محمد حسین قادری

پاکستانی عالم دین

مفتی ابو الخیر محمد حسین قادری صوبہ سندھ کے اہلسنت کے اکابر علمائے کرم میں شامل ہیں۔

محمد حسین قادری
لقبعالم دین،قادری بزرگ
ذاتی
پیدائش1932ء
وفات14 فروری1998ء
مذہباسلام
فرقہسلسلہ نقشبندیہ
مرتبہ
دورجدید دور

ولادت ترمیم

شیخ الحدیث محمد حسین قادری بن محمد بہادر حسین کھتری 9 ، ستمبر 1932ء میں ریاست مالوہ ( انڈیا ) کے ایک قصبہ سمبلیا میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے سکھر سندھ وارد ہوئے ۔

تعلیم و تربیت ترمیم

ابتدائی تعلیم فارسی و عربی کی اندور اجین ( انڈیا ) پھر سکھر میں حاصل کی۔کچھ عرصہ دارالعلوم امجدیہ ( آرام باغ ) کراچی میں پڑھتے رہے پھر محدث اعظم پاکستان استاد الاساتذہ ، صدر المدرسین مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد لائلپوری کی خدمت میں فیصل آباد حاضر ہوئے جہاں انھوں نے کتب عالیہ موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کے پاس دار العلوم مظہر الاسلام فیصل آباد میں دورہ حدیث شریف پڑھا ۔ 1956ء میں علوم دینیہ سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت محدث اعظم ، شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفٰی الازہری ، مفتی رضوان الرحمن ، مولانا حمید اللہ ، مفتی ابو سعید محمد امین فیصل آبادی ، مولانا ولی النبی اور مفتی ظفر علی نعمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

جامعہ غوثیہ رضویہ کا قیام ترمیم

1958ء میں فریئر روڈ پر واقع اپنے ذاتی مکان میں جامعہ غوثیہ رضویہ کی بنیاد رکھی ۔ رفتہ رفتہ جب طلبہ کی تعداد بڑھی اور مدرسہ کی مختصر عمارت طلبہ کی تعداد کے مقابلہ میںکم پڑنے لگی تو محلہ باغ حیات علی شاہ کی ایک بوسیدہ عمارت میں جامعہ غوثیہ کو شفٹ کیا گیا۔1974ء میں اس قدیم عمارت کو گرا کر ایک نئے علمی گہوارہ کی بنیاد قائد اہلسنت عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے رکھوائی گئی۔ اس جامعہ سے ہزار ہاتشنگان علم نے فیض پایا اور آج کشمیر سمیت وطن عزیز کی تمام صوبہ جات میں جامعہ غوثیہ رضویہ کے فارغ التحصیل علما ، قراء ، حفاظ ، دین متین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔

بیعت و خلافت ترمیم

زمانہ طالب علمی ہی میں شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم علامہ مصطفٰی رضا خان بریلوی کے دست کریم پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ اسی لیے ’’قادری ‘‘ کہلائے ۔ اس کے بعد اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ اس کے علاوہ مفتی خواجہ محمد قاسم مشوری ( خانقاہ عالیہ مشوری شریف ) کے نہایت عقیدت مند تھے اور اکثر آستانہ عالیہ پر حاضری دیتے تھے اور اپنے فتاویٰ پر تصدیق لیتے رہتے تھے۔

سیرت و خصائل ترمیم

ایک بلند پایہ عالم دین اور سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی آراستہ تھا۔ جو شخص ان سے ایک بار مل لیتا گرویدہ ہو جاتا تھا ان کی طبیعت میں حلم حوصلہ اور بلا کا صبر تھا۔وہ ایک صاف دل صوفی منش انسان تھے انھیں ناراض کرنے والا بہت آسانی سے منا لیتا تھا۔ وہ اپنوں پر مہر بان اور دشمنان دین کے لیے شمشیر بے نیام تھے وہ سادہ مزاج تھے مگر دینی معاملہ میں بہت دانا ہوشیار تھے، انھیں دنیوی معاملات میں نقصان پہنچانا ممکن تھا مگر دینی معاملات میں انھیں دھوکا دینا ممکن نہیں تھا۔ جہاں وہ ایک بہترین مدرس تھے وہاں وہ خوش الحان مقرر بھی تھے۔ قصیدہ بردہ شریف ان کی خاص پہچان تھا، وہ جذب و مستی کے عالم میں جب قصیدہ بردہ شریف پڑھتے تھے تو سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔

شاگرد ترمیم

آپ کے تلامذہ اور ان کے تلامذہ ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہیں جو آپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں ۔

