محمد علی بارفروشی

حروف حی

ملا محمد علی بارفروشی جسے بابی مذہب کے افراد قدوس کے لقب سے یاد کرتے ہیں، علی محمد باب کا سب سے بڑا خلیفہ اور اٹھارہواں اور آخری حروف حی تھا۔ بارفروشی مقام قدوسیت اور رجعت رسول اللہ کا بھی مدعی تھا۔ رجعت رسول اللہ سے اس کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر اسلام از سر نو دنیا کے اندر تشریف لا کر بارفروشی کے پیکر میں ظاہر ہوئے ہیں۔[1]

محمد علی بارفروشی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1822ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بابل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 مئی 1849ء (26–27 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بابل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پھانسی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت قاجار خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مراتب

ترمیم

حاجی میزرا جانی کاشانی نقطۃ الکاف میں لکھتا ہے کہ بارفروشی کے حق میں بہت سی حدیثیں ائمہ دین سے وارد ہیں۔ منجملہ ان کے وہ حدیث ہے کہ جب سیاہ جھنڈے خراسان کی طرف آتے دیکھو تو سمجھ لو کہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہے۔ ایک وہ حدیث ہے جس میں چار جھنڈوں کا ذکر ہے۔ رایت یمانی، حسینی، خراسانی، طالقانی۔ یہ چاروں جھنڈے حق ہیں اور سفیانی پرچم جو ان چاروں کے بالمقابل ہے باطل ہے۔ حاجی میزرا جانی کاشانی لکھتا ہے کہ اس حدیث میں رایت یمانی سے مراد جناب ذکر (علی محمد باب) اور رایت حسینی سے مراد حضرت قدوس (ملا محمد علی بارفروشی) کا پرچم ہے۔ رایت خراسانی سے سید الشہداء علیہ السلام (ملا حسین بشرویہ) کا جھنڈا مقصود ہے اور جس نے خراسان سے حرکت کی تھی[2] اور رایت طالقانی سے مراد جناب طاہرہ (قرۃ العین) ہے جس کا باپ طالقانی تھا اور سفیانی جھنڈا ناصر الدین شاہ والئ ایران کا پرچم ہے۔[3]

بابیوں نے قائمیت کا منصب دو شخصیات کو دے رکھا تھا ایک مرزا علی محمد باب کو اور دوسرا محمد علی بارفروشی کو لیکن بابیوں کی بعض تحریروں میں ملا علی محمد بارفروشی کو علی محمد باب سے بھی فائق و برتر بتایا گیا ہے۔ چنانچہ حاجی میرزا جانی کاشانی لکھتا ہے کہ اس دورہ میں اصل نقطہ حضرت قدوس (ملا بارفروشی) تھے اور جناب ذکر (علی محمد) اس کے باب (وسیلہ) تھے لیکن چونکہ رجعت کا دورہ تھا اور ولایت ظہور میں نبوت پر سبقت لے گئی۔ اس لیے جناب ذکر (علی محمد) پہلے ظاہر ہو کر تین سال تک داعی الی الحق رہا۔ اس کے بعد چوتھے برس حضرت قدوس (ملا محمد علی بارفروشی) ظاہر ہوئے۔[4]

شہزادہ ملا محمد علی کو حفاظت میں بارفروش لایا جہاں اس وقت جشن منایا جا رہا تھا۔ شہزادے کا منصوبہ اپنے قیدی کو تہران لے جا کر بادشاہ کو سونپنا تھا۔ تاہم ایک شیعہ عالم سعید العلماء بارفروشی نے قسم کھائی تھی کہ وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک وہ اپنے ہاتھوں سے ملا محمد علی بارفروشی کو قتل نہ کر دیں۔ شہزادے نے ملا محمد علی بارفروشی اور مرجع تقلید سعید العلماء کی ملاقات کا اہتمام کیا اور بعد ازاں قیدی کو انھیں سونپ دیا۔ 6 مئی 1849ء کو ملا محمد علی بارفروشی کو ایک مشتعل ہجوم کے حوالے کر دیا گیا۔ ہجوم نے اس کا جسم پھاڑ دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے آگ میں جھونک دیا۔ بعد ازاں محمد علی بارفروشی کے کچھ حصے اس کے دوست نے جمع کر کے اس مقام کے قریب ہی دفن کر دیے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابو القاسم رفیق دلاوری۔ جھوٹے نبی۔ لاہور: مرکز سراجیہ۔ صفحہ: 489 
  2. میرزا جانی کاشانی، نقطة الکاف، ص 156
  3. تلخیص تاریخ نبیل زرندی، ص 316
  4. ابو القاسم رفیق دلاوری۔ جھوٹے نبی۔ لاہور: مرکز سراجیہ۔ صفحہ: 490 
  5. میرزا حسین ہمدانی، تاریخ جدید (تاریخ عہد اعلی)، صفحہ 92