مالدیپ میں بدھ مت ایک غالب مذہب کے طور پر بارہویں صدی عیسوی تک رہا ہے۔ یہ غیر واضح ہے کہ کیسے بدھ مت مالدیپ کے ٹاپوؤں میں متعارف کیا گیا تھا۔

تاریخی بدھ مت کا مجسمہ جو مالدیپ سے بر آمد ہوا تھا۔ اسے سری لنکا کے قومی عجائب خانے، کولمبو میں 2011ء میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
کاغذ پر 30 سینٹی میٹر اونچی کونے تک پھیلنے والی سمندری پتھر پر اتاری گئی تصویر جو نو ویں صدی سے متعلق ہے، مالے کے عجائب خانے میں رکھی گئی ہے۔ یہ ہری تارا کی نمائندگی کرتی ہے، جو وجریان بدھ متی دیوی ہے۔ یہ دیوی علم سے منور کار کردگی اور بے خوفی کی نمائندگی کرتی ہے۔

آثار قدیمہ

ترمیم

مغربی دنیا کی مالدیپ کے آثار قدیمہ کی باقیات میں دل چسپی کا آغاز ایچ سی پی بیل (H. C. P. Bell) کے کام کی وجہ سے ہے جو سیلون سول سروس کے برطانوی کمشنر تھے۔ بیل 1879ء میں اپنی کشتی کی غرقابی کی وجہ سے ٹاپوؤں میں پہنچے تھے اور کئی بار لوٹے تھے کہ قدیم بدھ مت کی باقیات پر تحقیق کی جا سکے۔ وہ قدیم مٹی کے تودوں کا مطالعہ کیے، جنہیں ہاوِتا یا اُستُوبُو کہا جاتا تھا (یہ نام مالدیپیوں ہی کی جانب سے رکھے گئے ہیں (دیویہی: ހަވިއްތަ‎)، جو اغلب ہے کہ چیتیا یا استوپا سے ماخوذ ہوں، جو مالدیپ کے کئی ٹاپوؤں پر پائے جاتے ہیں۔ [1]

حالاں کہ بیل کا دعوٰی تھا کہ قدیم مالدیپی تھیرواد بدھ مت کے اسی طرح پیرو کار تھے جس طرح کہ پڑوس میں سری لنکا کے سنہالی لوگ رہے ہیں،[1] مالدیپی بدھ مت کے آثار قدیمہ کی باقیات جو مالے عجائب خانے میں محفوظ ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ در حقیقت مہایان اور وجریان مجسمہ سازی پھیلی ہوئی تھی۔[2]

مالدیپی لوک کہانیوں کے مطابق ایک شہزادہ جس کا نام کوئیِیمالا تھا، مالدیپ میں شمال (اِہاواندُھو) سے داخل ہوا اور تھیموگے خاندان کا پہلا بادشاہ بن گیا۔ اس سے پہلے مالدیپ پر دراوڑی نسل کے لوگ قریب ترین ساحلوں سے آکر بس گئے تھے، جیسے کہ جدید گروہ جیسے کہ گِیْراوَارُو ہیں جو تمل آبا و اجداد سے وجود میں آنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ گیراوارو ہی مالدیپ کے اولین آباد کار رہے ہوں۔ ان کو دی جانے والی اہمیت کی وجہ اس لیے ہے کہ ان کا ذکر ایک داستان میں پایا جاتا ہے جس میں دار الحکومت اور مالے میں بادشاہی حکومت کے قیام کا بیان ہے۔ یہ لوگ ان ٹاپوؤں کی برادریوں میں سے ایک ہیں جو بدھ مت اور شمالی بادشاہی خاندان اور مرکزیت والے سیاسی اور انتظامی ادارہ جات سے پہلے رہے ہیں۔

قدیم مالدیپی بادشاہوں نے بدھ مت کا فروغ کیا تھا اور اولین مالدیپی مخطوطات اور معماری کی یادگاریں ترقی یافتہ نقاشی اور تعمیرات کی وجہ سے ہیں جو اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ بارہویں صدی عیسویں میں قبول اسلام کا تذکرہ اس دور کی کانسی کی رکابیوں میں ملتا ہے۔ ایک مشہور داستان کے مطابق ایک پردیسی بزرگ (فارس سے مراکش سے) ایک راکشس کو مغلوب کیے تھے جس کا نام راناماری تھا۔

کئی صدیوں سے ان ٹاپوؤں پر جہازیوں اور بحیرہ عرب اور خلیج بنگال کے تاجر آتے رہے ہیں۔ جدید طور تک موپلا قزاق ملابار ساحل سے آکر ٹاپوؤں کی اہالی کو ہراساں کرتے تھے۔

2012ء میں بدھ مت کے مجسموں کی تباہی

ترمیم

فروری 2012ء میں ایک اسلام پسند انتہا پسندوں نے مالے کے قومی عجائب خانے میں گھس کر عجائب خانے کے اسلام سے قبل کے مجسموں پر حملہ کیا، جس سے یہ تباہ ہو گئے یا تیس کے قریب بدھ مت کے مجسمے بری طرح سے برباد ہو گئے جو چھٹی صدی سے بارہویں صدی کے بیچ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔[3] عجائب خانے کے عملے نے یہ واضح کر دیا کہ یہ مجسمے نازک سمندی پتھر یا چونے کے پتھر سے بنے تھے اور یہ ناممکن ہے کہ ان سبھی کو سابقہ حالت میں درست کیا جا سکے۔ اس وقت صرف دو یا تین نمونے ہی قابل مرمت حالت میں تھے۔[4]

 
فوا ہاوتا از ایچ سی پی بیل، 1922ء۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ایچ سی پی بیل, The Máldive Islands: An account of the Physical Features, History, Inhabitants, Productions and Trade. Colombo 1883
  2. Xavier Romero-Frias, The Maldive Islanders, A Study of the Popular Culture of an Ancient Ocean Kingdom. آئی ایس بی این 84-7254-801-5
  3. Vikas Bajas (13 فروری 2012)۔ "Vandalism at Maldives Museum Stirs Fears of Extremism"۔ دی نیو یارک ٹائمز۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2018 
  4. "35 Invaluable Hindu and Buddhist Statues Destroyed in Maldives by Extremist Islamic Group"۔ The Chakra۔ 23 فروری 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2018