  • مفتی غلام سرور قادریؒ مہتمم : جامعہ رضویہ ماڈل ٹاؤن لاہور ، سابق صوبائی وزیر اوقاف حکومت پنجاب
  • مفتی محمد اشفاق رضوی مہتمم : مدرسہ غوثیہ جامع العلوم خانیوال ، حال مقیم برطانیہ
  • مفتی غلام محمد قاسمی مہتمم : جامعہ غوثیہ قاسمیہ کو ئٹہ
  • مولانا حبیب احمد نقشبندی مہتمم : جامعہ اسلامیہ نور یہ کوئٹہ
  • مفتی محمد شریف خان خطیب جامع مسجد روہڑی
  • مفتی محمد ابراہیم قادری جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر
  • مفتی عبد الحفیظ برکاتی خطیب جامع مسجد صدر حیدرآباد
  • مولانا نصر اللہ قادری مہتمم جامعہ غوثیہ لطیفیہ شکار پور
  • مولانا شمیم الحسن قادری سوئی ، بلوچستان
  • مولانا محمد الیاس رضوی مہتمم : نضر العلوم و خطیب حنفیہ مسجد رنچھوڑ لائن کراچی
  • مولانا قاری خیر محمد قاسمی خطیب جامع مسجد شیخ زید لاڑکانہ

سیاسی زندگی ترمیم

1970ء میں سیاست میں قدم رکھا، ملک سے لاقانونیت ، عدم انصاف ، ظلم ، مہنگائی ، بے حیائی ، عریانی ، فسق و فجور کو ختم کر کے ملک کو امن و سلامتی ، عدل و انصاف ، اسلام کا بول بالا کرنے ، نظام مصطفٰی ﷺ کے نفاذ کے لیے حجرے سے نکل کر میدان میں آئے اور زندگی بھر اپنے مقصد کے لیے کام کرتے رہے ۔ 1970ء میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1971ء میں جنرل ضیاء الحق کی ’’مجلس شوریٰ ‘‘ کے ارکان ہوئے ۔ زندگی بھر جمعیت علما پاکستان سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔ اور 1995ء سے تادم و صال جماعت اہلسنت پاکستان سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اور 1995ء سے تادم وصال جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ سندھ کے امیر رہے۔

تصنیف و تالیف ترمیم

مفتی صاحب کو مر وجہ دینی علوم میں دسترس حاصل تھی ، انھوں نے تقریباً ہر فن کی کتاب پڑھائی مگر انھیں زیادہ تر فقہ و حدیث سے لگاوٗ تھا۔ درس حدیث شریف تو ان کی روحانی غذا تھی، وہ شدید علالت کے ایام میں بھی صحیح بخاری پڑھاتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں فقہ میں ایک خاص بصیرت سے نواز تھا۔ یہی وہ مصروفیات ہیں جن کے سبب انھیں تصنیف و تالیف کا وقت کم ملا۔ آپ نے کافی تعداد میں فتاویٰ تحریر فرمائے تھے ، اگر ترتیب و تدوین کا کام کیا جائے تو ’’فتاویٰ قادریہ ‘‘ کا ایک دفتر بن جائے ۔ ان کے علاوہ ایک کتابچہ ’’فاتحہ کا طریقہ ‘‘ آپ کی تالیف ہے جو عرصہ سے مختلف مقامات سے سیکڑوں بار شائع ہوا ہے۔ ملک العلماء ، علامہ ظفر الدین محدث بہاری ؒ نے فقہ حنفیہ کے متعلق کتب احادیث سے احادیث جمع و ترتیب کا کام کیا تھا وہ کتاب ’’صحیح البھاری ‘‘ کے نام سے شہرت رکھتی ہے یہ چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی جلد کا آپ نے ترجمہ شروع کیا تھا۔

وفات ترمیم

آپ 18برس سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے 8 ماہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد11 رمضان المبارک 1419ھ بمطابق 31، دسمبر 1998ء بروز جمعرات بعد نماز فجر لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں وصال فرمایا۔ اگلے روز ( جمعۃ المبارک ) جامعہ غوثیہ رضویہ کے دارالحدیث میں ہزاروں عقیدت مندوں نے جنازہ اداکیا۔

بندہ خیرالوریٰ وہ عاشق غوث و رضا

نازش علم و عمل رشک زماں جاتا رہا [1][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. روز نامہ یاد گار سکھر کا خاص شمارہ فروری 1999ء۔
  2. انوار علمائے اہل سنت سندھ صفحہ 832،زین العابدین شاہ زاویہ پبلشر لاہور۔