قرۃ العین طاہرہ مشہور فارسی شاعرہ، علی محمد باب کی سترہویں حروف حی اور بہائی مذہب کی مبلغہ تھیں۔ کلاسیکی فارسی شاعرات میں ان کا نام سب سے بلند ہے۔

قرۃ العین طاہرہ
قرۃ العین طاہرہ، زرین تاج

معلومات شخصیت
پیدائش 1814 ء یا 1817ء
ایران
وفات اگست 16–27 1852ء
ایران
طرز وفات سزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت علیہ ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب بابیت [1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذہ شیخ احمد احسائی ،  سید کاظم رشتی ،  باب   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعرہ الٰہیات اور حقوق نسواں کی کارکن
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  ترکی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شاعری ،  فعالیت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زندگی ترمیم

1814 یا 1817 میں ایران کے قدیم شہر قزوین میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام زرین تاج تھا۔ وہ ایران کے عظیم شیعہ آیت اللہ ملا برغانی کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام آمنہ خانم قزوینی تھا۔ ان کی شادی قزوین کے نوجوان عالم شیخ محمد تقی سے ہوئی، جنہیں شہید ثالث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کی فطانت اور علمیت کا یہ عالم تھا کہ کم عمری ہی میں وہ اپنے والد اور چچا جیسے نوابغ کو مباحثوں میں لاجواب کر دیتیں۔ وہ بچپن ہی سے ایک قادر الکلام شاعرہ بھی تھیں۔ ایران میں ان کی شہرت کی ایک اور وجہ ان کا حسن و جمال بھی تھا۔1850ء میں، دین میں فتنہ پھیلانے کے الزام میں بادشاہ ناصر الدین قاچار نے انھیں سزائے موت دلوا دی۔

مذہب ترمیم

وہ پیدائشی طور پر شیعہ خانوادہ سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن ابتدا ہی سے ہر بات پر “کیوں“ کی جرح کرنے والا باغیانہ مزاج پایا تھا۔ شہر میں دینی مسائل پوچھنے کے لیے آنے والی خواتین سے انھوں نے علی محمد باب کے خروج اور تعلیمات کا سنا جس نے حال ہی میں مہدویت کا دعویٰ کیا تھا۔ طاہرہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہوئیں اور باب سے خفیہ خط کتابت شروع کر دی۔ وہ علی محمد باب پر ایمان لانے والے پہلے 18 لوگوں (جو بابی تاریخ میں “حروف حی“ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں)، میں سے واحد خاتون مبلغہ تھیں۔ جملء ابجد میں18 کی تعداد ح اور ی سے مل کر بنتی ہے یعنی 8+10= 18) اس لیے ان 18 شخصیات کو حروفِ حی کا نام دیا گیا- سیّد کاظم رشتی نے انھیں “قرۃ العین“ کا لقب دیا اور بہاء اللہ نے انھیں “طاہرہ“ کا لقب دیا۔ انھوں نے اپنے گھر کو خیرباد کہنے کے بعد شہر بہ شہر بابی مذہب کی تبلیغ شروع کر دی اور ہزاروں لوگوں کو اپنے نظریات سے متاثر کیا۔ وہ ایک بلیغ اور شعلہ نوا مقرر تو تھیں ہی، لیکن ان کے حسن کا یہ عالم تھا کہ وہ جب دوران تقریر اپنے چہرے سے نقاب گرا دیتیں تو مجمع میں موجود تمام حاضرین بابی مذہب کا کلمہ پڑھنے لگتے۔

علی محمد باب نے ان کے تن میں جناب سیّدہ فاطمۃ الزھرا کی روح کے حلول کر جانے کی نوید دی، جس سے انھوں نے مظہر سیدہ طاہرہ ہونے کا دعویٰ کر دیا، جسے ایران میں ہاتھوں ہاتھ‍ لیا گیا۔

بعد ازاں وہ بہاء اللہ کی تعلیمات کی بھی بہت بڑی مبلغ بنیں۔ بغداد پہنچ کر مفتی اعظم سے ملاقات کی اور نہایت ہی قابلیت کے ساتھ بابی تحریک پر روشنی ڈالی، پھر مفتی اعظم سے درخواست کی کہ وہ انھیں تبلیغِ بابیت کی اجازت دیں۔ مفتی اعظم سے نااُمید ہونے کے بعد انھوں نے گورنر وقت سے ملاقات کی اور تبلیغ کی اجازت چاہی، گورنر نے اِن کو کہا ”میری عملداری سے نکل جاؤ“۔ ناچار انھوں نے بغداد کو چھوڑ دیا۔ بغداد سے نکلتے ہی یہ بابیت کی تبلیغ میں مشغول ہوگئیں۔ بغداد سے کرمان شاہ اور کرمان شاہ سے ہمدان جاتے جاتے انھوں نے کئی افراد کو دائرہ بابیت میں داخل کیا۔ اس کے بعد زرین تاج عرف قرۃ العین نے ہمدان سے طہران جا کر محمد شاہ والئی ایران کو وعظ و نصیحت کرنے کا قصد کیا۔ جب اِن کے والد حاجی ملا صالح کو اس بات کا علم ہوا تو جلدی سے آئے اور بیٹی کو قزوین لے گئے۔ کچھ ایام تک زرین تاج امن و سکون سے رہیں لیکن حسب معمول بابیت کا پرچار دوبارہ شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے ان کے شوہر اور سسر کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی۔ پھر انھوں نے فتویٰ دیا کہ محمد تقی (شوہر) و ملا محمد (سسر) دونوں واجب القتل ہیں اور کہا ”جو تبلیغ کا مانع ہے اس کا خون حلال ہے“۔ یہ سن کر بابی جوش میں آ گئے اور محمد تقی کو قتل کا منصوبہ بنا کر ان کا قتل کر ڈالا۔

