مرزا ادیب
میرزا ادیب (پیدائش: 4 اپریل 1914ء— وفات: 31 جولائی 1999ء) پاکستان کے نامور ڈراما نویس، افسانہ نگار اور ناول نگار تھے۔
مرزا ادیب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 اپریل 1914ء [1] لاہور |
وفات | 31 جولائی 1999ء (85 سال)[1] لاہور |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند لندن |
عملی زندگی | |
مادر علمی | اسلامیہ کالج لاہور |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیممرزا ادیب 4 اپریل 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اصل نام دلاور حسین علی ہے۔ والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ میرزا ادیب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنالیا۔ اور پھر اردو ادب کی خدمت پر کمربستہ ہو گئے۔ اور اسی کو مقصد حیات سمجھ لیا۔ ان کا خاص میدان افسانہ نگاری اور ڈراما نگاری ہے۔ بزرگ افسانہ نگار محترم میرزا ادیب نے اپنی 82 سالہ زندگی میں اردو کو بہت کچھ دیا ہے۔ نثری ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس میں ان کی قد آور شخصیت کی چھاپ نہ ہو، افسانہ، ڈراما، سفرنامہ، تنقید، تراجم، تالیفات بچوں کے لیے کہانیاں، غرض ہر صنف میں میرزا ادیب کی گراں قدر تخلیقات اردو کی توقیر میں اضافہ کا باعث ہیں۔ میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط، صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، حسرت تعمیر، متاع دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، فصیل شب، شیشے کے دیوار، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض، گلی گلی کہانیاں اور ان کی خودنوشت سوانح "مٹی کا دیا" شامل ہیں۔ انھوں نے کئی رسالوں کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے جن میں سے (ادب لطیف) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔مرزا ادیب کا ڈراما شہید پاکستان کی نصابی کتب میں بھی شامل ہے۔
مرزا ادیب ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے ان کئی کے کئی فیچر اور ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے جن کو شہرت عام حاصل ہوئی۔ ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعزاز میں انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