غلام عباس صدیقی

سندھ کے محدث، فقیہ عالم دین

مخدوم غلام عباس صدیقی، (دیگر نام: مخدوم عباس ہنگورجو، مخدوم عباس پاٹائی، مخدوم عباس ابن جلال پاٹائی) (پیدائش:نامعلوم - وفات:14 شعبان ،998ھ بمطابق 18 جون، 1590ء) سندھ کے تاریخی شہر پاٹ شریف (پاتر) کے مشہور و معروف صدیقی خانوادے سے تعلق رکھنے والے سولہویں صدی کے عظیم محدث، فقیہ اور علم تفسیر کے ماہر تھے۔

مخدوم غلام عباس صدیقی
معروفیتمحدث، فقیہ
پیدائشنامعلوم

پاٹ، دادو، سندھ (موجودہ پاکستان)
وفات14 شعبان ،998ھ بمطابق 18 جون، 1590ء

ہنگورجا، سندھ، (موجودہ پاکستان)
مدفنہنگورجا
نسلسندھی
عہدمغل دور
شعبۂ زندگیسندھ
مذہباسلام
فقہحنفی
شعبۂ عملفقہ، تفسیر، حدیث

پیدائش

ترمیم

مخدوم غلام عباس صدیقی سولہویں صدی کے اوائل میں سندھ کے تاریخی شہر پاٹ (فارسی کتب میں پاتر کے نام سے مشہور) کے ممتاز روحانی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شیخ جلال بن شیخ رکن الدین عرف مخدوم متو تھا۔[1][2][3][4]

خاندانی پس منظر

ترمیم

مخدوم غلام عباس بن شیخ جلال کا نسب شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی سے جا ملتا ہے جنہیں سمہ حکمرانوں نے پاٹ کا علاقہ بطور جاگیر مدد معاش کے طور پر دیا اور وہ آکر سندھ میں مقیم ہوئے۔ ان کا نسب نویں پشت میں میں سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی بغدادی سے جا ملتا ہے۔ شیخ عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی اور شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی کے درمیانی پشتوں کے نام گرامی یہ ہیں:

  • شیخ عمر بن محمد شہاب الدین شہروردی (539ھ - 632ھ)
  • شیخ محمد وہو المعروف شیخ احمد عماد الدین سہروردی (پیدائش: 558ھ بمطابق 1163ء)
  • شیخ قاسم (589ھ -652ھ بمطابق 1193ء - 1254ء)
  • شیخ رضی الدین (632ھ -695ھ بمطابق 1234ء - 1295ء)
  • شیخ مسعود (679ھ - 748ھ بمطابق 1280ء - 1347ء)
  • شیخ وجہ الدین (699ھ - 780ھ بمطابق 1299ء - 1378ء)
  • شیخ سراج الدین (736ھ - 811ھ بمطابق 1336ء - 1408ء)
  • شیخ نور الدین محمد (786ھ - 849ھ بمطابق 1384ء - 1445ء)
  • شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی (802ھ - 894ھ بمطابق 1399ء - 1489ء)

شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی کی اولاد اسی علاقے میں پھلی پھولی اور بڑے نامور بزرگ پیدا ہوئے۔ حتیٰ کہ پاٹ، پاٹ شریف اور قبۃ الاسلام کہلانے لگا، جسے فارسی میں 'ٹ' کا لفط نہ ہونے کی وجہ سے 'پاتر' لکھا گیا۔[5]

شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی کے فرزند کلاں شیخ معروف تھے جن کے نام معروفانی جھیل پاٹ شریف میں مشہور ہے۔ ان کے ایک بھائی مخدوم و قاضی ب رہان الدین کو پاٹ کے قریب علاقے ککڑ کا قاضی و مفتی بنا کر بھیجا گیا، ان کا مزار وہیں مرجع خلائق ہے۔ شیخ معروف کے فرزند کلاں شیخ رکن الدین نے ابتدائی زندگی پاٹ میں گزارنے کے بعد ٹھٹہ میں مدرسہ قائم کیا، اتفاقاً وہیں انتقال ہوا اور مکلی قبرستان میں دفن ہوئے۔ ان کی شرح کیدانی اور شرح الاربعین کے نسخے آج بھی ولہار چوٹیاری کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ ان کے دو فرزند شیخ عیسیٰ کبیر اور شیخ یوسف سندھی تھے، ان دونوں بزرگوں نے خاندان کی اقامت اور جاگیر پاٹ میں ہونے کے باوجود اسلاف کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے علاقے کے علاوہ حدودِ شہر سے باہر بھی علم و عرفان کی شمع کو جلائے رکھا۔ شیخ عیسیٰ کبیر نے اپنے دو فرزندوں شیخ معروف ثانی اور شیخ عثمان کے ہمراہ سیت پور مظفر گڑھ (موجودہ پنجاب) میں مدرسہ قائم کیا۔[5]

پاٹ کے صدیقی بزرگان کی ہجرت

ترمیم

سندھ کے سمہ خاندان کے عیش پسند حکمران جام فیروز کے دور میں سندھ کے بڑے بڑے شہر تباہ و برباد ہوئے۔ قتل و غارت گری کی گرم بازاری، فتنہ و فساد کی شورشوں کے پیشِ نظر لوگ امن و عافیت سے مایوس ہو کر ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔ اسی دوران شاہ بیگ ارغون نے سندھ کے دار الحکومت ٹھٹہ پر یورش کی، جام فیروز نے مقابلہ بھی کیا، لیکن ہزیمت پائی۔ فاتح فوج شہر میں قہر بن کر داخل ہوئی۔ لوٹ مار، قتل، آتشزدگی وہ کون سا عذاب تھا جو ٹھٹہ کے باشندوں پر مسلط نہ ہوا۔ شرفاء و علما کو ذلیل کیا گیا۔ عمائدین شہر ومشاہیرِ عصر بھی قید و بند اور ذلتوں سے نہ بچ سکے۔ جام فیروز نے صلح کی درخواست کی اور اس درخواست کے فیصلے کے مطابق شاہ بیگ ارغون نے جام فیروز کو مطمئن کر کے سندھ کے دیگر شہروں پر فوج کشی کی اور سیوستان، ٹلٹی، بکھر وغیرہ بزورِ شمشیر تسخیر کیا اور ہر جگ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ امن و امان تباہ ہوا۔ ان خونی انقلابات میں عوام اپنی جان و مال کو خطرے میں محسوس کرنے لگے بالخصوص علما، فضلا و معلمین کو اپنے مشاغل پر کاربند رہنے، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے مایوسی ہو گئے اور دل برداشتہ ہو کر بجز اس کے چارہ کار نہ دیکھا کہ اپنے اسلاف کی روش کے مطابق وطن سے ہجرت کرجائیں۔ چنانچہ سر برآوردہ علما و مشائخ جب موقع ملا یکے بعد دیگرے سندھ سے ہجرت کرنے لگے۔ اسی اثنا میں مسیح الاولیا و مسیح القلوب شیخ عیسیٰ جند اللہ کے والد شیخ قاسم اور عم شیخ طاہر محدث قصبہ پاٹ سے ہجرت کر کے گجرات، برار اور وہاں سے ہجرت کر کے برہانپور تشریف لے گئے۔[6] اسی خاندان کے ایک مشہور بزرگ مخدوم غلام عباس اپنی زندگی کی آدھی صدی پاٹ میں گزارنے کے بعد 947ھ میں ہجرت کر کے سندھ کے تاریخی شہر ہنگورجا میں سکونت پزیر ہوئے۔[4][3]

درس و تدریس

ترمیم

مخدوم غلام عباس تفسیر، حدیث اور فقہ میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ رات دن ریاضت و مجاہدہ میں محو رہتے تھے[3]۔ برہانپور کے سندھی اولیاء میں تاریخ معصومی کے حوالے سے منقول ہے کہ:

