خدیجہ بنت خویلد
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔خدیجہ نے 10 نبوی کو انتقال فرمایا۔
خدیجہ بنت خویلد | |
---|---|
(عربی میں: خديجة بنت خويلد بن أسد بن عبد العزى)[1]،(عربی میں: خديجة بنت خويلد) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6ویں صدی[2] مکہ |
وفات | سنہ 619ء (61–62 سال)[3][2] مکہ |
مدفن | جنت المعلیٰ |
شریک حیات | محمد بن عبداللہ (ستمبر 595–30 اپریل 619)[4] |
اولاد | ہند بنت عتيق ، القاسم بن محمد ، فاطمۃ الزہرا [5][4]، رقیہ بنت محمد [4][6]، زینب بنت محمد [4][7]، ام کلثوم بنت محمد [8][4]، عبداللہ بن محمد ، حارث بن ابی ہالہ ، ہند بن ابی ہالہ |
والد | خویلد ابن اسد |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | کاروباری شخصیت ، تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، کلاسیکی عربی |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
خدیجہ نام، ام ہند کنیت، طاہرہ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی، قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد سے تھیں۔
خدیجہ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز شخص تھے۔ مکہ آکر اقامت کی، عبد الدارین ابن قصی کے جوان کے ابن عم تھے، حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل خدیجہ پیدا ہوئیں، [9] سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ[10]کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
شجرہ نسب
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔
حضرت خدیجہ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زید بن اصم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لوی تھا۔ فاطمہ کی ماں کا نام ہالہ بنت عبد مناف بن حارث بن عبد بن منقد بن عمرو بن معیص بن عامر بن لوی تھا۔ ہالہ کی والدہ کا نام فلانہ (یا بقول ابن ہشام قلابہ) بنت سعید بن سعد بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی تھا۔ فلانہ کی ماں کا نام عاتکہ بنت عبد العزی بن قصی تھا۔ عاتکہ کی ماں کا نام ریطہ بنت کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی تھا۔ ریطہ کی ماں کا نام فیلہ بنت حذافہ بن جمح بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی تھا۔ فیلہ کی ماں کا نام امیمہ بن عامر بنت حارث بن فہر تھا۔ امیمہ کی ماں قبیلہ خزاعہ کے سعد بن کعب بن عمرو کی بیٹی تھی اور اس کی ماں فلانہ بنت حرب بن حارث بن فہر تھی۔ فلانہ کی ماں کا نام سلمیٰ بنت غالب بن فہر تھا اور سلمی کی ماں محارب بن فہر کی بیٹی تھی۔[11]
نکاح
اہل تشیع محققین کے مطابق آپ کی پہلے کوئی شادی نہ ہوئی تھی اور صرف نبی اکرم ہی آپ کے اکلوتے شوہر تھے۔
مگر اہل سنت کے تاریخ نویسوں کے بقول آپ کے والد گرامی نے ان کی اعلی صفات کا لحاظ رکھ کر ان کی شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادر زادہ اور تورات و انجیل کے بہت بڑے عالم تھے، کو منتخب کیا، لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہ ہو سکی اور ابو ہالہ ہند بن بناش بن تمیم سے نکاح ہو گیا۔[12][13]
ابو ہالہ کے بعد عتیق بن عابد مخزوم کے عقد نکاح میں آئیں۔[13]
اسی زمانہ میں حرب الفجار چھڑی، جس میں خدیجہ کے والد لڑائی کے لیے نکلے اور مارے گئے[14]یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے۔[15]
تجارت
باپ اور شوہر کے مرنے سے خدیجہ کو سخت دقت واقع ہوئی، ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا تاہم اپنے اعزہ کو مال تجارت دیکر بھیجتی تھیں، ایک دفعہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابو طالب نے محمد بن عبد اللہ سے کہا کہ تم کو خدیجہ سے جا کر ملنا چاہیے، ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہے کہ تم بھی ساتھ لے جاتے، میرے پاس ابھی روپیہ نہیں ورنہ میں خود تمھارے لیے سرمایہ مہیا کر دیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہرت "امین" کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ کے حسن معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا، خدیجہ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ "آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی۔" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہ) کے ہمراہ بصرٰی تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سال ہائے گذشتہ کے نفع سے مضاعف تھا،[16]
آپ ﷺ سے نکاح
خدیجہ کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضا و قدر کی نگاہ انتخاب کسی اور پر پڑ چکی تھی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مال تجارت لے کر شام سے واپس آئے تو خدیجہ نے شادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ) اس خدمت پر مقرر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منظور فرمایا،[17] اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی، خدیجہ کے والد اگرچہ وفات پا چکے تھے تاہم ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں، اسی بنا پر خدیجہ نے چچا کے ہوتے ہوئے خود براہ راست تمام مراتب طے کیے۔
