محمد مصطفی جوہر (10 مئی 1891ء - 24 اکتوبر 1985ء) ایک پاکستانی عالم، مذہبی پیشوا، مقرر، شاعر اور فلسفی تھے۔ انھوں نے مختلف علوم پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ 24 اکتوبر 1985ء کو ان کی وفات ہوئی۔[1]

محمد مصطفی جوہر
معلومات شخصیت
پیدائش 10 مئی 1890ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہار، برطانوی ہند
تاریخ وفات 24 اکتوبر 1985ء (95 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستان
مذہب شیعہ
عملی زندگی
پیشہ فلسفی ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

جوہر کی ولادت ہندوستان کے صوبہ بہار میں ہوئی۔ وہ حکیم محمد مسلم، جن کا بھاگلپور میں مطب تھا، کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ وہیں جوہر نے انگریزی اسکول میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں انھیں سلطان المدارس، لکھنؤ میں داخلہ مل گیا۔ وہیں سے انھوں نے 1923ء میں فراغت حاصل کی۔[2]

مدرسہ عباسیہ

ترمیم

سنہ 1923ء میں میر باقر نے پٹنہ میں مدرسہ عباسیہ کی بنیاد رکھی۔ اگست 1925ء میں جوہر کو پہلا نائب مدرس اعلی منتخب کیا گیا۔ جنوری 1926ء میں وہ مدرس اعلی بن گئے۔ انھوں نے ابو الحسن کو پٹنہ بلایا اور مدرسہ کا نائب مدرس اعلی بنادیا۔

انگریزی

ترمیم

جوہر کو انگریزی زبان پر خاصی دسترس حاصل تھی۔ ایک مرتبہ جب انھیں جلدی خارش کی بیماری ہو گئی تو انھوں نے اس بیماری میں اپنا کچھ وقت قرآن اور دیگر مذہبی کتب سے فارغ کرکے الف لیلہ کے انگریزی ترجمہ کو پڑھنے میں صرف کیا۔ چنانچہ صحتیاب ہونے تک وہ ترجمہ مکمل کرچکے تھے اور اس اثنا میں اپنی انگریزی بھی کافی مضبوط کرلی تھی۔[2]

ادبی کام

ترمیم

مطالعہ کتب حیات جوہر کا جوہر تھا۔ خیال ہے کہ جوہر کو علوم منطق و فلسفہ اور خصوصاً فلسفہ وحدۃ الوجود پر عبور حاصل تھا۔ ان کی تصنیفات بہت ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

  • توحید و عدل نہج البلاغہ کی روشنی میں
  • عقیدہ جعفریہ
  • اصول جعفریہ
  • ثبوت خدا
  • جناب کے تاریخی خطبہ فدک کا ترجمہ جس کو سیرت فاطمہ زہرہ میں آغا سلطان احمد مرزا نے شامل کر دیا ہے۔
  • الغدیر جلد اول کا ترجمہ

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم