بال نہایت گھنے اور خوبصورت تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے جتنا رشک ان پر آتا تھا کسی دوسرے پر نہیں۔ [6]

رقتِ قلب

نہایت رقیق القلب تھیں، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوا تو رقت قلب کی وجہ سے اُن کو اپنے اُوپر قابو نہیں رہا اور بے اختیار رونے لگیں۔ [7]

فضائل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت بہت زیادہ رہتی تھی؛ گووہ کنیز تھیں (جاربات، یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی طرح اُن کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا (اصابہ، و ابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ: استوصوا بالقبط خيرا فإن لهم ذمة ورحما قال ورحمهم أن أم إسماعيل بن إبراهيم منهم وأم إبراهيم بن النبي صلى الله عليه وسلم منهم۔ [8] ترجمہ: قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے، اُن سے نسب کا تعلق تویہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ) اور میرے لڑکے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہو چکا ہے)۔ وكانت مارية هذه من الصالحات الخيرات الحسان۔ [9] ترجمہ:اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا نہایت صالح، پاکیزہ اور نیک سیرت تھیں۔

ایلا

سنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض خانگی اور ازدواجی معاملات کی بنا پرازواجِ مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی تھی؛ اسی واقعہ کو ایلاء کہتے ہیں جن اسباب کی بنا پرآپ نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، اس کے بارے میں مفسرین ومحدثین میں باہم اختلاف ہے اور انھوں نے ایک دوسرے سے بہت متضاد اور متخالف باتیں کہیں ہیں، ان اسباب میں ایک سبب حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کو بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے قرار دیا گیا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایلا کہ واقعہ سے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ وہ صرف حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ تھا، روایتوں میں دونوں واقعے غلط ملط ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے واقعات کی اصل نوعیت سامنے نہیں آنے پاتی، اب ہم اس کی تفصیل کرتے ہیں؛ تاکہ واقعہ کی اصل حقیقت واضح ہو جائے۔ بات یہ تھی کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں سے ہر ایک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجہ تعلق اور محبت تھی اس وجہ سے ہر ایک آپ کی صحبت کو باعث سعادت سمجھتی تھیں، ان میں سے جن کو بھی تقرب واختصاص کا موقع ملتا تھا، اس میں کسی کی شرکت کا شائبہ بھی ان کو بہت گراں گذرتا تھا اور پھربتقاضۂ بشریت آپس میں کچھ جذبۂ رشک ومسابقت بھی موجود تھا، اس وجہ سے کبھی کبھی آپس میں شکررنجی بھی ہوجایا کرتی تھی اور اس مصیبت میں ایک مرتبہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی مبتلا ہوگئیں، جس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول ان کے پاس تشریف لے گئے توحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا موجود نہیں تھیں؛ اس اثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے جوحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پڑوس ہی میں رہتی تھیں باتیں کرنے لگے، تھوڑی دیر کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا واپس آئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے گھر میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا، باقتضائے بشریت ان کوبڑا رنج ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اپنی تمام بیویوں میں آپ صرف میرے ہی ساتھ ایسا کرتے ہیں [10] اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے کنارہ کشی کا عزم کر لیا، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غصہ میں بات کی، اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی کی قسم کھالی، جس پرسورۂ تحریم کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ سورۂ تحریم کی یہ ابتدائی آیتیں آپ کی شہدنوشی اور اس کواپنے اُوپر حرام کرلینے کی وجہ سے نازل ہوئیں؛ لیکن جیسا کہ بخاری وغیرہ میں تصریح موجود ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ ایلاء کا واقعہ بھی اسی زمانہ میں پیش آیا ہو، جس زمانہ میں آپ نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے کنارہ کشی کرلی تھی اور دونوں واقعے نزولِ آیات کا سبب بنے ہوں، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے تمام روایتوں کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: أَنْ تَكُون الْآيَة نَزَلَتْ فِي السَّبَبَيْنِ۔ [11] ترجمہ:ہو سکتا ہے کہ آیت کے نزول کا سبب دونوں واقعے ہوں۔ بہرحال حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی اور ایلاء کا واقعہ میں ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے سلسلہ میں جتنی روایتیں ہیں ان سب پرجرح کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ واقعہ سرے سے صحیح ہی نہیں ہے؛ لیکن جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے اس کے لحاظ سے یہ توصحیح ہے کہ آیت کے نزول کا سبب حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ نہیں ہے؛ لیکن نفسِ واقعہ کے عدم وقوع وعدم صحت کا ثبوت نہیں ملتا؛ انھوں نے اس سلسلہ میں دوتین باتیں کہی ہیں، ایک تویہ کہ یہ روایت صحاحِ ستہ میں نہیں ہے، دوسرے یہ کہ امام نووی نے اس کی صحت پرکلام کیا ہے، تیسری یہ کہ یورپ کے اکثر مؤرخوں نے اسی قسم کی روایتوں کی بناپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پرحرف گیریاں کی ہیں۔ صحاح کی پانچ کتابوں میں تویہ روایت یقیناً نہیں ہے؛ لیکن نسائی باب الغیرۃ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت موجود ہے؛ اگرچہ اس میں بھی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہاکا نام نہیں ہے؛ لیکن روایت کے سیاق وسباق اور دوسرے قرائن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ہی کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے، اِس روایت میں چارراوی ہیں (ابراہیم اور اُن کے والد یونس، حماد بن سلمہ، ثابت بن اسلم البنانی، تہذیب میں ان سب کا تذکرہ موجود ہے، ائمہ رجال نے ان میں سے کسی کومجروح یاغیرثقہ قرار نہیں دیا ہے) اور ان میں سے کسی کی بھی وثاقت اور عدالت پر کلام نہیں کیا گیاہے؛بالکل یہی روایت حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں نقل کی ہے، اس روایت کے اوپر کے دوراوی حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ثابت البنانی ہیں؛ لیکن اس کے بعد چار راوی دوسرے ہیں حاکم نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے: هذا حديث صحيح على شرط مسلم۔ [12] ترجمہ: یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پرپوری اُترتی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مستدرک کی تلخیص میں اس روایت پرکوئی جرح نہیں کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ روایت میں کوئی سقم نہیں ہے، نسائی اور مستدرک میں ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں موجود ہونے کا کوئی ذکرنہیں ہے، اس کے علاوہ طبرانی اور بزار نے بھی اس روایت کی تخریج کی ہے، بزار کی روایت کے متعلق حافظ نور الدین ہیثمی نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے کہ: ورجال البزار رجال الصحيح غير بشر بن آدم الاصغر وهوثقة۔ [13] ترجمہ:بزار کے تمام رواۃ صحیح حدیث کے رواۃ ہیں، بجز بشربن آدم کے؛ لیکن ان کے ثقہ ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے بعض اور طرق ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہذہ طرق یقویٰ بعضہا بعضاً یہ روایت بہت سے طریقوں سے مروی ہے اور ان میں ایک روایت دوسری روایت کوقوی کرتی ہے (یعنی غیر صحیح نہیں ہے)۔ امام نووی رحمہ اللہ نے یقیناً لکھا ہے: وَلَمْ تَأْتِ قِصَّة مَارِيَة مِنْ طَرِيق صَحِيْحٌ۔ [14] ترجمہ:ماریہ کا قصہ صحیح طریق سے ثابت نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ حافظ ابنِ کثیر، حافظ ابنِ حجر، ابوبکر ہیثمی، امام ذہبی رحمہم اللہ اس کی صحت کے قائل ہیں، حدیث کے بارے میں امام نووی کی رائے یقیناً بہت وقیع ہے؛ لیکن ان کے مقابلہ میں دوسرے بزرگوں کی رائے کوبھی آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے آیت کے سبب نزول کے بارے میں تویہ ضرور لکھا ہے کہ: ان ذلک فی تحریم الاصل۔ ترجمہ: آیت کے نزول کا سبب آپ کا شہد کوحرام کرلینا تھا۔ لیکن حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے نفس واقع سے انھوں نے انکار نہیں کیا ہے، اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ: (1)ایلاء کا مشہور واقعہ جس میں آپ نے ازواجِ مطہرات سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ دونوں الگ الگ ہیں، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے قصہ کا تعلق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا یابعض روایتوں کے مطابق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دونوں سے تھا۔ (2)سورۂ تحریم کی ابتدائی آیتوں کے نزول کا اصلی سبب آپ کی شہد نوشی اور اس کی تحریم ہے؛ لیکن یہ ممکن ہے کہ اسی زمانہ میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ بھی پیش آیا ہو اور بعضوں نے اس کوان آیات کا سبب نزول سمجھ لیا ہو۔ (3)حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی کنارہ کشی کا واقعہ صحیح روایتوں سے ثابت ہے، یہ ضرور ہے کہ صحیح روایات میں لغو واقعات کا شمول نہیں ہے؛ چنانچہ نسائی اور مستدرک کی روایات اس سے خالی ہیں۔ (4) اگر امام نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کی صحت پر کلام کیا ہے تودوسرے ائمہ حدیث نے اس کی صحت کوتسلیم کیا ہے۔ (5)اس قسم کی روایات پریورپین مؤرخین کواگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرحرف گیری کا موقع ملتا ہے تواس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی ونزاہتِ اخلاق پرجس کا سارا زمانہ گواہ ہے، کہاں حرف آسکتا ہے، قرآن کی صحت پرکس کوکلام ہے؛ لیکن کیا وہ ان کی خروہ گیری کی زد سے بچ گیا؛ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کی تعریف آپ کے زمانہ کے دشمنوں نے کی ہے؛ لیکن یورپ کوآپ میں (نعوذ باللہ) کوئی نیکی نظر نہیں آتی، آپ کے معیار اخلاق پرحرف گیری کے لیے تواس قسم کی روایات توالگ رہیں جن کا بیشتر حصہ موضوع، جعلی، ناقابل اعتبار ہے؛ خواہ تعداد ازدواج اور کنیزوں سے انتفاع جنسی جیسے معلم ومحقق مسائل تک کولے لیا گیا ہے۔ ہنربچشم عداوت بزرگتر عیبے است۔ ترجمہ: ان کے مقابلے میں سکوت ہی اولیٰ تر ہے۔ بہرحال کسی روایت کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس سے غیروں کواعتراض کا موقع ملتا ہے؛ پھراگراس واقعہ کو معاشرتی اور ازدواجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور یہ پیشِ نظر رکھا جائے کہ آپ کی صحبت میں متعدد ازواج کے ساتھ جاریات بھی تھیں تواس میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی، صورت واقعہ کوایک بار پھراپنے سامنے لائے تواس کی صحیح نوعیت سامنے آجائے گی۔ (6)جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس دن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا؛ لیکن اس روز وہ گھر میں موجود نہیں تھیں بعض روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملنے گئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول ان کے یہاں تشریف لے گئے تومکان خالی پایا، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا جیسا کہ اوپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان گذرچکا ہے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پڑوس ہی میں رہتی تھیں، قیاس ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یا اسی طرح کسی ضرورت سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئی ہوں گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے گفتگو فرمانے لگے ہوں گے، اس اثناء میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا آگئیں؛ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تنہا دیکھ کر بتقاضائے صنف لطیف ناراضی کا اظہار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاطر کچھ دنوں کے لیے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تواس میں کونسی بات عقلی یااخلاقی معیار سے گری ہوئی ہے یااس میں ازدواجی نقطہ نظر سے کونسا استبعاد نظر آتا ہے۔


حوالہ جات

  1. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
  2. (اصابہ:4/405)
  3. (فتح الباری:8/513)
  4. (ابنِ سعد:8/156)
  5. (اصابہ)
  6. (ابن سعد:8/153)
  7. (ابنِ سعد:8/152)
  8. (الطبقات الكبرى،ابن سعد:8/214، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)
  9. (البدایۃ والنہایۃ:7/86، شاملہ، موقع يعسوب)
  10. (فتح الباری:8/503)
  11. (فتح الباري شرح صحيح البخاري:14/32، حدیث نمبر:4530،شاملہ،موقع الإسلام)
  12. (مستدرک حاکم:4/493)
  13. (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:7/126، شاملہ، موقع یعسوب۔ دوسری مطبوعہ:7/126)
  14. (شرح النووي على صحيح مسلم،:10/77، شاملہ، الناشر:دارإحياء التراث العربي،بيروت، المؤلف: أبوزكريا يحيى بن شرف بن مري النووي)