وفات ترمیم

1850ء میں بغاوت، دین میں فتنہ پھیلانے اور خواتین کے حقوق پر کچھ‍ باغیانہ سوالات اٹھانے کے الزام میں ایران کے بادشاہ ناصر الدین قاچار نے اپنے دربار بلایا۔ انھوں نے بادشاہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کہے:

تو و ملک و جاۂ سکندری من و رسم و راۂ قلندری

اگر آن نکوست، تو در خوری، اگر این بد است، مرا سزا

(تیرے پاس ملک، جاہ اور بادشاہی ہے، میں ہوں کہ میرے پاس قلندرانہ اطوار ہیں۔ اگر وہ بھلی چیز ہے، تو تجھے مبارک، لیکن اگر یہ شے بری ہے، تو مجھے [یہ بدی] قبول ہے۔)

کہا جاتا ہے کہ بادشاہ جو ان کے حسن و جمال کو دیکھ‍ کر پہلے ہی پگھلنے کے قریب تھا، اس بے ساختہ جواب پر ان کی ذہانت کا بھی قائل ہو گیا۔ اس خوف سے کہ ان کے مزید چند لمحے دربار میں رہنے پر مبادا وہ ان کو دل دے بیٹھے، جلد از جلد انھیں انجام تک پہنچا دیا جائے۔ اس نے ان کے بال ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ‍ کر اسے دوڑا دیا اور انھیں اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔

بعض روایات کے مطابق گلا گھونٹ کر لاش کو آگ لگا دی گئی، بعض کا بیان ہے کہ باغ ایلخانی میں لے جا کر تانت سے گلا گھونٹ دیا گیا۔ بعض بیان کرتے ہیں کہ قصر شاہی کے ایک باغ میں جسے ”نگارستان“ کہتے تھے، لے جاکر دھکیل دیا گیا اور کنویں کو پتھروں سے پاٹ دیا گیا۔ ایک بیان کے مطابق زرین تاج کی زلفیں چاروں طرف سے کاٹ دی گئیں اور چندیا کے گرد سر مونڈ دیا گیا، پھر سر کے بیچ کے بال ایک خچر کی دُم سے باندھے گئے اور انھیں اِسی طرح کھینچتے ہوئے دارالقضا لایا گیا۔ ایک روایت کے مطابق ان کو وہاں لے جا کر پہلے گلا گھونٹا گیا، پھر آگ میں جھونک دیا گیا۔ 9 جولائی 1850ء کو وفات پا گئیں۔[2]

نمونۂ کلام ترمیم

گر بہ تو افتدم نظر، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو

شرح دہم غم ترا، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو
از پئے دیدن رخت، ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو
می رود از فراق تو، خون دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو

دور دہان تنگ تو، عارض عنبرین خطت

غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو<br

ابرو چشم و خال تو، صید نمودہ مرغ دل<br

طبع بہ طبع، دل بہ دل، مہر بہ مہر، خو بہ خو

مہر ترا دل حزیں، بافتہ بر قماش جاں<br

رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پو بہ پو

در دل خویش طاہرہ گشت و نہ دید جز ترا<br


صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو


یہ غزل قرۃ العین طاہرہ کی نمائندہ غزل ہے، ان کی اس بحر پر مختلف شعرا نے بہت سی طبع آزمائی کی ہے۔ جون ایلیاء جو قرۃ العین کے بہت بڑے مدّاح تھے، نے اس بحر کو اپنی پسندیدہ ترین بحر کہا ہے۔ ان کے والد سید شفیق الحسن ایلیاء امروہوی جو قرۃ العین طاہرہ کے افکار سے بہت متاثر تھے، نے اس زمین میں غزل کہی ہے:

روئے حسن، رخ حسین، جلوہ طراز مشرقین
غازہ بہ غازہ، خط بہ خط، دیدہ بہ دیدہ، دو بہ دو

طاہرہ اور حقوق نسواں ترمیم

قرۃ العین طاہرہ ایران میں حقوق نسواں پر بات کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ انھوں نے 1848ء میں بابی مذہب قبول کرنے سے 4 سال قبل حقوق نسواں اور عورت کے مرد کے برابر حقوق کی بات کی تھی۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. https://en.wikipedia.org/wiki/Táhirih
  2. عبد البہاء، ایپی سوڈ آف دی باب، صفحہ نمبر 45