مخفی صالحہ بیگم
مخفی صالحہ بیگم (پیدائش: 1924ء— وفات: 21 اکتوبر 1973ء) اردو زبان کی شاعرہ تھیں۔وہ بیسویں صدی میں کلکتہ کی ادبی محافل میں اہم ترین خاتون شاعرہ شمار کی جاتی ہیں۔
مخفی صالحہ بیگم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1924ء کولکاتا |
وفات | 21 اکتوبر 1973ء (48–49 سال) کولکاتا |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمخاندان اور ابتدائی حالات
ترمیممخفی بیگم 1924ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے خاندان پٹنہ میں آباد تھا جہاں سے اُن کے دادا بہار اور بنگال کے اضلاع میں ملازمت کے بعد کلکتہ پہنچے اور وہیں آباد ہو گئے۔ مخفی بیگم کے والد سید وحیدالدین احمد نے علی گڑھ میں تعلیم پائی تھی اور بعد میں کلکتہ میں سرکاری ملازم ہو گئے تھے۔ خاندان کا ماحول انگریزی تعلیم کے باوجود مذہب و تصوف کی روایت میں رنگا ہوا تھا۔ چنانچہ سید وحیدالدین احمد بھی دفتر سے واپسی پر درس و تدریس میں مشغول ہوجاتے اور اُن کے اِردگرد اصحابِ علم و فضل کا مجمع جمع رہتا تھا۔
تعلیم اور ازدواجی زندگی
ترمیمصالحہ بیگم کو کسی اسکول میں باضابطہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ جو کچھ حاصل کیا، گھر پر اپنی ذاتی محنت و لیاقت کے باعث حاصل کیا۔ بدقسمتی سے خانگی زِندگی بہت المناک گذری۔ پہلی شادی سورت کے ایک صاحب عباس بھائی نامی شخص سے ہوئی تھی۔ اِس سے ایک بیٹی طاہرہ کلثوم پیدا ہوئیں۔ اِس شوہر سے علیحدگی کے بعد تعلیمی و سماجی کاموں میں دلچسپی لینے لگیں اور چھوٹی بچیوں کے لیے مدرسۃ البنات الغربا اور بڑی لڑکیوں کے لیے ہوڑہ شہر میں ایک یتیم خانہ قائم کیا۔ انھوں نے دونوں اِدارے بحسن و خوبی چلائے لیکن ذمہ داری اور مالی مصارف کے بڑھ جانے کے بعد اِن دونوں اِداروں کو لوگوں کے سپرد کر دیا۔ اِسی زمانے میں انھوں نے عبد الحئی صاحب سے نکاح کر لیا جو مقالی پریزیڈینسی کالج میں انگریزی کے مدرس تھے۔ وہ 1947ء میں جالندھر میں فساد میں قتل ہو گئے۔ اِن سے دو بیٹیاں رضیہ بانو اور فاطمہ فرخ تھیں۔[1]
وفات
ترمیمصالحہ بیگم عرصہ دراز سے مرض تنفس کا شکار تھیں لیکن 21 اکتوبر 1973ء کو اچانک فشارِدَم سے کولکاتا میں وفات پائی۔
شاعری
ترمیمصالحہ بیگم نے شاعری کا آغاز 1934ء میں کیا اور کسی سے اصلاح نہیں لی۔ انھوں نے کسی زمانے میں ہفتہ وار عبرت بھی کلکتہ سے جاری کیا تھا، جو بہت دن تک اُن کی اِدارت میں شائع ہوتا رہا۔ 1937ء میں اُن کے سلاموں کا مجموعہ ’’جذباتِ مخفی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ افسانوں کا مجموعہ ’’نیا شاہکار‘‘ کے عنوان سے کلکتہ میں 1956ء میں شائع ہوئے تھے۔ دِیوان مرتب ہوجانے کے باوجود اُن کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہو سکا۔ کلام میں کوئی خاص بات نہیں، چونکہ اُن کی زِندگی بے حد پریشانی میں گذری تھی، تو خاص طور پر خانگی سکون بہت حد تک مفقود رہا، اِس لیے اُن کے اَشعار میں بیچارگی و تنہائی کے مضامین جابجا ملتے ہیں۔[2]