تاریخ معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں آپ کے بہنوئی اور نبی اکرم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے، خدیجہ کے مکان پر آئے، حضرت خدیجہ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا، ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسد کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور خدیجہ طاہرہ حرم نبوت ہو کر پہلی ام المومنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں، اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال کے تھے اور خدیجہ کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔[18] آپ پچیس سال اکلوتی حرم نبی تھیں۔
اسلام
نکاح کے پندرہ برس کے بعد جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا تو سب سے پہلے خدیجہ کو یہ پیغام سنایا وہ سننے سے پہلے مومن تھیں، کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدق دعویٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، صحیح بخاری باب بدۤء الوحی میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور وہ یہ ہے،
"عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کی ابتدا رویائے صادقہ سے ہوئی آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہو جاتا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خلوت گزیں ہو گئے، چنانچہ کھانے پینے کا سامان لے کر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تخث یعنی عبادت کرتے تھے۔ جب سامان ہو چکتا تو پھر خدیجہ کے پاس تشریف لاتے اور پھر واپس جا کے مراقبہ میں مصروف ہوتے یہاں تک کہ ایک دن فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے پڑھ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں، اس نے زور سے دبایا، پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں، پھر اس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اور کہا پڑھ، پھر میں نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں، اسی طرح تیسری دفعہ دبا کر کہا کہ پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا۔ جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر تشریف لائے تو جلال الہی سے لبریز تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے کہا مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ، مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ، لوگوں نے کپڑا اوڑھایا تو ہیبت کم ہوئی پھر خدیجہ سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا "مجھ کو ڈر ہے" خدیجہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے، اب وہ بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ خدیجہ نے کہا اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی باتیں سنو، بولے ابن الاخ تو نے کیا دیکھا؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ پر اترا تھا۔ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہو جاتی ہے اور اگر اس وقت تک میں زندہ رہا تو تمھاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی۔[19]
اہل تشیع اس سارے واقعہ کو غلط جانتے ہیں اور توہین رسالت قرار دیتے ہیں۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نوافل پڑھا کرتے تھے خدیجہ بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں، ابن سعد کہتے ہیں[20] محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھا کرتے۔
عفیف کندی سامان خریدنے کے لیے مکہ آئے اور عباس بن عبد المطلب کے گھر میں فروکش ہوئے، صبح کے وقت ایک دن کعبہ کی طرف نظر تھی۔ دیکھا کہ ایک نوجوان آیا اور آسمان کی طرف قبلہ رُخ کھڑا ہو گیا۔ پھر ایک لڑکا اس کے داہنی طرف کھڑا ہوا، پھر ایک عورت دونوں کے پیچھے کھڑی ہوئی، نماز پڑھ کر یہ لوگ چلے گئے، تو عفیف نے عباس سے کہا کہ کوئی عظیم الشان واقعہ پیش آنے والا ہے، عباس نے جواب دیا، ہاں، پھر کہا جانتے ہو یہ نوجوان کون ہے؟ یہ میرا بھتیجا محمد ہے، یہ دوسرا بھتیجا علی ہے اور یہ محمد کی بیوی (خدیجہ) ہے، میرے بھتیجے کا خیال ہے کہ اس کا مذہب پروردگار عالم کا مذہب ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس کے حکم سے کرتا ہے، دنیا میں جہاں تک مجھ کو علم ہے اس خیال کے صرف یہی تین شخص ہیں۔[21]
سب تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کو اور ایسے متعدد واقعات کو نقل کیا ہے۔ مگر عقیلی اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں، لیکن اس کے ضعیف ہونے کی کوئی وجہ نہیں، درایت کے لحاظ سے اس میں کوئی خرابی نہیں، روایت کی حیثیت سے اس کے ثبوت کے متعدد طریق ہیں محدث ابن سعد نے اس کو نقل کیا ہے، بغوی، ابویعلی اور نسائی نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، حاکم، ابن حثیمہ، ابن مندہ اور صاحبِ غیلانیات نے اسے مقبول مانا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو امام بخاری نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔
خدیجہ نے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو چند سال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ اس میں بڑی حد تک خدیجہ کا اثر کام کر رہا تھا، اوپر گذر چکا ہے۔ کہ آغاز نبوت میں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ "مجھ کو ڈر ہے" تو انھوں نے کہا "آپ متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا" دعوت اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی اور تشفی دی، تفصیل استیعاب میں بھی منقول ہے۔[22]
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مشرکین کی تردید یا تکذیب سے جو کچھ صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہ کے پاس آکر ختم ہو جاتا تھا کیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپ کے سامنے ہلکا کر کے پیش کرتی تھیں۔
سنہ 7 نبوی میں جب قریش نے اسلام کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تو یہ تدبیر سوچی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے خاندان کو ایک گھاٹی میں محصور کیا جائے، چنانچہ ابو طالب مجبور ہو کر تمام خاندان ہاشم کے ساتھ شعب ابو طالب میں پناہ گزین ہوئے، خدیجہ بھی ساتھ آئیں، سیرت ابن ہشام میں ہے۔[23]
اور وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شعب ابو طالب میں تھیں۔
تین سال تک بنو ہاشم نے اس حصار میں بسر کیے یہ زمانہ ایسا سخت گذرا کہ طلح کے پتے کھا کھا کر رہتے تھے تاہم اس زمانہ میں بھی حضرت خدیجہ کے اثر سے کبھی کبھار کھانا پہنچ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن حکیم بن حزام نے جو خدیجہ کا بھتیجے تھے۔ تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرے خدیجہ کے پاس بھیجے، راہ میں ابو جہل نے دیکھ لیا، اتفاق سے ابو البختری کہیں سے آ گیا، وہ اگرچہ کافر تھا، لیکن اس کو رحم آیا، ابو جہل سے کہا ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لیے کچھ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے۔[24]
فضائل و مناقب
ام المومنین طاہرہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپ کی تائید میں نہ اٹھی، کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کر رہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ کے قلب سے بلند ہوئی تھی، جو اس ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نور الہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے فرمایا، "بخدا میں کبھی لات و عزی کی پرستش نہ کروں گا" انھوں نے جواب دیا کہ لات کو جانے دیجیے، عزی کو جانے دیجیے، یعنی ان کا ذکر نہ کیجیے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کو ان کی ذات سے جو تقویت تھی وہ سیرت نبوی کے ایک ایک صفحہ سے نمایاں ہے، ابن ہشام میں ہے۔ "وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سچی مشیر کار تھیں۔" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کو جو محبت تھی، وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور دولت و ثروت کے جو ان کو حاصل تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت خود کرتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی کہ خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجیے۔[25] محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زید بن حارثہ سے سخت محبت تھی، لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت سے رہتے تھے، خدیجہ نے ان کو آزاد کرایا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کی بجائے شہنشاہ رسالت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے غلام تھے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی خدیجہ سے بے پناہ محبت تھی آپ نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی، پچیس سال مشترکہ زندگی گزاری، ان کی وفات کے بعد آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ گو میں نے خدیجہ کو نہیں دیکھا، لیکن مجھ کو جس قدر ان پہ رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے اس پر آپ کو رنجیدہ کیا، لیکن آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھ کو ان کی محبت دی ہے۔[26]
خدیجہ کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیح بخاری و مسلم میں ہے: "عورتوں میں بہترین مریم بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلد ہیں۔"
ایک مرتبہ جبریل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، خدیجہ آئیں تو فرمایا:
"ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دیجیے جو موتی کا ہو گا اور جس میں شور و غل اور محنت و مشقت نہ ہو گی۔"۔
وفات
ام المومنین خدیجہ نکاح کے بعد ربع صدی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی شریک حیات رہیں۔ شادی کے بعد 25 برس تک زندہ رہیں اور 11 رمضان سنہ 10 نبوی (ہجرت سے تین سال قبل)[27] انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی، چنانچہ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا جسد مبارک اسی طرح دفن کر دیا گیا۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا، خدیجہ کی قبر حجون قبرستان میں ہے۔[28] اور زیارت گاہ خلائق ہے۔
