محمد حسین شہریار تبریزی
محمد حسین شہریار کا اصل نام " سید محمد حسین بہجت التبریزی" ہے لیکن وہ اپنے تخلص " شہریار " کی نسبت مشہور ہوئے۔
شہریار | |
---|---|
(South Azerbaijani میں: سید محمدحسین بهجت شهریار)،(فارسی میں: سید محمدحسین بهجت تبریزی) | |
شہریار بڑھاپے میں
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1906ء تبریز، قاجار خاندان سلطنت، موجودہ صوبہ آذربائیجان شرقی، ایران |
وفات | 18 ستمبر 1988ء (عمر: 82 سال) مقبرۃ الشعراء، تہران، تہران صوبہ، ایران |
مدفن | مقبرہ الشعرا |
شہریت | ایران |
مذہب | شیعہ اسلام |
زوجہ | عزیزہ عبد الخالق (1947ء- 1953ء) |
اولاد | شہرزاد، ھادی، مریم |
عملی زندگی | |
پیشہ | ایرانی شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | ترکی ، فارسی ، آذربائیجانی |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
مقام و حیثیت
ترمیممحمد حسین شہریار ایرانی شاعر تھے جو تمام عمر ایرانی آذربائیجانی خطہ کی نمائندگی کرتے رہے۔ اِس واسطے انھوں نے آذری ترکی زبان کو بھی شاعری کے لیے اِستعمال کیا۔ محمد حسین شہریار ماہر موسیقی اور خطاط بھی تھے۔
ولادت
ترمیممحمد حسین شہریار 1324ھ مطابق 1906ء میں ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔
تحصیل علم و ملازمت
ترمیمانھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اپنے والد سے ہی دِیوان حافظ پڑھا۔ ثانوی تعلیم تبریز کے منصور ہائی اسکول سے حاصل کی۔ بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کی خاطر تہران چلے گئے جہاں دارالفنون میں داخلہ لیا۔ جہاں انھوں نے کالج میں طب کی تعلیم حاصل کی مگر ڈگری کے حصول سے قبل ہی وہ وہاں سے خراسان چلے گئے اور وہاں کلرک کی ملازمت اِختیار کرلی۔
1921ء میں دوبارہ تہران آئے اور دارالفنون میں داخلہ لیا۔ 1924ء میں دارالفنون سے ڈگری حاصل کی۔ اِسی زمانہ میں شاہِ ایران کی مخالفت کی۔ ایک سیاسی جماعت میں داخلے پر پابندی سے اُن کا تعلیمی سفر متآثر ہوا اور وہ نیشاپور سے ہوتے ہوئے دوبارہ خراسان چلے گئے۔ 1935ء میں وہ دوبارہ تہران واپس آئے اور تہران کے ایک زرعی بینک میں ملازمت اِختیار کی۔
ادب فارسی میں خدمات
ترمیمخراسان میں ہی اُن کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا جس میں اُن کا تخلص " بہجت " تھا مگر بعد میں تبدیل کرکے "شہریار" رکھا۔ 1929ء میں اُن کا پہلا فارسی مجموعہ کلام شائع ہوا جس میں صرف نظمیں تھیں۔ یہ شعر مجموعہ حافظ کی غزلوں اور دیوان سے متاثری کا نتیجہ تھا۔
1936ء میں اُن کا پہلا آذری ترکی زبان کا شعری مجموعہ طبع ہوا۔
1954ء میں اُن کا فارسی شاہکار " حیدر بابائی سلام " تبریز سے شائع ہوا اور شہریار ادب فارسی میں نمایاں صف میں شمار کیے جانے لگے۔ اِس شعری مجموعہ سے اُن کی شہرت کا ڈنکا ترکمانستان، ترکی اور آذربائیجان میں بجنے لگا اور قریباً 30 زبانوں میں اِس کا ترجمہ ہوا۔ تبریز یونیورسٹی سے انھیں اعزازی ڈگری دی گئی۔ بعد ازاں دوسری جنگ عظیم میں ہولناک تباہیوں کے نتیجے میں آئن سٹائن کے نام ایک نظم بھی اُن کی وجہ شہرت بنی۔
قصیدہ
ترمیمآمدی جانم بہ قربانت ولی حالا چرا؟بیوفا حالا کہ من افتادہ ام از پا چرا؟ نوشداروئی و بعد از مرگ سہراب آمدیسنگدل این زودتر میخواستی حالا چرا؟ نازنینا ما بہ ناز تو جوانی دادهایمدیگر اکنون با جوانان ناز کن با ما چرا؟ آسمان چون جمع مشتاقان پریشان میکنددر شگفتم من نمیپاشد ز ہم دنیا چرا؟ در خزان ہجر گل، ای بلبل طبع حزینخامشی شرط وفاداری بود غوغا چرا؟ شہریارا بیحبیب خود نمیکردی سفراین سفر راہ قیامت میروی تنہا چرا؟
معروف غزل علی ای ہمای رحمت
ترمیمعلی ای ہمای رحمت تو چہ آیتی خدا را۔۔۔۔
کہ بہ ماسوا فکندی ہمہ سایہ ہما را
دل اگر خداشناسی ہمہ در رخ علی بین۔۔۔۔
بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدا را
۔۔۔
«ہمہ شب در این امیدم کہ نسیم صبحگاہی
بہ پیام آشنائی بنوازد آشنا را»
ز نوای مرغ یا حق بشنو کہ در دل شب
غم دل بہ دوست گفتن چہ خوشست شہریارا[1]
کہا جاتا ہے کہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی (جو شیعہ مراجع تقلید میں سے تھے) نے سینکڑوں کیلومیٹر دورعین اسی وقت خواب میں اس غزل کو سنا جس وقت غیر معروف (ابھی تک ان کی شہرت بھی نہیں ہوئی تھی) شاعر شہریار نے یہ کہی تھی۔[2]
وفات
ترمیم18 ستمبر 1988ء کو 82 سال کی عمر میں انھوں نے تہران میں وفات پائی اور اُن کی میت کو تبریز لے جایا گیا جہاں " مقبرۃ الشعراء " میں اُن کی تدفین کی گئی۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "شورای گسترش زبان فارسی، شعر کہن، شہریار، علی ای ہمای رحمت، دیوان شہریار سے اخذ شدہ"۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2015
- ↑ سایت فصل نو، شعر شہریار و خواب مرعشی نجفی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ faslenow.com (Error: unknown archive URL)شعر شہریار و خواب آیت اللہ مرعشی نجفی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ fetrat.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ "home.no - home Resources and Information"۔ 19 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2015