کامٹی
کامٹی (انگریزی: Kamptee) بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے ناگپور ضلع میں واقع ایک شہر ہے۔[1]
شہر | |
ملک | بھارت |
ریاست | مہاراشٹر |
ضلع | ناگپور |
بلندی | 269 میل (883 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 136,124 |
زبانیں | |
• دفتری | مراٹھی زبان اور اردو |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
ڈاک اشاریہ رمز | 441001/441002 |
رمز ٹیلی فون | +91-7109 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | MH 40 And MH 31 |
تفصیلات
ترمیمکامٹی کی مجموعی آبادی 136,124 افراد پر مشتمل ہے اور 269 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔ کامٹی شہر ناگپور سے 15 کلومیٹر دور، ممبئی سے کولکتہ جانے والی ریلوے لائن پر واقع ہے اس کی تاریخ ناگپور کے سیاسی عروج و زوال سے وابستہ ہے۔ اس وقت یہ ناگپور ضلع کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
تاریخ
ترمیمتاریخی لحاظ سے اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ جب کلنگ کے بادشاہ کھارا ویلا نے شاتا واہنا خاندان کے راجا شاتاکرنی پر حملہ کیا تو، اس لڑائی میں شاتاکرنی کو بری طرح شکست ہوئی۔ یہ دونوں فوجیں لڑتے ہوئے کنہانا (کنہان) ندی تک آئی تھیں۔ یہ بات اس کتبے سے معلوم ہوتی ہے جو بھونیشور کے قریب اودے گری میں ملا ہے۔ کامٹی اسی ندی کے کنارے آباد ہے۔
مردم خیزی کے اعتبار سے کامٹی کی تاریخ قدیم نہیں ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں اس کی آبادی چند گھاس پھوس کے مکان پر مشتمل تھی۔ البتہ ١٨١٧ء کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیتا بلڈی کی لڑائی(دسمبر ١٨١٨ ء) کے بعد جب انگریزوں نے ناگپور پر سیاسی غلبہ حاصل کر لیا تو ٦ جنوری ١٨١٨ کو بھونسلہ راجا آپا صاحب اور انگریز ریذیڈنٹ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق انگریزوں کو ناگپور اور اس کے اطراف میں فوج رکھنے کا حق حاصل ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے کامٹی میں ایک فوجی چھاونی کے قیام کا منصوبہ بنایا۔
کامٹی فوجی چھاونی کا قیام
ترمیمفوجی چھاونی کے قیام کو عملی شکل دینے کے لیے کرنل جے ڈبلو ایڈمس کی قیادت میں کچھ فوجیں روانہ کیں، جو ١٢ جنوری ١٨٢٢ ء کو علی الصبح کامٹی پہنچیں اور کنہان ندی کے جنوبی کنارے پر خیمہ زن ہوگئیں۔ اس کے بعد ایڈمس کی سفارش پر مستقل فوجی چھاونی کا قیام عمل میں آیا۔ اس سلسلے میں ایڈمس نے رچرڈ جینکنس ریزیڈنٹناگپور کو جو خط بھیجا ہے، اس میں اس علاقے کو کیمپتھ لکھا ہے۔ غالباً یہی لفظ کثرت استعمال سے کامپٹی ہو گیا۔
کنہان ندی کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے کامٹی صحت بخش اور خوشگوار مقام ہے۔ اسی لیے فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد زیادہ تر فوجیوں نے یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اس طرح رفتہ رفتہ اس کی شہری آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔
کامٹی میں مسلمانوں کی آمد
ترمیماس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کامٹی میں مسلمانوں کی آمد انگریز فوج کے ساتھ ہوئی ہے۔ ان مسلمانوں کا تعلق جنوبی ہند سے تھا اور دکنی ان کی مادری زبان تھی، جو اس زمانے میں اردو کے قالب میں اچھی طرح سے ڈھل چکی تھی، لہٰذایہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یہاں اردو نے اپنا قدم جمانا شروع کر دیا تھا۔