ام المومنین خدیجہ کی وفات سے تاریخ اسلام میں ایک جدید دور شروع ہوا۔ یہی زمانہ ہے جو اسلام کا سخت ترین زمانہ ہے۔ اور خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے کیونکہ ان کے اٹھ جانے کے بعد قریش کو کسی شخص کا پاس نہیں رہ گیا تھا اور وہ نہایت بے رحمی و بیباکی سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ستاتے تھے، اسی زمانہ میں آپ اہل مکہ سے ناامید ہو کر طائف تشریف لے گئے۔
اولاد
بعض مآخذ میں کہا گیا ہے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے حضرت خدیجہ (رض) کے شوہر دار اور بچہ دار ہونے کا ادعا ملتا ہے؛ بلاذری انساب الاشراف میں ابو ہالہ ہند بن نباش کو پیغمبر اکرمؐ سے پہلے حضرت خدیجہ کا شوہر قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح "عتیق بن عابد بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم" کو بھی حضرت خدیجہ (رض) کا شوہر قرار دیا گیا ہے۔[29] ان سب کے باوجود بعض مآخذ میں کہا گیا ہے حضرت خدیجہ (رض) نے پیغمبر اکرمؐ کی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی سے شادی نہیں کی ہیں۔ ابن شہر آشوب کے مطابق سید مرتضی اپنی کتاب شافی اور شیخ طوسی اپنی کتاب التلخیص میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے موقع پر حضرت خدیجہ کے باکرہ ہونے کی طرف اشارہ کیے ہیں۔[30] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سرزمین حجاز میں رائج قومی اور نژادی تعصبات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت خدیجہ جو قریش کے بزرگوں میں سے تھیں، کی شادی قبیلہ بنی تمیم اور قبیلہ بنی مخزوم کے دو اعرابی سے انجام پائی ہو.[31] اور جن اولاد کی نسبت حضرت خدیجہ کی طرف دی جاتی ہیں حقیقت میں وہ ان کی بہن ہالہ کی تھیں جن کی وفات کے بعد ان کے بچے حضرت خدیجہ کی زیر سرپرستی پلی بڑھی ہیں.[32]
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں، دو صاحبزادے جو بچپن میں انتقال کر گئے اور چار صاحبزادیاں نام حسب ذیل ہیں:[33][34]
- قاسم بن محمد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انہی کے نام پر آپ ابو القاسم کنیت کرتے تھے، صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے لگے تھے۔
- زینب بنت محمد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔
- عبد اللہ بن محمد نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے۔
- رقیہ بنت محمد
- ام کلثوم بنت محمد
- فاطمہ زہرا
اس سب میں ایک ایک سال کا چھٹاپا بڑاپا تھا، خدیجہ اپنی اولاد کو بہت چاہتی تھیں اور چونکہ دنیا نے بھی ساتھ دیا یعنی صاحب ثروت تھیں، اس لیے عقبہ کی لونڈی سلمہ کو بچوں کی پرورش پر مقرر کیا تھا، وہ ان کو کھلاتی و دودھ پلاتی تھیں۔
ازواج مطہرات میں خدیجہ کو بعض خاص خصوصیتیں حاصل ہیں،
- وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پہلی بیوی ہیں، وہ جب عقد نکاح میں آئیں تو ان کی عمر چالیس برس کے قریب تھی، لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی،
- سب سے لمبی ازدواجی زندگی آپ کے ساتھ گزاری۔ جو ربع صدی یعنی 25 سال آپ اکلوتی زوجہ رہیں۔ نبی اکرم کا شباب کا زمانہ انہی کے ساتھ رہا۔ یعنی پچاس سال کی عمر مبارک تک صرف ان کے ساتھ رہے۔
- آپ پہلی مسلمان ہیں اور پہلی مسلمہ ہیں۔ یعنی ساری دنیا میں سب سے پہلی کلمہ گو ہیں۔
- آپ اسلام کے اعلان سے پہلے نماز گزار تھیں۔ اور ہر مسلمان سے پہلے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتی رہیں۔
- ابراہیم بن محمد کے سوا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔
حوالہ جات
- ^ ا ب مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام — : اشاعت 15 — جلد: 2 — صفحہ: 302 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR
- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Khadijah — بنام: Khadījah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 دسمبر 2023
- ↑ مصنف: ابن جریر طبری — عنوان : تاريخ الرسل والملوك
- ^ ا ب عنوان : Хадиджа бинт Хувайлид
- ↑ عنوان : Фатима бинт Мухаммад
- ↑ عنوان : Рукайя бинт Мухаммад
- ↑ عنوان : Зайнаб бинт Мухаммад
- ↑ عنوان : Умм Кульсум бинт Мухаммад
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 8 ص 10
- ↑ اصابہ، ج 8 ص 60
- ↑ سیرۃ ابن اسحاق۔ پیراگراف 58
- ↑ استیعاب، ج 2 ص 378
- ^ ا ب طبقات ابن سعد، ج 8 ص 27
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 8 ص 9
- ↑ طبقات ابن سعد، 81:1، ق1
- ↑ طبقات ابن سعد، 81:1، ق1
- ↑ طبقات ابن سعد، 84
- ↑ اصابہ، ج 8 ص 60
- ↑ صحیح بخاری، 2-3:1
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 8 ص 10
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 10 ص 11
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 2 ص 740
- ↑ سیرت ابن ہشام، ج 1 ص 192
- ↑ سیرت ابن ہشام، ج 1 ص 192
- ↑ صحیح بخاری، 539:1
- ↑ صحیح مسلم، 333:2
- ↑ صحیح بخاری، 55:1
- ↑ طبقات ابن سعد، ج 8 ص 11
- ↑ زرقانی، 221:3
- ↑ ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، قم، ج1، ص159: «روی أحمد البلاذری و أبوالقاسم الکوفی فی کتابیہما و المرتضی فی الشافی و أبو جعفر فی التلخیص: أن النبی (ص) تزوج بہا و کانت عذراء»۔
- ↑ عاملی، الصحیح، 1415ق، ج2، ص123۔
- ↑ عاملی، الصحیح، 1415ق، ج2، ص123۔
- ↑ زرقانی، 221:3
- ↑ طبقات ابن سعد، ج اول ص 152