محب اللہ لاری ندوی (1905ء - 1993ء) دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے قدیم ممتاز فاضل اور اس کے مہتمم رہے ہیں۔

ذاتی اور علمی زندگی

ترمیم

مولانا محب اللہ لاری کا تعلق ریاست اتر پردیش کے ضلع دیوریا کے قصبہ "لار" سے تھا۔ ان کی ولادت 1905ء میں ہوئی۔ 1920ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے۔ 1930ء میں فضیلت کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے، جہاں سے 1936ء میں پولیٹکل سائنس سے ایم اے کیا۔ ان کے رفقائے درس اور معاصرین میں بڑی بڑی اور عالمی شہرت کی حامل شخصیات کے نام ملتے ہیں، مثلاً؛ مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عمران خان ندوی ازہری، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی، مولانا عبد القدوس ہاشمی، مولانا محمد ناظم ندوی، مولانا عبد السلام قدوائی ندوی، مولانا رئیس احمد جعفری، مولانا محمد اویس نگرامی ندوی وغیرہ۔

عملی زندگی

ترمیم

ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے رکن منتخب ہوئے اور اس ذمے داری پر وفات تک فائز رہے۔ علمی ذوق کے حامل تھے، ابتداً انھوں نے کانپور سے ایک رسالہ’ترجمان‘ کے نام سے 1954ء میں نکالا، جو کئی برس جاری رہا، لیکن خاندان کے تجارتی پس منظر کی وجہ سے انھوں نے تجارت کو ترجیح دی۔ کافی دنوں تک تجارتی سرگرمیاں انجام دینے کے بعد 1968ء میں کسی وجہ سے ان کا کاروبار بند ہو گیا تو لکھنؤ گئے اور ہفت روزہ ’ندائے ملّت‘ سے وابستہ ہو گئے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی سے قریبی تعلقات تھے۔ چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ کے بعد ہی ندوۃ العلماء کی مجلس انتطامی سے آپ کو دار العلوم ندوۃ العلماء کا مہتمم بنائے جانے کی منظوری حاصل کرلی۔ آپ نے اہتمام کی ذمہ دارج 20/ شعبان 1389ھ /یکم نومبر 1969ء کو لیا۔ اس وقت آپ کی عمر چوسٹھ (64) برس تھی۔آپ چوبیس (24) برس دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم رہے۔

وفات

ترمیم

مولانا محب اللہ لاری کی وفات 29 نومبر 1993ء میں ہوئی۔[1]

معاصرین کی آرا

ترمیم

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے لکھاہے:

اپنے زمانۂ اہتمام میں طلبہ کی دین داری، نمازوں کی پابندی اور مسجد کی حاضری پر ان کی خاص توجہ رہی۔ وہ کبھی کبھی اس کے لیے گشت بھی کرتے اور اس پر نظر رکھتے۔ خود بھی ضعف اور مرض کی حالت میں جب تک ممکن ہوسکا، وہ خود چل کر مسجد آتے اور جماعت میں شرکت کرتے۔

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بہت پابند خود بھی تھے اور طلبہ کے لیے بھی اس کی فکر کرتے کہ وہ کوتاہی نہ کریں۔ انھوں نے اپنا رویّہ یہ بنا رکھا تھا کہ طلبہ کی نماز میں غفلت بالکل برداشت نہ کرتے۔ اس کے لیے سمجھانے کی کوشش کرتے، انتظامی سطح پر اس کی فکر کرتے اور ضرورت پڑنے پر سرزنش کا بھی طریقہ اختیار کرتے۔

اور ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی لکھتے ہیں:

ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ (مولانا لاری مرحوم) ایسا بندہ تھا جس کے ہاتھ کسی کو ضرر نہیں پہونچا، جس کی زبان سے کسی کو دل شکنی نہیں ہوئی، جس کے دل میں اللہ کا خوف تھا، جس کی دینداری اس کے منصب کا لبادہ بلکہ فطرت کا تقاضہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ کسی معاملہ میں اپنی انا کو سامنے نہیں رکھا بلکہ دار العلوم کو مفاد کو ہمیشہ ترجیح دی، کبھی کوئی ایسی بات نہ ہونے دی جس سے کسی کام میں رکاوٹ بنے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تعمیر حیات، سنہ 1993ء جلد,31، شمارہ,3، صفحہ,5۔
  2. تعمیر حیات، سنہ 1993ء جلد,31، شمارہ,3، صفحہ,5۔