حضرت محمد بن جعفر غندرؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتاہے۔

محدث
محمد بن جعفر غندر
معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
رہائش بصرہ
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو عبد اللہ
لقب غندر
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد عوف الاعرابی ، ابن جریج ، شعبہ بن حجاج ، سعید بن ابی عروبہ
نمایاں شاگرد علی بن مدینی ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، یحییٰ بن معین ، ابو بکر بن ابی شیبہ
پیشہ محدث
شعبۂ عمل روایت حدیث

نام ونسب

ترمیم

محمد نام،ابو عبد اللہ کنیت اورغندر لقب تھا [1]بعض اہلِ تذکرہ نے ان کی کنیت ابوبکر بتائی ہے [2]ہذیل بن مدر کہ سے نسبت ولاءرکھنے کے باعث ہذلی اوروطن کی طرف منسوب ہوکر بصری کہلاتے ہیںلیکن غندر کے لقب سے زیادہ مشہور ہوئے،یہ لقب ان کو ابن جریج نے عطا کیا تھا؛کیونکہ ابنِ جعفر ان سے بہت شغف رکھتے تھے اور اہلِ حجاز ایسے اشخاص کو عام طور سے غندر کے نام سے پکارتے تھے، کتابوں میں اس لقب سے موسوم متعدد تذکرے ملتے ہیں جن میں محمد بن جعفر اپنے گونا گوں کمالات کی وجہ سے بہت ممتاز تھے۔

علوِّ مرتبت

ترمیم

علم و فضل کے اعتبار سے شیخ غندر بلند مرتبہ اورجلیل القدر حفاظِ حدیث میں تھے،امام شعبہ کے دامنِ فیض سے کامل بیس سال تک وابستہ رہے تھے،اس طویل صحبت نے فضائل وکمالات میں اپنے استاد کا جانشین بنادیا اوراس بنا پر مرویاتِ شعبہ کے باب میں ان کا پایہ باتفاقِ علما سب سے بلند ہے؛چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: احد ارباب المتفنین ولا سیما فی شعبۃ [3] وہ ارباب اتقان میں سے تھے،بالخصوص امام شعبہ کے باب میں ان کا تثبت مسلم تھا۔

حدیثِ رسولﷺ

ترمیم

حدیثِ رسول کی تحصیل انھوں نے امام شعبہ کے علاوہ سعید بن ابی عروبہ معمر بن راشد، ابن جریج، ہشام بن حسان، سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ وغیرہ سے کی تھی،خود ان سے مستفید ہونے والوں میں امام احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،ابوبکر بن ابی شیبہ،قتیبہ، عثمان بن شیبہ اورابو بکر بن خلاد کے نام نمایاں ہیں۔ [4]

روایات کا پایہ

ترمیم

تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ غندر کی مرویات حجت اورقابلِ قبول ہیں،علامہ ابن کثیر رقمطراز ہیں۔ کان ثقۃ جلیلا حافظاً متقناً [5] وہ ثقہ،جلیل المرتبت،حافظ اورصاحبِ اتقان تھے۔ اتقان،ثبت اور ثقاہت ان کے نمایاں جوہر تھے،ایسے شیوخ حدیث کم ہی ہیں،جن کی مرویات پر کسی نے جرح کی جرأت نہ کی ہو،بلاشبہ انھی مثتثنیات میں امام غندر بھی ہیں، ابن معین کا بیان ہے کہ بعض معاصر علما نے شیخ غندر کی مرویات میں خامی نکالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہے اور برملا اعترافِ عجز کیا کہ: "ما وجدنا شیئاً" یعنی ہم کو کچھ نہیں ملا،امام الجرح والتعدیل عبد الرحمن بن مہدی کا قول ہے: غندر فی شعبۃ اثبت منی [6] غندر امام شعبہ کے باب میں مجھ سے زیادہ تثبت رکھتے تھے۔

صحتِ کتاب

ترمیم

امام غندر ان علما متقنین میں سے تھے،جن کی کتاب یعنی مجموعہ روایات اپنی صحت وثقاہت کی وجہ سے سند کا مقام رکھتی ہے؛چنانچہ ابن معین فرماتے ہیں "کان من اصح الناس کتاباً"[7] امام وکیع انھیں صحیح الکتاب کہا کرتے تھے،عبد الرحمن بن مہدی کا ارشاد ہے،ہم لوگ امام شعبہ کی زندگی ہی میں غندر کے خزینہ روایات سے استفادہ کرنے لگے تھے،عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں: اذا اختلف الناس فی حدیث شعبۃ فکتاب غند رحکم بینھما [8] جب لوگ امام شعبہ کی کسی روایت کے بارے میں مختلف الرائے ہوجاتے تو غندر کی کتاب کو حکم قرار دیا جاتا۔

عبادت

ترمیم

دولتِ علم کے ساتھ زیورِ عمل سے بھی آراستہ تھے،پچاس سال تک مسلسل صومِ داؤدی پر عمل پیرا رہے،یعنی ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن افطار سے رہتے: مکث غندرخمسین سنۃ بصوم یوماً ویفطر یوماً [9] غندر پچاس سال تک ایک دن روزہ رکھتے رہے اورایک دن بے روزہ رہتے۔

وفات

ترمیم

سنہ وفات میں بہت اختلاف ہے،لیکن صحیح ترین یہ ہے کہ ذی قعدہ 193ھ میں بمقام بصرہ انتقال فرمایا،اس وقت 70 سال کی عمر تھی۔ [10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (مراۃ الجنان:1/443)
  2. (تہذیب التہذیب:9/98)
  3. (میزان الاعتدال للذہبی:3/36)
  4. (تہذیب التہذیب:9/92)
  5. (البدایہ والنہایہ:10/224)
  6. (ایضاً)
  7. (العبر فی خبر من غبر:311)
  8. (میزان:3/36)
  9. (مراۃ الجنان:1/443)
  10. (البدایہ والنہایہ:10/224،وتہذیب التہذیب:1/98 والعبر:1/311)