مسعود علی ندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے عالم اور علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد

مسعود علی ندوی (پیدائش: 1889ء - وفات: 27 اگست 1967ء) دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے اولین فارغ فضلا میں سے تھے، علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد اور خاص تربیت یافتہ تھے، بہترین منتظم اور مدبر تھے، دار المصنفین شبلی اکیڈمی کے بانیان میں سے تھے۔[1]

مسعود علی ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1889ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارہ بنکی ضلع ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 اگست 1967ء (77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعظم گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1889–14 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–27 اگست 1967)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء (1904–1913)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ شبلی نعمانی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مصنف ،  ادیب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی اور تعلیمی زندگی

ترمیم

مولوی مسعود علی ندوی کی پیدائش 1889ء میں اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کے گاؤں "بھیارہ" میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر اور گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، 1904ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا، 1913ء میں فارغ ہوئے۔ استاد علامہ شبلی نعمانی سے خاص تعلق رہتا تھا، ان کی نفاست طبع، خوش سلیقگی اور انتظامی صلاحیت کا علم ان کے استاذ علامہ شبلی کو بخوبی تھا، یہی وجہ ہے کہ مجوزہ دار المصنفین کے لیے علامہ شبلی ان کو ضرور خیال کرتے تھے، اس کا اندازہ شبلی کے ان کے نام خطوط سے ہوتا ہے۔ مکاتیب شبلی میں مولوی مسعود علی ندوی کے نام تقریباً 33 خطوط ہیں۔

عملی زندگی

ترمیم

فراغت کے بعد علامہ شبلی نعمانی سے ہی متعلق رہے اور دار المصنفین کی منصوبہ و تعمیر میں لگے رہے، 1914ء میں علامہ شبلی کی وفات کے بعد کئی مہینے تن تنہا اعظم گڑھ میں مقیم رہے، تقریباً 90 ہزار کا چندہ جمع کیا اور دار المصنفین کے ابتدائی مراحل اور انتظامات مکمل کیے، اس کے ابتدائی پانچ ارکان میں ان کا نام شامل تھا۔ قیام دار المصنفین کے بعد اس کے پہلے مہتمم انتظامی مقرر کیے گئے۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی سے ان کے تعلق اور ان کی اہمیت سے متعلق شاہ معین الدین ندوی لکھتے ہیں:

دار المصنفین کو پروان چڑھانے میں دونوں کا حصہ ہے، سید صاحب (سید سلیمان ندوی) اگر اس کی روح ہیں تو مولانا مسعود علی ندوی اس کا جسم، سید صاحب کی ذات سے ہندوستان اور بیرون ہند میں دار المصنفین کی علمی شہرت ہوئی تو مسعود علی نے اس کا مقامی وقار قائم کیا اور اس کے انتظامی امور کو سنبھالا۔

ان کا انتظامی اور تعمیری ذوق اعلی پیمانہ تھا، دار المصنفین کی عمارتیں اور مسجد، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کا مہمان خانہ، دفتر مالیات، قدیم دار الاقامہ، مسجد اور شبلی کالج کا کانفرنس ہال انھیں کے ذوق تعمیر کے جلوے ہیں، اسی طرح دار العلوم ندوۃ العلماء کی مسجد کی تعمیری نگرانی کے لیے بھی اس وقت کے ناظم عبد العلی حسنی ندوی نے انھیں کو مقرر کیا تھا، چنانچہ انھوں نے خود ہی نقشہ بنایا، معمار و مزدور فراہم کیے اور اپنی نگرانی میں کھڑے ہو کر اس کا کام شروع کرایا۔ [2] مولوی مسعود علی ندوی کو قومی وملی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی۔ کانگریس، مجلس خلافت اور جمعیۃ العلماء کے جلسوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ ہندوستان کے اس وقت کے عظیم مجاہدین آزادی اور سیاسی قائدین سے تعلقات تھے۔موتی لال نہرو، پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ ان کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔[3] مجلسی آدمی تھے، ان کے زمانہ میں دار المصنفین شہر اعظم گڑھ کے صاحب اثر ونفوذ کی ایک نشست گاہ تھی۔ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے، اشراق و تہجد کی نماز کے بھی پابند تھے۔ حج کی دو مرتبہ سعادت حاصل کی۔

وفات

ترمیم

اخیر عمر میں متعدد بار فالج کا حملہ ہوا اور ایک عرصہ تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد 27 اگست 1967ء کو انتقال ہو گیا۔ اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی کے سرہانے دار المصنفین ہی میں مدفون ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 02 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2020 
  2. پرانے چراغ، از؛ مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، حصہ دوم، صفحہ 93
  3. پرانے چراغ، از؛ مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، حصہ دوم، صفحہ 92 ،97