محمد بیچو برق
محمد بیچو کا خاندان مئو (ضلع اعظم گڑھ) کا رہنے والا تھا۔ ان کے والد الہیٰ بخش تلاشِ معاش میں کامٹی آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ نہایت شرف النفس اور نیک تھے۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وفات پائی۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ محمد بیچو اور محمد بیکانو۔ دونوں کو شاعری سے فطری لگاؤ تھا۔ اوّل الذکر کا تخلص برق ؔ اور ثانی الذکر کا تخلص بیدل ؔ تھا۔
محمد بیچو برقؔ | |
---|---|
پیدائش | ١٨٦٥ء کامٹی |
وفات | ١٩٢٦ء کامٹی، بھارت |
قلمی نام | برق |
پیشہ | شاعر |
قومیت | بھارتی |
اصناف | غزل، قصیدہ، نعت |
ابتدائی زندگی
ترمیمبرق ؔ ١٨٦٥ ء میںکامٹی (ضلع ناگپور) میں پیدا ہوئے۔ مشرقی طرز پر تعلیم حاصل کی۔ علمی استفادہ حافظ شکر الله سے کیا۔ ان کے لڑکپن اور نوجوانی کے ایام انتہائی بد حالی میں گذرے اور والد کے انتقال کے بعد معاشی پریشانیوں کا بری طرح شکار ہو گئے۔ گھر میں کوئی خاص شاعرانہ ماحول نہ ہوتے ہوئے بھی طبعیت شعر گوئی کی طرف مائل تھی۔ ان کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ کئی شاعروں نے ان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے اور کلام پر اصلاح لی ہے۔
نعتیہ نظموں پر ایک نظر
ترمیموہ درویش صفت انسان تھے۔ روزہ و نماز کے بے حد پابند تھے۔ میلاد خوانی پر عبور کھتے تھے۔ اصنافِ سخن میں نعت، غزل، مرثیہ اور پر طبع آزمائی کی شاعری میں دیگر قدیم شعرائے کرام کی طرح متصوفانہ رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں :
نہ ہو غم گین اتنا، دل تو سن کر حال محشر کا
وسیلہ ہے، بھروسا ہے، ہمیں اپنے پیمبر کا
جو کچھ تھا حال میرا وہ تو پہلے ہو چکا روشن
کروں پھر آپ سے میں کیا گلہ اپنے مقدر کا
ہوا ہے عشق پیدا دل کو جب سے اس شہِ دیں کا
اڑا جاتا ہوں یثرب کو کبوتر بن کے بے پر کا
رہیں تم کو مبارک حوروغلماں حضرتِ زاہد
مجھے دیدار ہو جائے شفیع روز محشر کا
میں جاؤں سر کے بل ہندوستاں سے جانب طیبہ
ستارہ اوج پر آئے اگر میرے مقدر کا
رسول اﷲ کی حق نے عجب صورت بنائی ہے
نہیں ہمتا دو عالم میں کوئی محبوبِ داور کا
برق ؔ پر رسول ِ خدا کی تعلیمات اور ان کی طرز زندگی کا خاص اثر نظر آتا ہے۔ انھیں رسول ؐ سے ایک خاص قسم کی محبت تھی۔ حج پر جانا اور رسول پاک ؐ کی زیارت کرنا ان کی استطاعت سے باہر تھا مگر دل میں ایک پاکیزہ جذبہ موجزن تھا۔ وفور شوق نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ وفور شوق نے دل کے تاروں کو چھیڑ ا اور ساز دل سے پاکیزہ نغمے ابل پڑے، جوش و سرمستی میں رسول پاک ؐ پر نظموں پر نظمیں موزوں ہوتی چلی گئیں۔ یہ تمام نظمیں پاکیزہ جذبات سے لبریز ہیں۔ ان میں ایک سرمستی و سر شاری کی کیفیت ملتی ہے۔ اشعار میں روانی، فطری پن اور غضب کی تاثیر ہے جو ان کی فنی پختگی اور شاعرانہ بصیرت کی شہادت دیتی ہے۔ ان کی یہ نظم فکر و فن کا بہترین شاہکار ہے۔ لہجے میں ایک توقیر، ٹھہراؤ، متانت و سنجیدگی نظر آتی ہے۔
دوسری نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
ہو گیا مقبول درگاہِ خدا میں وہ بشر
جو ثنا خواں ِ جنابِ صاحبِ لولاک تھا
حسنِ یوسف پر ہوئی عاشق زلیخا ہی فقط
خود فدا اے مصطفٰے تم پر خداے پاک تھا
میں گدا تو ہوں و لیکن اس درِدولت کا ہوں
ہفت کشور کا خزانہ جس کے آگے خاک تھا
بس طفیلِ پنجتن یہ مرتبہ مجھ کو ملا
ورنہ ازحد برقؔ تو لا علم بے ادراک تھا
حوالہ جات
ترمیمکامٹی کی ادبی تاریخ (مصنف : ڈاکٹر شرف الدین ساحل) سانچہ:کامٹی