محمد تقی بہار
محمد تقی بہار ایرانی شاعر تھے۔ بہار شاعر ہونے کے علاوہ محقق، ادیب، معلم، مدیر اخبار اور سیاسی شخص تھے۔ مشہد میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد ادیب نیشاپوری سے اصلاح لی۔ آصف الدولہ غلام رضا خاں کے توسط سے مظفر الدین شاہ نے ملک الشعراء کا خطاب عطا کیا۔ اور سالانہ وظیفہ بھی متعین ہوا۔ 1906ء میں ایران میں مشروطیت کا آغاز ہوا۔ تو انقلابیوں کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ اور آزادی پر مقالات اور نظمیں لکھیں۔ نوبہار اور دانشکدہ جاری کیے۔ پانچ بار مجلس شوری ملی کے نمائندے منتخب ہوئے۔ رضا شاہ پہلوی کے عہد میں سیاست سے کنارہ کش ہوکر تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ دارالمعلمین عالی اور تہران یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے۔ کچھ عرصہ وزارت تعلیمات کا قلمدان بھی سنبھا لا۔ بہت سی علمی و ادبی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف تھے۔
محمد تقی بہار | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 7 نومبر 1886ء [1] مشہد [2] |
وفات | 21 اپریل 1951ء (65 سال)[1] تہران [3] |
وجہ وفات | سل |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | ایران |
عارضہ | سل |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، سیاست دان ، صحافی ، مورخ ، ادیب ، مترجم ، مضمون نگار ، مصنف [4]، استاد جامعہ |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی [5] |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیممرزا محمد تقی نام، بہار تخلص، ملک الشعرا محمد کاظم صبوری کے صاحبزادے تھے۔ مشہد میں 9 دسمبر 1886ء کو پیدا ہوئے اور عربی و فارسی کی تعلیم مشہد ہی میں حاصل کی۔ سترہ سال کے تھے کہ یتیم ہو گئے۔ تحصیل علم کے بعد غلام رضا خاں آصف الدولہ گورنر خراساں کے پاس پہنچے جنھوں نے مظفر الدین شاہ قاجار سے ملک الشعرا کا خطاب دلایا اور سالانہ وظیفہ مقرر کرا دیا۔
سنہ 1906ء میں انقلاب ایران کے موقع پر ایک پرخلوص اور پرجوش انقلابی رکن رہے اور اپنی انقلابی نظموں سے مقبولیت حاصل کی۔ 1911ء میں "نوبہار" نامی روزنامہ جاری کیا۔ انقلابی ادب کی وجہ سے دوبار جلاوطنی ملی۔ حکومت نے اخبار بند کر دیا۔ حکومت کے دباؤ کیوجہ سے اکثر انقلابی اراکین تہران سے نکل گئے۔ بہار ان میں شریک تھے۔ جب واپس ہوئے تو دوبارہ اخبار جاری کیا۔ مجلس شعرا ملی کے رکن رہے اور پھر تصنیف و تالیف کو مشغلہ بنا لیا۔ اخباروں کے لیے کئی تحقیقی مقالات لکھے۔ ایک ناول "نیرنگ سیاہ پاکیزان سفید" کے نام سے لکھا۔
تاریخ سیستان، مجمل التوائخ و القصص اور سبک شناسی ان کی اہم تالیفات میں شمار ہوتی ہیں۔ عبارت میں سلاست، جوش اور روانی ہے۔ قصیدہ کی طرز کے استاد تسلیم کیے جاتے ہیں اور ادبی تاریخ پر حاوی ہیں۔ مرض سل میں مبتلا ہو کر تہران میں 22 اپریل 1951ء کو انتقال کیا۔ مقبرہ ظہیر الدولہ، شمران میں دفن کیے گئے۔
تخلیقات
ترمیم- منظومۂ چہار خطابہ، 1926ء
- اندرزہای آذرباد ماراسپندان (ترجمۂ منظوم از پہلوی)، 1933ء
- یادگار زریران (ترجمۂ منظوم از پہلوی)، 1933ء
- زندگانی مانی، 1934ء
- گلشن صبا، فتح علی خان صبا (تصحیح)، 1934ء
- احوال فردوسی، 1934ء
- تاریخ سیستان (تصحیح)، 1935ء
- رسالۂ نفس ارسطو ترجمۂ باباافضل کاشانی (تصحیح)، 1937ء
- مجملالتواریخ والقصص (تصحیح)، 1939ء
- منتخب جوامعالحکایات، سدیدالدین عوفی (تصحیح)، 1945ء
- سبکشناسی، (تین جلد) 1942ء–1947ء
- تاریخ مختصر احزاب سیاسی (دو جلد)، 1942ء–1983ء
- دستور زبان فارسی پنج استاد (بہ ہمراہی قریب، فروزانفر، رشید یاسمی، ہمایی)، 1950ء
- شعر در ایران، 1954ء
- تاریخ تطّور در شعر فارسی، 1955ء
- دیوان اشعار، تہران، 1956ء
- تاریخ بلعمی، ابوعلی محمدبن محمد بلعمی (تصحیح) (بہ کوشش محمد پروین گنابادی)، 1962ء
- فردوسینامہ بہار، (بہ کوشش محمد گلبن)، 1966ء
- رسالہ در احوال محمدبن جریر طبری
- بہار و ادب فارسی
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب http://www.bahar-site.fr/Bahar_fr.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 31 جنوری 2018
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118932500 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118932500 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 جنوری 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118932500 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13325943g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