مخددم عباس علمِ تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم میں کمال مہارت رکھتے تھے، مسائل کی تحقیق و تدقیق بڑی خوبی سے کیا کرتے تھے، زہد و تقویٰ میں اپنی نظیر آپ تھے۔ دن اور رات کے جملہ اوقات میں وہ عبادات میں مشغول رہا کرتے تھے۔ تلاوتِ حدیث پر وہ بڑے عجز و انکسار سے کام لیا کرتے تھے۔ احادیث سناتے وقت بے اختیار ہوجاتے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہونے لگ جاتی تھی، جس کی وجہ سے سامعین کو احادیث سننے کی تاب نہ رہتی۔[1]

یہی وجہ تھی کہ علم و معرفت کے متلاشی جوک در جوک سفر کی صعوبتیں سہتے ہوئے مخدوم غلام عباس کے پاس فیض حاصل کرنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ انھوں نے دمِ آخر تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، ان سے درس حاصل کرنے والے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن میں قاضی عبد السلام اور شیخ مبارک پاٹائی زیادہ مشہور ہوئے ہیں۔

اولاد

ترمیم

مخدوم عباس کی اولاد سے مخدوم مخدوم جنید اللہ ہنگورجا کے قریبی شہر ہالانی میں جا بسے، جن کے فرزند مخدوم اسما عیل جن کے فرزند مخدوم عثمان اور جن کے فرزند مخدوم داؤد تھے، جن کی اولاد میں سے مخدوم نور محمد مشہور تھے۔ انہی کی اولاد تا دم زمانہ تھریچانی (سکھر کے نواح) میں مقیم ہے۔[7][8]

وفات

ترمیم

سندھ کے نامور محدث، فقیہ اور عالمِ دین مخدوم غلام عباس صدیقی 96 سال کی عمر میں بروز پیر 14 شعبان ،998ھ بمطابق 18 جون، 1590ء کو سندھ کے شہر ہنگورجا میں وفات پاگئے اور ہنگورجا ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔[9][10][4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب سید محمد مطیع اللہ راشد برہانپوری: برہانپور کے سندھی اولیاء، تعلیقات:مخدوم سلیم اللہ صدیقی، ص 15، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2006ء
  2. مخدوم عباس پاٹائی، انسائکلوپیڈیا سندھیانا آن لائن، سندھی زبان کا با اختیار ادارہ، حیدرآباد سندھ
  3. ^ ا ب پ پروفیسر (ر) میر محمد سومرو: تاریخ ہنگورجا، ص 29، آشکار پرنٹرز، حیدرآباد سندھ، 1993ء
  4. ^ ا ب پ میر محمد معصوم بکھری: تاریخ معصومی، ص 228، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2006ء
  5. ^ ا ب سید محمد مطیع اللہ راشد برہانپوری: برہانپور کے سندھی اولیاء، تعلیقات:مخدوم سلیم اللہ صدیقی، ص 13-15، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2006ء
  6. سید محمد مطیع اللہ راشد ب رہانپوری:برہانپور کے سندھی اولیاء، ص 32-35،سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2006ء
  7. سید محمد مطیع اللہ راشد برہانپوری: برہانپور کے سندھی اولیاء، تعلیقات: مخدوم سلیم اللہ صدیقی، ص 18، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2006ء
  8. محمد غوثی شطاری مانڈوی: گلزار ابرار، سندھی ترجمہ: مخدوم عبد الجبار صدیقی، ص 48-50، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، 2009ء
  9. مولانا دین محمد وفائی، تذکرہ مشاہیر سندھ (جلد دوم - جلد سوم)، اردو ترجمہ ڈاکٹر عزیز انصاری / عبد اللہ وریاہ، سندھی ادبی بورڈ، جام شورو سندھ، ص 166، 2005ء
  10. تاریخ ہنگورجا: پروفیسر (ر) میر محمد سومرو، ص 32، آشکار پرنٹرز، حیدرآباد سندھ، 1993ء