جہاں تک مسلمانوں کی آمد قیام اور پھر وصال کا تعلق ہے ان کی بڑی تاریخ ہمیں اردو فارسی اور عربی کتبات سے ملتی ہے۔ کمسری بازار کا پرانا قبرستان اور وہاں پر موجود کتبات ہمیں ان تمام باتوں کی جانکاری دیتے ہیں خصوصاً مسلمان فوجی اور ان کے اہل خانہ جنھوں نے کامٹی کو اپنا وطن بنا لیا تھا ان کے متعلق سینکڑوں کتبات موجود ہیں۔ قادر جھنڈا یعنی باگ ڈورا نالے کے کنارے والا قبرستان، کمسری بازار اور ریلوے لائن کے دونوں طرف موجود قبریں، بابا عبد اللہ شاہ کی درگاہ اور وہاں پر قدیم قبریں اور موجودہ مسلم قبرستان نزد ریلوے لائن ان تمام مقامات پر ہمیں تاریخ ملتی ہے ان میں فوجی بھی ہیں، غیر فوجی بھی، حافظ بھی، مختلف برداریوں کے اہم لوگ اور افسر اعلی بھی ہیں۔ کامٹی کے چمک دمک، کامٹی کا علمی و ادبی و مذہبی ماحول، مساجد و مقابر کی تعمیر، اہل قلم اور اہل ہنر کے ساتھ ساتھ بزرگان دین کا مسکن اہل کامٹی کے لیے باعث افتخار رہا ہے جب ہم ان کتبات کی تحقیق و جستجو کرتے ہیں تب ہمیں مسلمانوں کی کامٹی آمد ان کا اس شہر سے دائمی رشتہ و تعلق ان کے کا رہائے نمایاں ان تمام امور پر روشنی پڑتی ہے چنانچہ پہلی بار اس بات کو رسوق کے ساتھ علم میں لایا جا رہا ہے۔ کامٹی کمسری بازار کا قبرستان جو کامٹی کنہان شاہراہ کے دائیں جانب واقع ہے اور جہاں حضرت سید ملنگ شاہ ؒ کی قدیم درگاہ بھی واقع ہے۔ کامٹی کے قدیم ترین قبرستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ عبد الرحیم صاحب ولد شیخ حسین مرحوم وہاں کے نگراں ہیں اور سالانہ عرس بھی گیارہ سے تیراہ ربیع الثانی منعقد ہوتا ہے مگر اس مزار پر کوئی کتبہ نہیں ہے البتہ شاہراہ کامٹی اور کنہان کے دائیں جانب ایک اونچے پختہ پلیٹ فارم پر وو قبریں اور دونوں قبروں پر کتبے نصب ہیں یہ بڑے اہم ہیں اور مسلمانوں کے قدیمی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں ۔ پہلا کتبہ اس طرح ہے
صوبیدار میجر محمد حیرت سیوم رجمنٹ
بتاریخ شنبہ دہم ماہ جمادی الاول
ازیں دار فانی گشتہ
عقل گم شد
١٢٤٨ ہجری
یہ کتبہ ٥ ؍ اکتوبر١٨٣٢ کا ہے
دوسرا کتبہ
فرزند صوبیدار میجر محمد قاسم بعداز
رحلت پدر بزگوار بتاریخ اول
ماہ جمادی الثانی ١٢٤٨نبوی
دریں جہاں فانی بعالم جاویدانی
شنافٹ
اس کتبہ کی تاریخ ٢٦ ؍ اکتوبر ١٨٣٢ء قرار پاتی ہے چنانچہ ایک ماہ کے اندر ہی میجر محمد حیرت اور ان کے فرزند محمد قاسم کی رحلت ہوئی دونوں ہی فوج خاندان سے متعلق ہیں ان کے شایان شان پختہ پلیٹ فارم بنا اور آج بھی اسی مضبوطی سے قائم ہے ۔
کامٹی میں اردو کی آمد
ترمیمکامٹی میں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد میں 1857ء کے انقلاب کے فوراً بعد زبردست اضافہ ہوا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انگریزوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے مشرقی اترپردیش سے مومن برادری کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں قافلہ وسط ہند کی طرف چلے آئے اور مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ کامٹی میں پناہ گزیں ہوئے اور دھیرے دھیرے اس کی آبادی کا ایک مؤثر حصہ بن گئے۔ مسلم آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ یہاں اردو بھی پروان چڑھتی رہی۔ کامٹی میں اس وقت کل آبادی کے تناسب سے ٣٠ فی صد اور مرہٹی آبادی کے تناسب سے ٨٣ فی صد لوگوں کی مادری زبان اردو ہے۔
اردو جرائد و رسائل
ترمیمجرائد و رسائل | قسم | آغاز | مدیر |
---|---|---|---|
درِّ سخن،کامٹی | ماہنامہ | مارچ 1935 | مولانا محمد عمر انصاری اطہر |
جمہور،کامٹی | سہ روزہ | 25 اپریل 1935 | مولانا محمد عمر انصاری اطہر |
الفاروق،کامٹی | ہفتہ وار | 3 جولائی 1935 | عبدالستار فاروقی |
خیال،کامٹی | ماہنامہ | اپریل 1957 | فیض انصاری |
تاج ،کامٹی | ہفتہ وار | 4 جولائی 1966 | ظہیر افروز |
امنگ ،کامٹی | پندرہ روزہ | یکم مارچ 1970 | شمیم فیضی |
لہو ترنگ ،کامٹی | ہفتہ وار | 1975 | وسنت دیش پانڈے |
رقیب،کامٹی | پندرہ روزہ | 25 جون1977 | نصیر اعظمی |
اخوت ،کامٹی | ہفتہ وار | یکم جنوری 1981 | وکیل عارف |
تعلیمی سفر (ماہنامہ) | ماہنامہ | یکم جنوری 2006 | ڈاکٹر رفیق اے ایس |
الفاظ ہند (ماہنامہ) | ماہنامہ | یکم جنوری 2014 | ریحان کوثر |
سربکف | دو ماہی | یکم جولائی 2015 | فقیر شکیب ؔاحمد |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر کامٹی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
|
|